بلوچستان سے متعلق یہ میرا تیسرا کالم ہے اور اس تسلسل کے پیچھے صوبائی حکومت کے ترجمان انوارالحق کاکڑ کا یہ احساس آفریں جملہ ہے کہ میڈیا بلوچستان کو اس کی آبادی کے حساب سے نہیں بلکہ رقبے کے اعتبار سے نمائندگی دے۔بلوچستان یونیورسٹی میں بھی طلبہ و طالبات یہ شکوہ کرتے نظر آئے کہ محض وفاقی حکومت نے ہی تغافل سے کام نہیں لیا بلکہ قومی پریس نے بھی بلوچستان کونظر انداز کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔اگر میرے گزشتہ کا لموں سے آپ نے یہ تاثر لیا ہے کہ بلوچستان میں سب اچھا ہے تو براہ کرم تصحیح فرمالیں۔میں نے تو محض تصویر کا وہ مثبت رُخ دکھانے کی کوشش کی جسے باالعموم نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔مسائل بدستور موجود ہیں اور ایسے گنجلک و پیچیدہ کہ گاہے یوں لگتا ہے جیسے انسان بھول بھلیوں میں کھو گیا ہو۔ دہشتگردی کے اندیشے اور وسوسے تو اپنی جگہ مگر اغواء برائے تاوان کی وارداتیں عروج پر ہیں اور تاثر یہ ہے کہ سب کچھ مقتدر حلقوں کی ملی بھگت سے ہو رہا ہے۔ ڈاکٹرز اور وکلاء سمیت معاشرے کے پڑھے لکھے افراد ٹارگٹ کلنگ کی زد میں ہیں۔اس شہر ناپرساں میں ہر شخص کی زبان پر گلے اور شکوے ہیں۔کرپشن کو تو ہمارے قومی مشغلے کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے مگر یہاں تو لوٹ مار کی گنگا مسلسل بہہ رہی ہے اور ہر بااثر و طاقتور شخص حسب استطاعت و حسب توفیق ہاتھ نہیں دھو رہا بلکہ نہا رہا ہے۔ریاست سے غلطی یہ ہوئی کہ براہ راست عوام سے رجوع کرنے کے بجائے قبائلی سرداروں پر انحصار کیا گیا،قومی وسائل ان کے توسط سے خرچ کرنے کی روش اپنائی گئی اور یوں عوام کے حالات تو نہ بدلے البتہ سرداران ِقوم خوشحال ہوتے چلے گئے۔کینٹ سے باہر نکلیں تو یوں لگتا ہے جیسے کوئٹہ ایک چھوٹا سا قصبہ ہو۔لاہور تو کیا پنجاب کے کسی بھی شہر سے اس کا موازنہ ممکن نہیں۔شہر کے پڑھے لکھے افراد سے مکالمہ ہوا تو ان سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ان گمبھیر مسائل کا حل کیا ہے؟حالات کس طرح بہتر ہو سکتے ہیں؟لیکن جس قدر سلجھانے کی کوشش کی ،ڈور اتنی ہی الجھتی چلی گئی۔متعدد افراد سے عرض کیا کہ معاشرے کو پسماندہ رکھنے کا ذمہ دار کون ہے ؟آپ کے نواب اور سردار،تو پھر آپ ان کے خلاف بغاوت کیوں نہیں کرتے؟جواب ملا ،یہ لوگ بہت طاقتور ہیں ان کے خلاف جانے کا تو سوچا بھی نہیں جا سکتا۔میں نے عرض کیا ،کمال کرتے ہیں حضور! وفاق اور ریاست کے خلاف بندوق اٹھا سکتے ہیں ،پہاڑوں پر جا سکتے ہیں ،مگر ان سرداروں کے خلاف کھڑے نہیں ہو سکتے جنہوں نے اپنے مفادات کے لئے ہر دور میں آپ کا استحصال کیا؟18ویں ترمیم کے بعد وفاق محض وسائل مہیا کرنے کے علاوہ کر بھی کیا سکتا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے چند برس قبل اعلان کیا تھا کہ پنجاب حکومت کی جانب سے کوئٹہ میں امراض قلب کا ایک بہترین اسپتال بنایا جائے گا۔ مگر کئی برس گزرنے کے باوجود یہ وعدہ پورا نہیں کیا جا سکا ۔اب معلوم ہوا ہے کہ امراض قلب کے اسپتال کے لئے زمین مختص ہو چکی ہے ۔تاخیر کی وجہ محض یہ ہے کہ پنجاب حکومت چاہتی ہے کہ یہ منصوبہ اپنے طور پر مکمل کرنے کے بعد بلوچستان کے حوالے کیا جائے جبکہ بلوچستان حکومت کا مطالبہ ہے کہ اس منصوبے کے لئے مختص رقم ان کے حوالے کر دی جائے اور یہ منصوبہ وہ خود مکمل کریں۔