تحریر : سید علی جیلانی
16 دسمبر 2015 کی صبح ٹی وی کھولا تھا تو بڑا اچھا نغمہ نشر ہو رہا تھا جس کے بول کچھ اس طرح تھے مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے سن کر بے انتہا خوشی ہوئی اور بچوں کا عزم ہمت دیکھ کر دل کو انتہائی سکون ملا پچھلے سال یہ بچے اسی دن دہشت گردوں کی درندگی اور بربریت پر حیران تھے اور اب بے خوف و خطر علم کے حصول کیلئے میدان میں آگئے ہیں اور ان بچوں کا یقین ا ب پ ہے اور اسی طاقت سے دشمن کو شکست دینا چاہتے ہیں یہ بچے قدم سے قدم ملکر قلم کی طاقت سے بندوق کو شکست دینا چاہتے ہیں اگرآپ 16 دسمبر 1971 کا دن یاد کریں تو بڑا ہی افسوس ہوتا ہے کہ اس دن پاکستان دو حصوں میں بٹ گیا اور ہماری پاک افواج کیلئے انتہائی تکلیف کا دن 16 دسمبر ہے جب 90 ہزار سے زائد فوجی نے ہتھیار ڈالے ابھی اتنے سالوں کے بعد بھی ساغر 1971 کو نہ بھولے تھے دہشت گردوں نے ایک اتنا بڑا سانحہ پاکستان کو دیا جو کوئی بھی پاکستانی اپنی زندگی میں بھلا نہیں سکتا معصوم بچوں کو جس بربریت سے شہید کیا گیا اس سانحہ کے آنسو آج تک ہر پاکستانی کی آنکھوں میں ہیں اور جب ان بچوں کی ماؤں کو ہم ٹی وی پر دیکھتے ہیں تو دل غمگین ہو جاتا ہے
سوات میں جس طرح ملالہ یوسف زئی پر گولی چلائی اور اسکے بعد آرمی پبلک اسکول میں بچوں کو شہید کیا گیا تو دہشت گردوں کا مقصد صرف یہ تھا کہ علم کی شمع کو بجھا دیں اور قوم کو جہالت کے اندھیرے میں دھکیل دیں کہیں اس سانحہ نے سیاسی قیادت اور عسکری قیادت کو ایک کردیا اور پوری قوم کو ایک کرکے یہ عزم دیا کہ ہم دہشت گردوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیں گے اس واقعہ کی وجہ سے عمران خان نے فوراً اسلام آباد کا دھرنا ختم کیا وزیراعظم محمد نواز شریف نے بھی اسی موقعہ پر کہا کہ شہید بچوں کا لہو بول رہا ہے بچوں کی قربانیاں راہیگاں نہیں جائیگی ان کے ایک ایک خون کے قطرے کا بدلہ لیں گے اور آرمی چیف راحیل شریف پہلے ہی اس بات کا اعادہ کر چکے ہیں کہ ایک ایک دہشت گرد کو مارا جائے گا اور اس وطن پاک سے دہشت گردوں کا خاتمہ کیا جائے گا اب تک پاک فوج نے ضرب عضب میں بے انتہا کامیابی حاصل کی اور 3400 سے زیادہ دہشت گردوں کو اپنے انجام تک پہنچایا لیکن اس میں ہمارے 488 فوجی جوان شہید ہوئے دہشت گردوں ہماری فوج کا مقابلہ نہیں کر سکتے
اسی لئے بزدلانہ حملے کرتے ہیں اب دہشت گرد ایک جگہ نہیں ہیں بلکہ مختلف شہروں میں چھپ گئے ہیں اور کراچی کو بھی انہوں نے ٹارگٹ بنایا ہوا ہے سندھ میں اور خصوصاً کراچی میں رینجرز نے دہشت گردوں کے خلاف بے انتہا کامیابی حاصل کیں ہیں اب پاک فوج کو اور رینجرز کو انتہائی سنجیدگی سے کراچی آپریشن جاری رکھنا ہے کیونکہ ضرورت اس بات کی ہے بڑی مچھلیاں جو ہمیشہ بچ جاتیں ہیں ان پر ہاتھ ڈالا جائے کیونکہ دہشت گردوں کا مار دیا جاتا ہے لیکن ان کے پیچھے جو ان لوگوں کی مالی مدد اور ان لوگوں کو اسلحہ فراہم کرتے ہیں وہ لوگ بچ جاتے ہیں پھر وہ بڑی مچھلیاں چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کو قربانی کا بکرا بناتی