تحریر : شاہ بانو میر
اللہ پاک قرآن پاک میں فرماتے ہیں آیت کا مفہوم کچھ ایسے ہے کہ ٬کہ اللہ ہر گز نہیں شرماتا مچھر یا اس جیسی کسی اور مثال سے ٬ اسی طرح اللہ پاک جب انسان سے بہت متقاضی ہوں کہ ان کی عطا کردہ نعمتوں کا ہم درست تعین نہیں کر رہے تو شائد عبرت کیلئے اور پھر اس سے حاصل ہونے والے شکر کیلئے خواجہ سرا نامی اس انسان نما مخلوق کو پیدا کیا گیا المیہ جی ہاں ان کی زندگی صرف المیہ ہے٬ پیدائش کے وقت سے ہی وہ اپنے پیاروں کے درمیان عجوبہ بن جاتے ہیں تحقیر شرمندگی اور مسلسل ناروا سلوک آخر کار کسی نہ کسی طور انہیں ان کے جتھے سے جا ملاتا ہے٬ یہ سب ایک جیسے ہیں ٬ ہم سب کے ہاتھوں مذاق بننے والے ٬ ہم سب سے ذلیل و خوار ہونے والے٬ بھیک مانگنے پر طرح طرح کے حقارت آمیز جملوں سے چوبیسوں گھنٹوں ان کا واسطہ پڑتا ہے٬ ڈھٹائی کی آخری حد کو چھوتے ہوئے بے حس بن کر زندگی کو گھسیٹ گھسیٹ کر گزارنے پر مجبور ہیں دکھوں کا ہلکا سا بھی شائبہ آپ کو ان کے چہروں پے دکھائی نہیں دے گا
گہرے میک اپ کی دبیز تہوں میں یہ زندگی کا ہر غم ہر دکھ بھلائے مصنوعی مسکراہٹ لبوں پے سجائے آپ کے ساتھ ہنسی مذاق کرتے ہوئے کچھ نہ کچھ لینے کے طالب دکھائی دیتے ہیں ٬ ہماری اکثریتی سوچ کچھ دینے کی بجائے ان کی تضحیک کر کے قلبی سکون محسوس کرتی ہے٬ ہمارا معاشرہ رویوں کی سفاکی کی آخری انتہاء پے جا پہنچا ہے٬ ایسے ملک میں جہاں گرانی کا وہ گراف دیکھا جا سکتا ہو٬ کہ جب سانس کے خاتمے پر دنیا چھوڑنے والے کو خوش نصیب کہا جاتا ہو٬ ایسے معاشرے میں ایسی غیر ضروری اجسام جنہیں “” خواجہ سرا”” کہا جاتا ہے ٬ ان کا وجود بار گراں تو ہو سکتا ہے لیکن کسی کیلئے بھی توجہ کا مرکز نہیں ٬ ہم لوگ ہر گزرتے دن میں اپنے آباء و اجداد کے وطیرے فراموش کر کے غیر فطری طرزِ حیات کے عادی ہوتے جا رہے ہیں
جن کا السلام سے ہمارے اسلاف سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ٬ یہی وہ ظالمانہ طریقہ کار ہے کہ ہم دنیاوی کروّفر میں اس طرح ڈوب گئے ٬ کہ حقوق کا نعرہ زبان زدِ عام ہے ٬ لیکن فرائض کی بجاآوری کی بات پر ہم گوشہ عافیت تلاش کرنے لگتے ہیں٬ کہیں رتّی بھر شائبہ ہے آج ہمارے مصنوعی غلامانہ رویوّں میں اسلاف کا؟ معاشرے کے پِسے ہوئے اس مظلوم طبقے کو قدرت نے اگر محروم کیا تو کیا ہمارا یہ فرض نہیں کہ ہم ان کیلئے اپنی توجہ کے ہمدردی کے در وا کر دیں ٬ وسائل روزگار سے محروم ٬ کسی سرکاری کوٹہ سسٹم سے محروم ٬ یہ لوگ وہ ہیں جن کا کوئی مناسب روزگار نہیں ٬معاشرتی بے حسی کا شکار یہ طبقہ اپنوں کے ہوتے ہوئے عمر بھر اپنے جیسوں میں خود کو بظاہر گُم کر کے لمحہ لمحہ ہونے والی خودکشی سے اپنے آپ کو بچا تو لیتا ہے٬ لیکن کیا کسی نے کبھی سوچا کہ عید تہوار تو آتے ہوں گے