کرپشن کے بعد دوسرا مسئلہ مرکزی قیادت کا فقدان ہے۔پورے صوبے میں قومی سطح تو کجا کوئی صوبائی سطح کا لیڈر بھی دستیاب نہیں۔سب علاقائی سطح کے سیاستدان ہیں جن کی سوچ ان کے حلقہ انتخاب سے باہر جاتی ہی نہیں ہے۔ریاستی انتظام ِکار میں افسر شاہی کو کلیدی اور مرکزی حیثیت حاصل ہوا کرتی ہے ۔جس طرح سی ایس ایس کیڈر کے سول سرونٹ ملک بھر میں خدمات سرانجام دیتے ہیں اگر یہاں بھی بہترین سول سرونٹ چُن کر لائے جائیں تو اداروں کو مستحکم کر کے ترقی و خوشحالی کا سفر شروع کیا جا سکتا ہے لیکن اس میں اڑچن یہ ہے کہ ایک طرف کوئی افسر اس شورش زدہ علاقے میں آنے کو تیار نہیں اور اگر چند سر پھرے اس اوکھلی میں سر دینے کو تیار ہو بھی جائیں تو فہم و شعور سے عاری لوگ ہنگامہ برپا کر دیتے ہیں کہ آباد کار آگئے۔یہ زہرناک تبصرے ہونے لگتے ہیں کہ اب پنجابی ہم پر حکمرانی کریں گے؟ایک صاحب جنہوں نے خود کو مقامی کالج کے لیکچرر کے طورپر متعارف کروایا ،کہنے لگے کوئٹہ میں کوئی صنعت نہیں ،کارخانہ نہیں ،بے روزگاری کا سلسلہ عروج پر ہے۔میں نے بصد احترام عرض کیا،جب کوئی فیصل آباد ،گوجرانوالہ ،لاہور یا لاڑکانہ سے انڈسٹری لگانے آتا ہے تو انہیں آباد کار کہہ کر مار دیا جاتا ہے۔ان حالات میں کون یہاں سرمایہ کاری کرے گا؟
امن و امان کی صورتحال یہ ہے کہ صوبے کا 94فیصد علاقہ نیم مسلح فورس لیویز کے زیر انتظام ہے اور محض 6فیصد علاقے میں پولیس یا ایف سی تعینات ہے۔لیویز اہلکارسیاسی بنیادوں پر بھرتی ہوتے ہیں اور ان کی تربیت و اہلیت کا معیار وہی ہے جو ہمارے ہاں پنجاب یا سندھ میں پولیس کی رضا کار فورس کا ہے۔کئی مرتبہ یہ کوشش ہوئی کہ ان علاقوں کو ’’بی‘‘ کے بجائے ’’اے‘‘ کیٹیگری میں شامل کیا جائے تاکہ یہاں قانون کی عملداری پولیس کی ذمہ داری ہومگر ہر بار سیاسی مصلحتیں آڑے آتی رہیں اور یہ فیصلہ نہ کیا جا سکا۔اب حالات یہ ہیں کہ فرنٹیئر کانسٹیبلری دہشت گردی کے خلاف بھی نبردآزما ہے اور اس کے ساتھ ساتھ تعلیمی ادارے اور ڈسپنسریاں بھی چلا رہی ہے۔میں تو ایک عرصہ سے یہ بات کہتا چلا آ رہا ہوں کہ زمین نہیں لوگ اہم ہوتے ہیں مگر پہلی مرتبہ کوئٹہ میں دو فوجی جرنیلوں کے منہ سے یہ بات سنی کہ ہمیں علاقے فتح نہیں کرنے لوگوں کے دل جیتنے ہیں۔کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض اور آئی جی ایف سی میجر جنرل شیر افگن اس حوالے سے یکسو ہیں کہ فوجی آپریشن سے عارضی طور پر تو امن ہو سکتا ہے مگر دیرپا امن کے لئے بلوچوں ،پختونوں اور دیگر قبائل سے تعلق رکھنے والے افراد کی محرومیوں کا ازالہ کرنا ہو گا۔جنرل عامر ریاض کا خیال ہے کہ اگر پانچ سال فوجی و سول قیادت ملکر جدوجہد کرے تو بلوچستان کو وفاق سے ایک پائی لینے کی ضرورت نہیں ہو گی اور اگر دس سال کی مہلت مل گئی تو گوادر پورٹ اور اقتصادی راہداری جیسے منصوبوں کی تکمیل کے نتیجے میں پاکستان خودکفیل ہو جائے گا اور ملک چلانے کے لئے کسی سے امداد کی بھیک نہیں مانگنا پڑے گی۔ایران کی چاہ بہار پورٹ پر لگ بھگ 20جہاز لنگر انداز ہو سکتے ہیں مگر گوادر پورٹ کی وسعت کا یہ عالم ہے کہ ایک ہی وقت میں120جہاز کھڑے ہو سکتے ہیں۔ لیکن محض بیانات سے نہیں اقدامات سے ثابت کرنا ہو گاکہ بلوچستان ہی پاکستان کی شان ہے اور ہمیں علاقہ تسخیر نہیں کرنا ،لوگوں کے دل و دماغ جیتنے ہیں کیونکہ زمین نہیں لوگ اہم ہوتے ہیں۔