ہیں ضرورت اس بات کی ہے جو اس سوچ کو دوسرے تک پہنچائے ہیں اور پھر ان سے کام لیتے ہیں ان کو پکڑا جائے اور کیفر کردار تک پہنچایا جائے سندھ میں قائم علی شاہ صاحب کا رویہ دیکھ لیں کہ رینجرز کے اختیارات میں توسیع نہیں کر رہے حالانکہ کراچی کے عوام نے رینجرز کی کارکردگی کو سراہا اور کراچی اس وقت امن کا گہوارہ بنا ہوا ہے ڈاکٹر عاصم کے گرفتار ہوتے ہی پیپلز پارٹی نے احتجاج اور رینجرز کے خلاف بولنا شروع کردیا
کیونکہ رینجر نے اب بڑی بڑی مچھلیوں پر ہاتھ ڈالنا شروع کردیا ہے اور پیپلز پارٹی کو ڈر ہے کہ یہ ہاتھ زرداری صاحب تک نہ پہنچ جائے کیونکہ انصاف کا تقاصہ یہ ہے کہ کوئی شخص چاہے وہ کتنا بڑا ہو انصاف کے کٹھرے میں اس کو لانا چاہیے اور اگر کوئی واقعی اسکا تعلق دہشت گردوں رہا ہے یا اس نے کسی بھی طرح دہشت گردوں کی معاونت کی ہے تو اس کو تحتہ دار پر لٹکانا چاہیے کیونکہ ہمیں اس ناسور کو اپنے ملک سے اپنے معاشرے سے ختم کرنا ہے اور جب تک ہم چھوٹی مچھلیوں سے لیکر بڑی مچھلیوں کو نہیں پکڑیں گے پاکستان امن کا گہنورہ نہیں بن سکتا کیونکہ دہشت گردی کی معاونت کرنے والوں میں ہمارے بعض لیڈر اور بعض سیاسی جماعتیں بھی ملوث ہیں ۔ دہشت گردوں کا دین ایمان کچھ نہیں ہوتا آپ ان لوگوں انسان نہیں کہیں گے جنہوں نے 16 دسمبر کو معصوم بچوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا انہیں ان معصوموں پر زرا رحم نہیں آیا کتنی ماوں کو بچوں سے جدا کردیا اور کتنے بچوں کو ماوں سے جدا کردیا ماں باپ نے کیا کیا ان بچوں کے لیے ارمان کئے ہونگے ان ظالم دہشت گردوں نے ارمانوں کو خاک میں ملا دیا
جن بچوں پر ابھی تک اس واقعہ کا صدمہ ہے وہ کب اس کرب سے نکلیں گے ، پوری قوم اس وقت جنرل راحیل شریف کے ساتھ کھڑی ہے اور اب سب کی زبان پر صرف ایک ہی بات ہے کہ دہشت گردوں کو کیفرکردار تک پہنچائیں ۔ فوج کو دہشت گردوں کے خلاف کسی بھی نہیں سننی ہے اگر کوئی وزیراعلی ان کے کام میں رکاوٹ ڈالے اس کو گھر بٹھا ئیں اور کوئی بھی جزبہ یا وزیر اعلی کی بڑی آدمی کو بچانے کی کوشش کرے اور کوئی بھی جذبہ یا وزیر اعلی کی بڑے آدمی کو بچانے کی کوشش کرے اور بڑی مچھلی کو بچانے کی کوشش کرے اس کو سب سے پہلے گرفتار کیا جائے اور اس کو اسکے عہدے سے ہٹا دیا جائے۔ آج ہمیں سب سے پہلی برسی کے موقع پر ہر قصبہ میں ان بچوں کی یاد میں چراغاں کرنا چاہیے بچوں کے ماں باپ کو بے انتہا تسلی دینی چاہیے انہیں کچھ بھی نہیں چاہیے صرف انصاف چاہیے
اگر وہ لوگ جنہوں نے ان دہشت گردوں کی معاونت کی ، منصوبہ بندی کی اسلحہ کس نے فراہم کیا کس نے ان لوگوں کو پناہ دی ان سب کو باک فوج کیفع کردار تک پہنچا دے تو ان بچوں کے ماں باپ کو سکون مل جائے گا آج ہم میں اتحاد ہے قوت ہے جزبہ ہے عزم ہے ایک ولولہ ہے زاتی اختلافات بھلا کر ہمیں اپنے سیکیورٹی ادارون کے شانہ بشانہ کھڑے ہونا ہے اور انہیں اس کام کے لئے فری ہینڈ دینا چاہیے اور متحد ہوکر ان بچوں کا خون رائگا نہیں جانے دینا ۔ ہمارے اس جزبہ سے عزم ہے ان بچوں کی روہوں کو سکون ملے گا۔
تحریر : سید علی جیلانی