تحریر: انیلہ احمد
آرٹیکل ہماری قومی زبان اردو کا پہلا حصّہ قارئین اور ناظرین کی آرا کا احترام ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اس کا دوسرا حصّہ پیشِ خدمت ہے اکثریت کےخیال میں ہماری اپنی قومی و مادری زبان استعمال نہ کرنے کی وجہ جاہلیت اور احساسِ کمتری نو دولتیے ہونے کے ساتھ ساتھ ان پڑھ ہونا گنوار طبقے کا سطحی اندازِ فکر ہے اور اکثر نے نا سمجھی کہا یہ کسی حد تک درست ہے خوشی بھی ہوئی کہ ابھی ہماری قوم میں احساس ِ ذمہ داری اور وطنِ عزیز سے محبت کا جزبہ بدرجہ اتم موجود ہے٬ اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہم خود اپنےا صل سے دور ہو رہے ہیں٬۔
اس کی کیا وجہ ہے؟ ہماری سوچ کے مطابق ہم نے ہر صورت میں ایک دوسرے کو متاثر کرنے کا جنون جو پال رکھا ہے٬ دیوانگی کی حد تک دکھاوا خود پر مسلط کر کے اپنی زندگی کو خود لاشعوری طور پے تباہ کرنے کا اہتمام کر رکھا ہے٬۔
اپنے آپ کو منوانے کے چکر میں خود کو کسی حد تک اندر سے ختم کر کے کتنی آسانی سے انگریزوں کا چال چلن اپنا لیا٬ اپنے حلیے اپنے رویّے اور انداز تک بدل لئے ٬ جھوٹ بولتے ہیں نہ سچ ٬ لیکن پھر بھی معاشرے میں خود کو کہیں نہ کہیں پیوست کر لیتے ہیں ٬ پیچھے سے چاہے آپ کا تعلق خواہ کتنے ہی نچلے طبقے سے ہو٬ لیکن تعلق اپنا شاہی خاندان سے جوڑتے ہوئے گفتگو میں باغات کا مالک بتانا نہیں بھولتے٬ اس طرح کی بیان بازی سے نہ تو ان کے ماتھے پر پسینہ دیکھا جا سکتا ہے٬ اور نہ لہجے میں کسی قسم کا خوفکسی کا ماموں وکیل کوئی منسٹر کا سسرالی ٬ کوئی وزیرِ خزانہ کو اپنا پھوپھا اور کوئی بچپن کا دوستحتیٰ کہ بچوں کی زندگی کا سب سے نازک مسئلہ ان کی شادیاں رشتے بھی اسی دکھاوے کی بھینٹ چڑہا دیے جاتے ہیں٬۔
اچھی جگہہ رشتے کے چکر میں لوگ اپنی زات تک بدل لیتے ہیں٬ (خُدا کی پناہ) ہمارا معیارِ زندگی اتنا کھوکھلا ہو چکا ہے ٬ کہ اپنا اصل اپنے ہی دوستوں کو بتاتے ہوئے شرماتے ہیں٬ ہم میں اتنی سکت نہیں کہ اپنے خاندان کے بارے میں کھل کر یا نِڈر ہو کر بات کر سکیں٬ غریب ہونا یا نچلی ذات کا ہونا کوئی عیب نہیں٬(اللہ کے نزدیک سب برابر ہیں) لیکن اسے غلط طریقے سے جھوٹ بول کر چھپانا سنگین جرم ہے٬ ایسے ہی عامیانہ رویے کے نرغے میں آئی ہماری مادری و قومی زبان یہود و نصاریٰ کا لبادہ اوڑھ کر ہم نجانے کونسی تشنگی پوری کر رہے ہیں۔
ذرا سوچیںان لوگوں نے ہماری زبان سیکھنے میں کبھی دلچسپی لی؟
کیونکہ یہ اپنی ترقی اور کامیابی کا راز اپنی قومی زبان کو سمجھتے ہوئے ہمہ وقت کمر بستہ رہتے ہیں٬ہم نے انہیں بتانا ہے کہ ہم بھی بے زبان نہیں ہیں٬ انگریزی زبان کو کامیابی کی کنجی سمجھنے والے ہم جسے ناداناور حکمران طبقے کی کج خیالی پر افسوس کی بجائے ہمیں متحد ہو کر ایک ادبی تحریک چلانے میں کردار ادا کرنا چاہیۓامریکہ اور برطانیہ سے اپنی مرعوبیت میں اگر وہ بھول گئے ہیں کہ ہمارا اصل کیا ہے؟تو ایسے لوگوں کو باور کروانا ہے کہ ہماری پہچان کیا ہے؟
انگریزی زبان بولنے والی قوموں کے علاوہ بھی دیگراور قومیں ہی٬ جو اپنی قومی زبان کے بل بوتے پر عالمی طاقتوں کے زمرے میں آتی ہیں٬ اس میں کسی شہادت کی ضرورت نہیں کہ جو تفہیم و سہولت انسان کو اپنی قومی و مادری زبان میں ملتی ہے٬ کسی بدیسی زبان میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ٬ بھلے عمر تمما ہو جائے سیکھنے میں٬ انسان کی تخلیقی صلاحیتیں اپنی زبان میں ابھرتی ہیں٬ کسی اور زبان میں ہ ہی نہیں سکتیں ٬ وجہ صاف ہے کہ اپنی زبان انسان کی سرشت میں اس کے خمیر میں گندہی ہے٬ ہزاروں سال کے ثقافتی ارتقاء کے نتیجے میں جتنی بھی دوسری زبان کی ملمع کاری چرائی جائے مادری و قومی زبان کی مٹھاس کم نہیں کر سکتی٬۔
صرف اپنے دکھاوے کو تقویت دینے کیلیۓ ہم اپنی قومی زبان کو پس پشت نہیں کر سکتے ٬ اس کیلیۓ ہمیں کوئی جامع لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا٬ اگر بین القوامی زبانیں سیکھتے سیکھتے ہم اردو سے دور ہوتے رہے تو اپنی ہی قومی زبان سیکھنے کیلیۓ ہمیں اردو لینگویج کے سنٹرز نہ کھولنے پڑ جائیں ٬ اردو کے سلسلے میں ایک اور بات قابل توجہ ہے کہ یہ زبان قرآن پاک کے ترجمے سے لے کر تفسیر حدیث فقہ علم الکلام سیرت اخلاقیات عبادات کو بھی سمجھنے میں بیحد معاون و مدد گار ہے۔
تحریر: انیلہ احمد