12 ستمبر کو ایم کیو ایم کی جانب سے قومی اسمبلی میں لینڈ ریفارمز بل پیش کیا گیا جس میں 1959، 1972 اور 1977 ہونے والی تینوں زرعی اصلاحات کو غیر موثر قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ تینوں کوششیں ’’بڑی جائیدادوں کے سائز‘‘ کو کم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ اس بل پر اعتراض کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) وزیر مملکت برائے کیڈ ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے کہا کہ لینڈ ریفارمز پہلے بھی کی گئیں اور ان ریفارمز کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے، چونکہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے لہٰذا بل کو ایجنڈے پر نہ لیا جائے اور نہ ہی قائمہ کمیٹی کو بھجوایا جائے۔ بل پر اظہار رائے کرتے ہوئے نواب یوسف تالپور نے فرمایا کہ ہمیں اس بل پر شدید تحفظات ہیں۔ ہم اپنے تحفظات کمیٹی کے سامنے رکھیں گے۔ بل پر گفتگو کرتے ہوئے تحریک انصاف کی رہنما ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ سابقہ لینڈ ریفارمز نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئیں، اس کے برخلاف سول ملٹری بیورو کریسی کو زمینیں بانٹی گئیں، غریب کسانوں کو کچھ نہ ملا۔ پی ٹی آئی کے اسد عمر نے کہا کہ ہم بل کی حمایت کرتے ہیں۔ مخالفت کرنے والوں کو بل میں کوئی خامی نظر آتی ہے تو وہ کمیٹی میں جائے اور ٹھوس دلائل کے ساتھ اپنا موقف پیش کرے۔
ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ افسوس یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی کے لوگ آج اپنے ہی قائد کی پالیسی کی مخالفت کر رہے ہیں۔ فاروق ستار نے کہا کہ انگریزوں کے دور میں کچھ لوگوں کو لاکھوں ایکڑ اراضی سے نوازا گیا، اب وقت آگیا ہے کہ زمینوں کی منصفانہ تقسیم کی جائے۔ اس دوران بل کے حامی ارکان ’’وڈیرہ شاہی نہیں چلے گی، ٹیکس چوری نہیں چلے گی‘‘ کے نعرے لگاتے رہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے کہا کہ جب تک کورم پورا نہیں ہوگا ہم ایوان کی کارروائی نہیں چلنے دیں گے۔ وزرا عیاشیاں کرتے رہیں یہ ہم نہیں ہونے دیں گے۔
اس حوالے سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں ہونے والے تین لینڈ ریفارمز کو ناکام کس نے بنایا؟ اس سوال کا آسان جواب یہ ہے کہ ہمارے قانون ساز اداروں میں وڈیرے اور جاگیردار طاقتور تھے، لینڈ ریفارمز سے ان کی بالادستی ختم ہوجاتی اور وہ کسی قیمت پر ملکی سیاست میں اپنی بالادستی ختم کرنے پر تیار نہ تھے، سو ان طبقات نے بیوروکریسی کی مدد سے تینوں زرعی اصلاحات کو ناکام بنادیا اور آج بھی وہ لاکھوں ایکڑ زرعی اراضی کے مالک بنے بیٹھے ہیں اور اسی کی بدولت وہ غریب کسانوں اور ہاریوں کے ووٹ لے کر قانون ساز اداروں میں پہنچتے ہیں اور اپنے طبقاتی مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔
ایوب خان کی زرعی اصلاحات سیاستدانوں کو بلیک میل کرنے کے لیے استعمال کی گئیں، کیونکہ ایوب خان کو یہ علم تھا کہ پاکستانی سیاست پر وڈیروں اور جاگیرداروں کی گرفت مضبوط ہے اور یہ لوگ آیندہ میرے لیے خطرہ بن سکتے ہیں، اس خطرے کا ازالہ کرنے کے لیے ایوب خان نے یہ دو رخی زرعی اصلاحات کیں جس کا ایک مقصد یہ تھا کہ عوام میں اس اقدام سے واہ واہ ہوجائے اور اس کا دوسرا مقصد یہ تھا کہ یہ وڈیرے جاگیردار ان زرعی اصلاحات سے گھبرا کر اس کی مخالفت سے باز آجائیں اور ایوب خان اپنے اس مقصد میں کامیاب رہے۔ جاگیردار طبقے نے ایوب خان کی مخالفت ترک کردی اور مسلم لیگ کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کرکے ایک ٹکڑا (کنونشن لیگ) ایوب خان کی خدمت میں پیش کردیا۔ جاگیرداروں کی اس سعادت مندی کے صلے میں ایوب خان نے تابعدار جاگیرداروں کی چھینی ہوئی زمینیں واپس کردیں اور ان ہی ننگ انسانیت جاگیرداروں کی حمایت سے ملک پر 10 سال تک حکومت کرتے رہے۔