کیا چشمِ نم آنسوؤں کو اندر ہی اندر جذب کرتے ہوئے تنہائی میں اپنے پیاروں کو یاد نہیں کرتے ہوں گے؟ ضرور کرتے ہوں گے٬ یہی تو وجہ ہے یہ جہاں رہتے ہیں رشتوں کی محرومی کو ایک شفیق “”گرو”” نامی انسان انہیں ماں باپ دوست ہمدرد بھائی بہن جیسی توجہ دے کر قدرے کم کرتا ہے٬ اس کا احترام والدین کی طرح کرتے ہیں٬ میری التجا ہے اُن تمام والدین سے جن کے گھروں میں ایسی آزمائش قدرت کی طرف سے آتی ہے ٬ خُدارا ٬ شرمندگی مت محسوس کریں ٬ حکمتِ کو سمجھنے کی کوشش کریں٬ احساس محرومی میں پلتا یہ طبقہ لمحہ لمحہ زندگی کے ہر ہر سانس سے درد کشید کرتا ہ ٬ بظاہر ہنسنے کھیلنے والا یہ وجود اندر ایسا دل رکھتا ہے جو شائد ہر ہر بے انصافی پے ہمیں خاموش بد دعا دے رہا ہو٬ ان کی طرف ہمدردی کی نگاہ کیجیۓ ٬ ان کو وسائل کے مطابق دین سے دنیا سے جوڑیں ٬اخلاق کے اعمال کے بہترین گُر سکھا کر ٬ خود ان جیسوں کیلئے معیاری تعلیم و تربیت کا اہتمام کیجیۓ ٬ایک انسان کو انسانیت کے ناطے سنوار دیا تو گویا ساری انسانیت کو سنوار دیا
گِلہ اپنی قوم سے یہ بھی ہے کہ ہم توہمتیں وسوسے ٬ خدشات بہت پالتے ہیں٬ مثبت سوچ ہم نے عرصہ ہوا ذات کی برتری کے سرعام تماشے میں کہیں گُم کر دی٬ آئیے اللہ کے حضور کل سرخرو ہونے کیلئے آج سے ہر محروم طبقے کو مخلوق کوخاص طور سے اگر وہ مخلوق انسان کی صورت “” خواجہ سرا “” ہے تو ان پر زندگی قدرے سہل کریں٬زندگی بھر سڑکوں پر پیٹ بھرنے کیلئے خوار ہونے والے بعد ازمرگ خاموشی سے ننگے پاؤں قبرستان کو رات کےاندھیرے میں اپنے کسی پیارے کو اس خاموشی سے سپردِ خاک کرتے ہیں
زندگی بھر لمحہ لمحہ ذلت اور مرنے پر رات کے سناٹے میں یوں دفن ہونا کوئی ان سے پوچھے تو جا کرکتنی بار مرتے اور کتنی بار جیتے ہیں؟ اپنے رویّے ان سے بہتر کر کے ان کی محرومی کا کچھ تو ازالہ کریں انہیں بھی زندگی کو بھرپور نہ سہی مگر کسی قدر بہتر انداز میں گزارنے کا موقع دیں٬ان کی زندگی کو اپنی جیسی بنانے کی کوشش کر کے خیر ہی خیر فلاح ہی فلاح کا عمل شروع کریں٬ کسی کی مدد کرتے ہوئے بھی قرآن پاک فرماتا ہے کہ انکی تضحیک نہ کرو ان سے اچھا بولو تو آٰئیے ابتداء کریں “” پہلے سے آخری سانس تک درد “” سہنے والی اس مخلوق کے درد میں کمی لانے کی؟
تحریر : شاہ بانو میر