تحریر : پروفیسر محسن عثمانی ندوی
ہندوستان کی ملت اسلامیہ نرگس بیمار کی مانند اپنی بے نوری پر روتی رہتی تھی، بڑی مشکل سے اس کے چمن میں ایک دیدہ ور پیدا ہوا تھاجس کا نام سید حامد تھا، ان کے آباء و اجداد کا تعلق پٹنہ اور اس کے گرد و نواح” نیورہ” سے تھا ، انیسویں صدی کے وسط میں ان کے دادا یا پردادا مرادآباد منتقل ہوگئے تھے ، سید حامد صاحب کی پیدائش ١٩٢٠ء کی ہے ، سید حامد صاحب نے مسلسل شجر ملت کو نہال اور بار آور بنانے کی کوشش کی ، ان کے پاس وہ دل تھا جو ملت کے حال زار پر روتا تھا، ان کے پاس وہ دماغ بھی تھا جو عقدۂ لا ینحل کا حل ڈھونڈ کر لاتا تھا، ان کے پاس وہ چشم بصیرت تھی جو زوال و اضمحلال کے اسباب کو دیکھ لیتی تھی، وہ ملت کے ایسے طبیب حاذق تھے جو مرض کی تشخیص بھی کرتے تھے اور نسخۂ شفا بھی پیش کرتے تھے۔ سید حامد کبھی صور اسرافیل بن کر قوم کو بیدار کرنے کی کوشش کرتے رہے او رکبھی بانگ درا بن کر قوم کو جادۂ پیما کرنے میں مشغول نظر آئے ، وہ ملت اسلامیہ کے لئے سراپا وقف تھے ، وہ ملت کی تعمیر کے حدی خواں تھے اور ترقی اور نہضت کے میرِ کارواں تھے ، وہ ہمدرد یونیورسٹی کے چانسلر اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے، وہ سائنس ، مینجمنٹ اور ٹکنالوجی یونیورسٹی قائم کرنے کے لئے کوشاں رہے ، وہ مفکر بھی تھے اور سراپا عمل بھی، وہ ملت کے سپاہی بھی تھے اور سپہ سالار بھی تھے ، اور تنہا لشکر جرار بھی تھے ۔وہ شاعر بھی تھے اور ادیب بھی تھے، معلم بھی تھے اور منتظم بھی تھے ، ان کی شخصیت فکر ارجمند اور زبان ہوش مند کی ترجمان تھی۔
سید حامد صاحب کی شخصیت پرسوز ، درد مند اور نہایت متوازن شخصیت تھی، وہ عصری تعلیم کے آدمی تھے اور مسلمانوں میں عصری تعلیم کو عام کرنے کے سب سے بڑے علمبردار تھے ، لیکن اسی کے ساتھ ساتھ اسلامی اور اخلاقی تربیت کے سب سے بڑے ترجمان تھے ، خود وہ اقبال کے مرد مؤمن کے پیکر تھے ، اور نہایت خوش اوقات اور اوراد و نوافل کے پابند تھے ۔سر سید کے علی گڑھ کی نمائندہ شخصیتوں کی ایک مختصر فہرست بنائی جائے گی تو اس میں سید حامد کے نام اور کام کو نظر انداز کرنا مشکل ہوگا ، ان کی بے شمار ایسی تحریریں ہیں جس میں انہوں نے عصری تعلیم کے ساتھ نئی نسلوں میں اسلامی ذہن و فکر کی حفاظت پر بہت زور دیا ہے ، مسلمانوں کی کامرانی و فلاح کے لئے جس جامع قیادت کی ضرورت ہے وہ سید حامد کی شخصیت میں پائی جاتی تھی ، ان کے نزدیک صرف اقتصادی اورسائنسی ترقی کا حصول کافی نہیں، وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ اسلام سے اور اسلامی تہذیب سے مسلمانوں میں والہانہ تعلق ہو ۔ سید حامد صاحب کے مضامین کے مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ ” کرب آگہی ” اور ” نگار خانۂ رقصاں ” اور ” شیرازہ ” میں ان کے خیالات اور افکار پورے طور پر نمایاں ہیں اور ان کی تحریروں اور نگارشات سے ان کی فکر و آگہی اور دانشوری ، دور اندیشی اورادبی بصیرت کا بھی اندازہ ہوتا ہے ، وہ محسن ملت اور معمار قوم کہلانے کے پورے طور پر مستحق تھے۔