اس حوالے سے یہ جاننا ضروری ہے کہ آخر ان جاگیرداروں کو لاکھوں ایکڑ زمین کس کس نے دی اور کیوں دی؟ متحدہ ہندوستان میں مغل بادشاہوں نے اپنے حکمرانی مفادات اور اقتدار کے تحفظ کے لیے امرا پال رکھے تھے، ان امرا کی یہ ذمے داری تھی کہ وہ جنگوں میں بادشاہ کو فوجی مہیا کریں، امرا زرعی معیشت سے وابستہ کسانوں اور ہاریوں کو جنگی خدمات ادا کرنے کے لیے بادشاہوں کی خدمت میں پیش کرتے تھے اور عوام سے ٹیکس وصولی کا کام بھی جاگیردار کیا کرتے تھے، انھی خدمات کے معاوضے میں بادشاہوں نے ان عوام کے غدار جاگیرداروں اور وڈیروں کو لاکھوں ایکڑ اراضی بخشش میں دی اور انھیں اپنا معتمد بناکر عوام کے سروں پر مسلط کیا۔ مغلوں کے بعد جب انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کیا تو انھیں بھی عوام کو کنٹرول کرنے کے لیے ان کی ضرورت درپیش تھی، سو انگریزوں نے بھی انھی کو جاگیریں اور منصب داریاں بخشیں، اس کے عوض جاگیردار اور وڈیرے انگریز حکمرانوں کی خدمت کرتے رہے۔ یوں آج کے ان مہذب طبقات کی حیثیت ماضی میں حکمرانوں کے غلاموں کی سی تھی اور ان کا کام حکمران طبقات کی خدمت کے علاوہ کچھ نہ تھا۔
ذوالفقار علی بھٹو ایک روشن خیال جاگیردار تھے، اتفاق سے انھیں روشن خیال ساتھی ملے اور انھی کی مدد سے بھٹو نے وہ ترقی پسندانہ منشور بنایا جو عوام میں ان کی ہر دلعزیزی کا سبب بنا۔ روٹی کپڑا اور مکان، مزدور کسان راج کے نعرے بھٹو کے انھی ترقی پسند دوستوں کی ایجاد تھے جو ملک کے سیکڑوں سال پرانے نظام کو بدل کر عوام کی حکمرانی کے لیے کوشاں تھے، لیکن بدقسمتی سے بھٹو مرحوم وڈیروں کی گرفت میں آگئے اور بیورو کریسی کی مدد سے انھوں نے بھٹو کی زرعی اصلاحات کو بھی ناکام بنادیا، یہی حال تیسری زرعی اصلاحات کا ہوا۔
پاکستان میں زرعی اصلاحات کے لیے بائیں بازو کی سیاسی جماعتیں ہاری تنظیمیں بہت کام کرتی رہی ہیں، پنجاب میں چوہدری فتح محمد، سی آر اسلم اور ان کے ساتھیوں نے زرعی اصلاحات کے لیے بہت کام کیا، کسان کانفرنسیں کیں اور زرعی اصلاحات کے لیے تحریکیں چلائیں۔ سندھ میں حیدر بخش جتوئی نے زندگی بھر ہاریوں کو منظم کرنے کا کام کیا، ہاری تحریک حیدر بخش جتوئی کے نام ہی سے پہچانی جاتی ہے۔ خیبر پختونخوا میں مرحوم میجر اسحق نے جاگیردارانہ نظام کے خلاف ملی ٹینٹس تحریکیں چلائیں جن میں ہشت نگر تحریک نمایاں تھی، لیکن ان ساری کوششوں کو حکمران طبقات نے سبوتاژ کردیا۔
نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد تمام نوآزاد ملکوں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ زرعی اصلاحات کے ذریعے جاگیرداری نظام کو ختم کردیا، کیونکہ ان ملکوں کے سیاستدان یہ جانتے تھے کہ جب تک ملک میں جاگیردارانہ نظام موجود ہے ملک ترقی کی طرف پیش قدمی نہیں کرسکتا۔ لیکن مقام شرم ہے کہ 70 سال گزرنے کے باوجود پاکستان میں جاگیردارانہ نظام موجود ہے اور آج بھی جاگیردار لاکھوں ایکڑ زمین کے مالک بنے بیٹھے ہیں۔ عوامی ورکرز پارٹی کے رہنما عابد حسین نے زرعی اصلاحات کے حوالے سے پٹیشن داخل کی تھی جسے اسلامی نظریاتی کونسل نے مسترد کردیا، اب یہ کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ چونکہ یہ مسئلہ عدالتوں میں عشروں سے زیر التوا ہے اس حوالے سے متحدہ کی طرف سے قومی اسمبلی میں جو لینڈ ریفارمز بل پیش کیا گیا ہے اس کی حمایت کی جانی چاہیے تاکہ ہمارا ملک، ملک کی سیاست اور اقتدار جاگیرداروں اور وڈیروں کی گرفت سے آزاد ہو اور زرعی معیشت سے جڑی 60 فیصد آبادی آزاد ہو اور انتخابات میں آزادی سے اپنے ووٹ کا استعمال کرسکے۔