تحریر: عفت بھٹی
زبان ہمیشہ سے رابطے کا ایک ایسا جز رہی ہے کہ جس نے زندگی کو آسان کر دیا اپنے خیا لات کی واضح ترسیل کے زریعے ہی کمیونیکیشن آگے بڑھتی گئی اور روابط کے سفر میں ترقی کی ہمرکاب ہوئی۔دنیا میں بہت سی زبانیں بولی اور سمجھی جاتی ہیں ۔اس وقت دنیا میں بولی اور سمجھی جانے والی کم و بیش سات ہزار زبانوں میں سے اردو دنیا کی دوسری بڑی زبان ہے اس کے بولنے اور سمجھنے والے دنیا بھر کے طول و عرض میں پائے جاتے ۔ مگر اس کا مرکز پاکستان ہے ۔مقامِِ حیرت و افسوس تو یہ ہے کہ قیام ِ پاکستان کے بعد اردو زبان کا بطور قومی زبان تعین ہو گیا تھا اور یہی سرکاری زبان ٹہرائی گئی ۔۔٢١ مارچ ١٩٤٨کو ڈھاکا کے ایک جلسہء عام سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا : ایک مشترکہ سرکاری زبان کے بغیر کوئی قوم ،باہمی متحد نہیں ہو سکتی اور نہ ہی کوئی کام کر سکتی ہے ۔جہاں تک پاکستان کی سرکاری زبان کا تعلق ہے ،تو وہ اردو ہی ہو گی۔
اب اس سے بڑھ کے کیا بات ہو گی کہ خالق ِ وطن اس بات کو کامیابی کی ضمانت بنا گئے ۔مگر افسوس قائد ِ اعظم کے اسقدر واضح اعلانات پر بھی اردو کو صحیح معنوں میں رائج نہیں کیا گیا ۔اردو محض ایک زبان نہیں ہے کہ ہم جسے قومی قرار دے دیا ہو بلکہ یہ ہندوستانی مسلمانوں کی سینکڑوں برسوں کی روایات اور ان کی طویل علمی و ادبی کاوشوں کا ثمر ہے ۔اس اعتبار سے اسے قومی زبان قرار دینا ہمارے مزاج اور اقدار کا فطری تقاضا ہے ۔بنظرِ غور جائزہ لیں تو ہر ترقی یافتہ قوم کی ترقی کے پیچھے اس کی قومی زبان کا ہاتھ واضح نظر آتا ہے ۔جاپان میں تمام علوم جاپانی ،جرمن میں جرمنی،چین میں چینی،روس میں روسی زبان میں پڑھائے جاتے ہیں ۔اور ہم ہیں کہ اردو کو اپنے لیے باعث ِشرمندگی سمجھتے ہیں ۔
انگریزی سے مرعوب ہوتے ہیں یہ ہماری احساس ِ کمتری نہیں تو اور کیا ہے ؟اگر میں دریچہء ماضی میں جھانکتی ہوں تو نظر آتا ہے کہ یہ حقیقت روز ِ روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ قیام ِ پاکستان کے آغاز سے ہی محالفتوں کا سامنا کرنا پڑا ،انگریز رخصت ہوئے تو اپنے جانشین کی صورت میں بیوروکریسی کی فصل اگا گئے اور اس پہ مستہزاد یہ کہ بیوروکریسی کی بالا سستی کا انحصار انگریزی پہ تھا سو، اردو کہیں راہ میں ہی دب گئی ۔حالات یہ ہیں کہ ہمارا مغرب زدہ طبقہ انگریزی کے بغیر لقمہ توڑنا بھی حرام سمجھتا ہے ۔مرے پہ سو درے کہ ہمارے حکمران سب کے سب حکمت و بصیرت اور قومی غیرت سے عاری تھے انہوں نے اس بات کی کوشش ہی نہیں کی کہ قوم کی ترقی اور زبان کے فروغ کے لیے کچھ کیا جائے ۔اب تو اردو زبان کے فروغ کا انحصار اس بات پہ ہے کہ انگریزی پرست طبقے کی بالا دستی کب ختم ہوتی ہے ؟
اردو بر صغیر اور بالخصوص غریب،متوسط طبقے کی زبان ہے اور انگریزی بالا دست اور مغرب سے مرعوب طبقے کی ،اور اعدادو شمار کے مطابق بالا دست طبقہ کل آبادی کا ایک فیصد بھی نہیں مگر جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے تحت بیرونی عناصر کی آشیر باد سے ہماری اپنی زبان کو اجنبیت کی لاٹھی سے ہنکایا جا رہا ہے ،مگر جب تک ان ننانوے فیصد لوگوں میں شعور پیدا نہیں ہوتا کہ اردو کو اپنی پہچان اور قومی زبان کی طرح لے کے چلا جائے اس کا فروغ نہیں ہو گا ۔ ایک ماہر ِ لسانیات نے بہت خوبصورت بات کی کہ :اگر آپ سندھی،پشتو،پنجابی بلوچی ،سرائیکی ،براہوی ،ہندکو، پوٹھوہاری، عربی، فارسی اور ہندی کو ایک برتن میں ڈال کر ہلائیں تو جو زبان برآمد ہو گی وہ اردو ہو گی۔اب میں بات کرتی ہوں نظام ِ تعلیم کی یہاں بھی ہمار ی منافقانہ فطرت آڑے آتی ہے۔
پپو کا باپ چونکہ چپڑاسی ہے تو وہ اردو میڈیم ٹاٹ والے اسکول میں پڑھے گا ۔جمی یعنی جمشید کا باپ بیوروکریٹ ہے تو وہ انگلش میڈیم یا بیکن ہائوس میں تعلیم حاصل کرے گا ،ایک قائد اعظم اور علامہ اقبال پڑھے گا تو دوسرا شیکسپئیر اور ملٹن کو پڑھے گا ۔جب یہ دونوں میدانِ کار میں اتریں گئے تو جمی کے ساتھ سفارش اور انگریزی کا سہارا ہو گا جب کہ پپو پوزیشن ہولڈر ہو کے بھی کچھ حاصل نہ کر پائے گا ۔الغرض زندگی کے ہر موڑ پہ زبان کی اہمیت ہے یہ ہماری پہچان ہے اور ہماری ترقی کی ضامن ہے ۔ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ روز بروز اس کی طرف رحجان بڑھے اور ہم اپنی شناخت پھر سے پا سکیں ۔
تحریر: عفت بھٹی