وہ اپنے مادر علمی مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے اور اسی زمانے میں انہوں نے تہذیب الأخلاق کو دوبارہ نکالااور اپنے خون دل میں ڈبوکر انہوں نے مؤثر و مفید مضامین لکھے ، جب وہ آئی ایس آفیسر کی حیثیت سے ١٩٨٠ء تک فرائض منصبی انجام دیتے رہے تو ان کی انتظامی قابلیت اور ان کی پرخلوص شخصیت سے حکومت کے ذمہ دار بہت متأثر رہے ، انہوں نے حکیم عبد الحمید صاحب کے یونیورسٹی بنانے کے خواب کو عملی شکل دی، جس میں ان کی غیر معمولی بصیرت دانشمندی حکومت کے ذمہ داروں سے بہتر تعلقات اور مراسم کا بڑا دخل تھا ۔وہ ہمدردر ایجوکیشنل سوسائٹی کے سکریٹری رہے انہوں نے تعلیم آبادکو آباد کیا ۔انہوں نے ہمدرد پبلک اسکول قائم کیا ۔انہیں اس بات کی فکر تھی کی مسلمان تعلیمی اعتبار سے پس ماندہ ہیں اور حکومت کے اعلی عہدوں تک نہیں پہنچ پاتے ہیں اس کے لئے انہوں نے ہمدرد اسٹڈی سنٹر قائم کیا جہاں انہوں نے ملت کے نوجوانوں کو مسابقتی امتحانات کے لئے تیار کیا اور اس ادارہ کے طفیل ملت کے بہت سے نونہال حکومت کے اعلی عہدوں تک پہنچے ، انہوں نے پورے ملک میں تعلیمی کارواں کی قیادت کی اور مسلمانوں میں تعلیمی اخلاقی بیداری لانے کی کوشش کی ۔ انہوں نے نیشن اینڈ دی ولڈ کے نام سے انگریزی ماہنامہ جاری کیا۔
سید حامد صاحب کی ہمہ گیر شخصیت کا اعتراف پورے ملک میں کیا گیا ہے، انہوں نے نازک حالات اور مشکل وقت میں ملت کی مخلصانہ رہنمائی کی ہے ، اور ہمت باندھی ہے ، ان کا احترام عصری دانش گاہوں میں بھی کیا جاتا ہے اور دینی اداروں میں بھی ، وہ کبھی مایوس نہیں ہوتے تھے اور ہمیشہ صبر و ضبط اور حوصلہ کی تلقین کرتے تھے ، ملت کو رہنمائی اور تعلیمی قیادت کے لئے ایسی ہی شخصیت کی ضرورت ہے جو دل دردمند اور فکر ارجمند رکھتی ہو اور اسی کے ساتھ ساتھ تفہیم اور ترسیل کے لئے زبان ہوش مند بھی رکھتی ہو جو اردو کی طرح انگریزی پر بھی پوری قدرت رکھتی ہو ، جو جدید تقاضوں سے پورے طور پر واقف ہو اور پوری ملت کو ترقی اور استحکام کے بلند مقام تک پہنچاسکتی ہو۔ سید حامد کی وفات ملت کا بہت بڑا نقصان ہے ۔ سر سید، شبلی، اقبال، ابو الحسن علی ندوی ، ابو الأعلی مودودی ، محمد علی جوہر ، ڈاکٹر ذاکر حسین ، مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا عبد الماجد دریا بادی بہادر یار جنگ جیسی شخصیتیں جس طرح سے آسانی سے منصہ شہود پر نہیں آتی ہیں اور چشم فلک کو اس کے لئے مدتوں انتظار کرنا پڑتا ہے ، اسی طرح سے بلا تشبیہ سید حامد صاحب کی شخصیت بھی اس دیدہ ور کے مانند ہے جو چمن میں مشکل سے پیدا ہوتا ہے ،اور جب پیدا ہوتا ہے تو ہر گوشہ چمن کو منور اور معطر کردیتا ہے ۔ ان کی بصیرت مندی اور دانش مندی کی وجہ سے انہیں سچر کمیٹی کا رکن بھی نامزد کیا گیا تھا ،سید حامد کی شخصیت ایک عظیم شخصیت تھی اور عظیم شخصیت کی پہچھان یہ ہوتی ہے کہ اس کا دل بہت وسیع ہوتا ہے وہ کبھی مسلکی اور گروہی سیاست میں ملوث نہیں ہوتا ہے وہ ہر جماعت کی خوبیوں کا قدرداں ہوتا ہے۔ مختلف النوع انسانوں سے محبت کرنے اور ان سے ہمدردی رکھنے کی اس میں صلاحیت ہوتی ہے اسی لئے وہ منصف مزاج ہوتا ہے تعصب کا شکار نہیں ہوتا ہے ایسی ہی شخصیت ہوتی ہے جسے بالشتیوں کی دنیا کا” گلیور” کہا جاسکا ہے ۔یہ خصوصیات جب پیدا ہوتی ہیں تب ہی اس سے کسب نور کیا جاسکتا ہے اور اس سے فیضان حاصل کیا جاسکتا ہے یہ ایک کسوٹی ہے جس پر انسان خود کو بھی پرکھ سکتا ہے اور دوسروں کابھی احتساب کرسکتا ہے ۔ تصوف سے عملی تعلق نے ان کی شخصیت میں ایک گداز پیدا کردیا تھا وہ اذکارواوراد کے بہت پابند تھے۔
سید حامد عالم دین اور علوم اسلامیہ کے ماہر نہیں تھے لیکن امت کو ترقی اور عزت اور عظمت کے بام بلند تک پہنچانے کے جو راستے ہیں او راس کے جو تقاضے ہیں ان کے ماہر ضرور تھے ،جب کہ بہت سے علماء دین زمانہ سے بے خبری کی وجہ سے واقف نہیں ہوتے ہیں۔سید حامد کو تاریخ کا اور روح مذہب کا گہرا شعور حاصل تھا اخلاقی قدریں ان کی شخصیت میں پیوست تھیں ۔انہوں نے مسلمانوں کی ترقی کا نظریہ نہیں پیش کیا بلکہ عملی اقدامات بھی کئے اور ملت اسلامیہ کو بیدار کرنے میں انہوں نے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی اور کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا انہوں نے رابطہ کمیٹی قائم کی اور پورے ملک کے دورے کئے اور ا س کے لئے انہوں نے وقت کے تِلوں سے پورا تیل نچوڑ لیا،اور وقت کے کسی حصہ کوضائع نہیں کیا۔ ان کا ہر کام ان کے خلوص ان کی بصیرت او ران کی درد مندی کا آئینہ دار ہے ۔اور اس لائق ہے کہ اس کو نمونہ بنایاجائے۔
اس وقت ملک کا جو نیا منظر نامہ ہے ، جو نیا دشت غم ہے اور جو نیا پیچ و خم ہے ، مذہب و تہذیب کے لٹ جانے کا جوخطرہ قدم قدم ہے اور صورت حال یہ ہے کہ کوئی راستہ بتانے والا نہیں اور کسی کے ہاتھ میںقندیل رہبانی نہیں ۔اور ” بے یدِ بیضا ہے پیران حرم کی آستیں” ۔ ایسے تاریک اور پر خطر صحراء میں ہمیں سید حامد جیسے رہنما کی شدید ضرورت تھی ، اس وقت حالات بہت مہیب اور دشوار گذار ہیں ، غنیمت ہے کہ ایک ماہنامہ ”زندگی” نے اور دوسرے ماہنامہ ” الفرقان” نے موجودہ حالات میں رہنمائی کے تعلق سے خاص نمبر شائع کردیا ہے ، ہدی پبلشرز حیدرآباد نے ٢٠١٤ء کے الکشن اور مسلمانوں کی آئندہ کی حکمت عملی سے متعلق ایک کتابچہ چھاپ دیا ہے۔ سید حامد زمانے سے بیمار اور فریش تھے ورنہ ان کی کوئی فکر انگیز تحریر ضرور منظر عام پرآتی اور مسلمانوں کو وہ رہنمائی ملتی جس کی شدید ضرورت تھی اکیسویں صدی کا سورج طلوع ہورہا تھا اس وقت عراق و افغانستان میں خاص طور پر مسلمانوں کی عزت و اقبال کا سورج غروب ہورہا تھا ، پورے عالم اسلام میں غم انگیز اور مایوس کن حالات تھے ، راقم سطور کے قلم سے ایک کتاب ” حالات بدل سکتے ہیں ” شائع ہوئی تھی، اس کتاب پر مقدمہ لکھنے کے لئے نظر انتخاب سید حامد صاحب پر پڑی تھی کہ وہ مفکر بھی تھے مدبر بھی تھے دانشور بھی تھے ۔ انہوں نے جو مقدمہ لکھا تھا وہ کتاب میں اہم اضافہ کی حیثیت رکھتا تھا ، لیکن حالات ابھی تک نہیں بدلے ہیں اور بحر غم کا کوئی ساحل ابھی تک نظر نہیں آیاہے اور نہ ملت کی کشتی کا کوئی ناخدا
اللہ رے سناٹا آواز نہیں آتی
تحریر : پروفیسر محسن عثمانی ندوی