تحریر : وقار انسا
6 ستمبر جب بھارتی افواج نے رات کے اندھیرے میں اچانک حملہ کر دیا – مگر پاکستان کے فوجی جوانوں نے ہر محاذ پر انہیں پسپا ہونے پر مجبور کر دیا – یہ دن تجدید عہد کا دن ہے اپنے ان بہادروں سے جو دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہو گئے یہ ملک جس کی بنیادوں میں ان بہادر لوگوں کا لہو شامل ہے جنہوں نے اس کے قیام پر اپنی جانیں وار دیں – یہ کرنا آسان تو نہ تھا ؟ یہ کونسا جذبہ تھا؟ کہ جس نے انہیں گھر بار چھوڑنے اور جانوں کی قربانیاں دینے پربخوشی آمادہ کیا – اس جذبہ کو ہر محب الوطن محسوس کر سکتا ہے- اپنے الگ وطن کے معرض وجود میں آنے سے خوش ہے اس وطن کی حفاظت ہمیں اپنے گھرسے بڑھ کر اور اس سے پیار اپنی ماں کی طرح کرنا ہے – کہ اسی کی آغوش ھماری جائے پناہ ہے۔
اس وطن نے ھمیں بہت کچھ دیا ایک الگ تشخص آزادی ایک پہچان یہ اور بات ہے کہ ہم حالات سے شاکی نظر آتے ہیں لیکن ان حالات کا سبب پاکستان نہیں اس ملک کے باسی ہیں اس دھرتی ماں کے سینے سے ٹھنڈے میٹھے پانی کیچشمے ابلتے ہیں اور زندہ رہنے کیسب سامان ھمیں میسر ہے وہ زراعت ہے یا صنعت -پھلدار سایہ دار شجر ہیں یا موسم کے تغیر کا سامان بلند وبالا پہاڑ اور گلیشیر سمندر دریا اور ندی نالے ہیں-اللہ نے اسباب ھمارے لئے پیدا کر دئیے- اور عیش کوش زندگی گزارنے کے لئے بنگلے اور کوٹھیاں اسی کے سینے پر کھڑی ہیں اس ماں نے اپنے اوپر جان نثار کرنے والوں کا لہو بھی جذب کر لیا اور لاکھوں بے گناہوں کا خون بھی جو حادثات کی نذر ہوگئے-سب کو اپنی آغوش میں چھپا لیا۔
اس ماں نے اس کے غداروں اورفعل قبیح کے مرتکب ہونے والوں کو بھی اپنے اندر چھپا لیا اور ان کو اپنے گود سے نکال نہیں پھینکا دھرتی ماں کی گود میں اس سے محبت کرنے والے بھی ہیں اور صرف اپنی ذات کے لئے جینے والے بھی موجود ہیں-جو اس کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں-جو غدار ہیں وہ 1948 کے ہوں 1971 کے-یا اس دور کے ہوں- وہ اقتدار کی ہوس والے سیاستدان تو ہو سکتے ہیں فوجی جوان نہیں-وہ حکمران جو اپنی کسی غرض کے ہاتھوں سرحد کا پہرہ دینے والوں کو اپنی مرضی سے چلانا چاہتے ہیں لیکن ایسا ہر فوجی جوان نہیں کرے گا ہم ان غداروں کو تو یاد رکھیں لیکن اس ملک پر قربان ہونے والوں کو بھول جائیں؟ ھمیں اس کے غداروں کو نہیں اس وطن کے جاں نثاروں کو یاد کرنا ہے۔ وہ کیپٹن محمد سرور ہوں۔
میجر طفیل محمد پہاڑ کی چوٹی پر کھڑے میجر عزیز بھٹی ہوں یااپنے پیٹ پر گولہ بارود باندھنے والے لانس نائیک محمد محفوظ میجر شبیر شریف ہوں یا سوار محمد راشد منہاس کرنل شیر خان یاحوالدار لالک جان یہ دن ان سب جاںثار وطن کو یاد کرنے کا ان کے عزم کو دہرانے کا ہے- جنہوں نے اپنی جان کی پرواہ نہیں کی اور اپنی جان قربان کر کے اس دھرتی ماں کی گرم آغوش میں جا سوئے – وہ نغمے جو جنگی محا ذ پر اپنے جوانوں کا خون گرمانے اور ان میں جوش وولولہ پیدا کرنے کے لئے گائے گئے آج بھی گونجتے ہیں توبدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
خون بدن میں سرعت سے دوڑنے لگتا ہے وہ تب ان کا حوصلہ بڑھاتے تھے اور اب ھما را اپنی فوج کو خراج عقیدت اور ان کی شجاعت پر داد تحسین دینا بھی ان کے حوصلوں کی اٹھان بڑھاتا ہے-اور اس کے ساتھ ہی ھم اپنی دھرتی ماں سے کہتے ہیںاے پاک سر زمین اے ھماری دھرتی ماں تیری بقا ہی ھماری حیات ہے ھم جہاں بھی جائیں تیرے نام سے جانے جاتے ہیں تیرا یہ پرچم اسی طرح سر بلند رہے – تیرے جیالے یوں ہی تیری حفاظت کو مقدم سمجھتے رہیں کہ تو ہے تو ہم ہیں۔
دنیا کے کسی خطے میں چلے جائیں جتنی بھی ترقی کر لیں ھم اس کے اول درجے کے شہری نہیں بن سکتے دوسرے درجے کے شہری ہی کہلائیں گے ھماری پہچان ھمارا فخر تو تو ہی ہے – بے شک تیرے بیٹے تیری حفاظت پر مامور ہیں وہ بہادر بیٹے عقاب ہیں شاہین ہیں جو اپنے شکار پر جھپٹنا جانتے ہیں-وہ گدھ جو تیری سالمیت کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں ان کو یہ شاہین انشا اللہ کبھی کامیاب نہ ہونے دیں گے۔
تحریر : وقار انسا