لاہور (ویب ڈیسک) بدھ کو مریم نواز سمیت شریف خاندان کے دیگر افراد کو احتساب عدالت میں پیش کیا گیا۔گرمی کے باوجود صبح سے ہی کارکنوں اور مسلم لیگ کے حمایتی وکلا نے احتساب عدالت پہنچنا شروع کر دیا تھا۔ احتساب عدالت پہنچنے والے بیشتر لوگ اپنی شناخت ظاہر کرنے اور رکاوٹیں عبور کرنے کے نامور صحافی ترہب اصغر بی بی سی کے لیے اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ بعد کمرہ عدالت میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے۔تقریباً پچاس لوگوں کی گنجائش والے عدالتی کمرے میں کم و بیش سو سے زیادہ افراد موجود تھے۔ کمرہ عدالت میں نظر دوڑائی تو وہاں کچھ ایسے لوگ بھی موجود تھے جو وکیل تو نہیں تھے مگر کالا کوٹ پہن رکھا تھا۔ میں نے ایک سیاسی کارکن سے پوچھا کہ کالا کوٹ کیوں پہنا ہے؟ تو کارکن نے جواب دیا کہ ’اندر آنے میں آسانی رہتی ہے اور اس کالے کوٹ کی بڑی دہشت ہے، اس کوٹ کی وجہ سے کسی پولیس والے نے مجھے ہاتھ تک نہیں لگایا۔‘وقت بڑھتا گیا اور ساتھ ہی ساتھ کمرہ عدالت کے رش میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ کمرے میں لگی چند کرسیوں پر سیاسی رہنما بیٹھے ہوئے تھے جبکہ گرمی اور حبس کی شدت کے باعث کمرہ عدالت میں موجود ہر شخص بے حال ہونے لگا۔کچھ وقت گزرنے کے بعد ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ پانی کے پیاسے ہوگئے اور عدالتی عملے سے منتیں کرنے لگے کہ ‘ایک نہیں تو آدھا گلاس پانی دے دو۔۔۔ چلو آدھا نا صحیح دو گھونٹ ہی پانی پلا دو’۔کمرہ عدالت میں موجود ایک وکیل نے عدالت کے عملے سے کہا کہ ’مہربانی فرما کر مجھے پانی دے دیں، میں دل کا مریض ہوں‘۔ اس پر قریب کھڑے صحافی دوستوں نے کہا کہ ’آپ کی صحت ٹھیک نہیں تو اپ کیوں اندر آئے ہیں؟‘ جس پر انھوں نے جواب دیا کہ ’میں تو مہنگائی کے خلاف اور غریبوں کی تکلیف دیکھ کر یہاں آنے پر مجبور ہوا ہوں۔ ‘دیکھتے ہی دیکھتے لوگ اور کمرہ عدالت کا فرش بھی گیلا ہو چکا تھا۔ عدالت میں موجود ایم پی ایز کی بڑی تعداد تھی۔ کچھ دیر بعد سابق سیکریٹری سپریم کورٹ بار راجہ ذوالقرنین کھڑے ہو کو آواز بلند کہنے لگے کہ ’جج صاحب کی جانب سے کوئی لسٹ جاری نہیں ہوئی، ہمارے وکیلوں کو اور کارکنوں کو ایجنسیوں کے لوگوں کی طرف سے روکا جا رہا ہے۔‘دس بجتے ہی جج نعیم ارشد کمرہ عدالت میں تشریف لے آئے اور اپنی نشست سنبھال لی۔ جبکہ مریم نواز جج صاحب کے آنے کے پندرہ منٹ بعد کمرہ عدالت میں پہنچیں۔ مریم نواز کے کمرہ عدالت میں پہنچتے ہی دھکم پیل اور نعرے بازی شروع ہو گئی۔کارکنوں اور حاضری دینے کے لیے آنے والے سیاسی رہنماؤں نے مریم سے ملاقات کی اور سیلفی بنانے کے لیے تگودو شروع کر دی جس پر فاضل جج صاحب نے برہمی کا اظہار کیا اور عملے کو پولیس اور ایس پی صاحب کو بلانے کی ہدایات جاری کی۔ ایس پی کے حاضر ہوتے ہی جج صاحب نے سیلفی بنانے والے کارکنان کے موبائل فون لے کر انھیں باہر نکالنے کا حکم دیا۔ایس پی نے اپنے عملے کو ہدایت جاری کی اور کمرہ عدالت سے باہر چلے گئے۔ اس کے بعد نہ تو سیلفی اور ویڈیو بنانے کا سلسلہ ختم ہوا اور نہ ہی کمرہ عدالت سے کوئی باہر گیا۔کچھ دیر بعد کمرہ عدالت کی بجلی بند ہو گئی جبکہ جج صاحب کی کرسی کے اوپر والا پنکھا اور لائٹ چلتی رہی جس پر سابق سیکریٹری سپریم کورٹ بار راجہ ذوالقرنین ایک مرتبہ پھر کھڑے ہوئے اور جج صاحب اور کورٹ عملے کو مخاطب ہو کر کہا کہ ’بجلی کو جان بوجھ کر بند کیا گیا ہے، یہ ایجنسیوں کے لوگ ہیں جو ایسی حرکتیں کر رہے ہیں‘۔ اس پر عدالت کے عملے نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ایسا نہیں ہے ’بجلی ہم نے بند نہیں کی بلکہ لوڈشیڈنگ ہے، جج صاحب کی کرسی کے اوپر چلنے والا پنکھا یوپی ایس پر چل رہا ہے‘۔شور کم نہ ہونے پر جج اپنی کرسی چھوڑ کر کمرہ عدالت سے چلے گئے۔ بیس منٹ گزرنے کے بعد جج کمرہ عدالت میں واپس آئے اور مریم نواز کے وکیل اور نیب پروسیکیوٹر کے دلائل سننا شروع کیے جو انتہائی مختصر تھے۔نیب نے استدعا کی کہ مریم نواز سے تفتیش کے لیے ان کا مزید 15 دن کا جسمانی ریمانڈ دیا جائے جس کے جواب میں مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ ان تمام معاملات اور کیسوں میں تحقیقاتی ٹیم اپنی تحقیقات کر چکی ہے اور ٹرائل بھی مکمل ہو چکا ہے۔ جس کے بعد جج صاحب نے فیصلہ لکھوانا شروع کیا اور مریم نواز اور ان کے کزن یوسف عباس کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کر دی اور انھیں 4 ستمبر کو دوبارہ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔سماعت مکمل ہونے پر کیپٹن صفدر مریم نواز کو اپنے حفاظتی حسار میں گاڑی تک چھوڑ کر آئے۔صحافی عباد الحق کے مطابق مریم نواز اور یوسف عباس کی پیشی کے لگ بھگ آدھے گھنٹے بعد حمزہ شہباز کو عدالت میں لایا گیا۔مریم نواز اور ان کے چچا زاد بھائی حمزہ شہباز کو ایک ہی وقت میں پیش نہ کرنے کی وجہ سے عدالت کے اندار انکی ملاقات نہ ہوسکی۔شہباز شریف کمردرد کی وجہ اس مرتبہ بھی احتساب عدالت میں پیش نہ ہوئے۔مریم نواز کی پیشی کے وقت کمرہ عدالت میں افراد کی تعداد تھی لیکن حمزہ شہباز کی پیشی پر قابل ذکر فرق نظر آیا۔مریم نواز کی عدالت میں پیشی پر ان سے ملاقات کے لیے ان کے شوہر کپیٹن ریٹائرڈ صفدر، سینیٹر پرویز رشید، سابق گورنر سندھ محمد زبیر، توہین عدالت میں سزا پانے والے سابق سینٹر نہال ہاشمی، سینیٹر سلیم ضیا، کے علاوہ ارکان اسمبلی خرم دستگیر، حنا پرویز بٹ اور ثانیہ عاشق جبین موجود تھیں۔لیکن یہ تمام رہنما مریم نواز کی واپسی کے ساتھ ہی کمرہ عدالت سے چلے گئے۔دوسری طرف حمزہ شہباز سے ملنے کے لیے رکن قومی اسمبلی پرویز ملک، ان کی اہلیہ شائستہ پرویز اور بیٹے علی پرویز ملک، رکن اسمبلی رانا مبشر سمیت دیگر افراد عدالت میں پہنچے۔کمرہ عدالت میں سماعت سے پہلے وکلا اور دیگر افراد آرمی چیف کی توسیع کے بارے میں تبادلہ خیال کرتے رہے لیکن مریم نواز اور حمزہ شہباز نے اس معاملے پر میڈیا سے کوئی بات نہیں کی۔احتساب عدالت نے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف مختلف الزامات میں کارروائی کے لیے بھی اگلی تاریخ چار ستمبر مقرر کی ہے۔