کری اسلام آباد کا ایک مٹتا ہوا‘ ختم ہوتا ہوا گاؤں ہے‘ یہ گاؤں کبھی شہر ہوتا تھا‘ یہ وہ دور تھا جب اسلام آباد کا وجود ابھی خیال سے ہزاروں میل دور تھا‘جب راولپنڈی پنڈ (گاؤں) بھی نہیں ہوتا تھا‘ یہ پنڈی کہلاتا تھا‘ کری اس زمانے میں شہر بھی تھا اور سینٹرل ایشیا اور کشمیر کا جنکشن بھی‘ سینٹرل ایشیا کے گھوڑے اور کشمیر کی اون یہ دونوں کری شہر پہنچتے تھے‘ اون سینٹرل ایشیا چلی جاتی تھی اور گھوڑے کشمیر اور پنجاب روانہ ہو جاتے تھے۔
بیسویں صدی کے شروع میں کری شہر میں برہمنوں کا ایک خاندان رہتا تھا‘ یہ لوگ بخشی کہلاتے تھے‘ انگریز سرکار نے خاندان کے بزرگ واحد بخشی کو راولپنڈی جیل کا ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ لگا دیا تھا‘ یہ داروغہ جی کہلاتے تھے اور داروغہ جی کا بیٹا موہن واحد بخشی راولپنڈی صدر کے ایک بینک میں منیجر تھا‘ یہ لوگ روزگار کی وجہ سے کری سے نکلے اور راولپنڈی شفٹ ہو گئے۔ بخشی خاندان نے چٹیاں ہٹیاں کے محلہ قطب الدین میں حویلی بنا لی‘ یہ حویلی چٹیاں ہٹیاں کے مندر اور دھرم شالہ کی بغل میں تھی‘ گھر کے قریب سرکاری ٹیوب ویل تھا اور گھر کے سامنے کسی خوش حال پشتون کا مکان تھا‘ لوگ اس پشتون کو پیار سے خان صاحب کہتے تھے‘ بخشی فیملی کے ہاں 1930ء میں ایک بچہ پیدا ہوا‘ یہ بچہ موہن واحد بخشی کی اولاد تھا‘ والدین نے بچے کا نام آنند رکھ دیا‘ بچے کی والدہ پانچ سال بعد انتقال کر گئی‘ آنند راولپنڈی کے کیمبرج اسکول میں داخل ہوا‘ نو جماعتوں تک تعلیم حاصل کی اور پھر نیوی میں بھرتی ہو گیا‘ آنند سترہ سال کا ہوا تو پاکستان بن گیا۔
بخشی خاندان راولپنڈی نہیں چھوڑنا چاہتا تھا‘ یہ لوگ نقل مکانی کو اکتوبر تک ٹالتے رہے لیکن پھر حالات سے مجبور ہو گئے‘ سامان باندھا اور بھارت جانے کی تیاری کرنے لگے‘ خاندان جب گھر کی قیمتی چیزیں اکٹھی کر رہا تھا تو آنند نے صرف تصویریں جمع کیں‘ تھیلے میں رکھیں اور تھیلا کندھے سے لٹکا لیا‘ والد نے نرمی سے پوچھا ’’بیٹا پورا خاندان قیمتی چیزیں لے جا رہا ہے لیکن تم نے صرف تصویریں تھیلے میں ڈالیں‘ کیوں؟‘‘ آنند نے جواب دیا ’’باپو میں دنیا کی ہر چیز دوبارہ کما سکتا ہوں لیکن اگر یہ تصویریں کھو گئیں تو یہ دوبارہ کبھی نہیں ملیں گی‘‘ آنند تصویروں کے ساتھ بھارت چلا گیا۔
بخشی خاندان نے راولپنڈی میں خوش حالی دیکھی تھی لیکن بھارت میں ان کے لیے حالات سازگار نہیں تھے‘ خاندان کو نئے سرے سے سٹرگل کرنی پڑی‘ یہ لوگ دہلی پہنچے‘ وہاں سے پونا چلے گئے‘ آنند نے فوج جوائن کر لی‘ وہ فوج میں دھکے کھانے لگا‘ خاندان بھی کبھی یہاں اور کبھی وہاں جدوجہد کرتا رہا‘ آنند نے بعد ازاں لکھنؤمیں شادی کر لی‘ آمدنی کم تھی اور مسائل زیادہ لہٰذا آنند نے فوج چھوڑ دی اور معاشی تگ و دو میں لگ گیا لیکن بات نہ بن سکی‘ اس نے دوبارہ فوج میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا‘ وہ بھرتی کے دفتر جا رہا تھا‘ راستے میں ایک ٹرین ٹکٹ چیکر سے ملاقات ہوئی اور ٹکٹ چیکر نے اسے مشورہ دیا ’’تم نے فوج چھوڑ دی بس چھوڑ دی‘ اب واپس نہ جاؤ‘ وہ کام کرو جس کا من چاہتا ہے‘‘ وہ ٹکٹ چیکر اسے ممبئی میں اپنے گھر لے گیا۔
آنند پانچ سال اس کے گھر رہا‘ شاعری اور گلوکاری کا شوق تھا‘ وہ روز صبح اٹھتا تھا‘ ناشتہ کرتا تھا اور فلم سازوں کے دفتروں کا چکر لگانے لگتا تھا‘ یہ چکر پانچ سال بعد بار آور ثابت ہوئے‘ آنند کا لکھا ہوا پہلا گانا ’’دھرتی کے لال نہ کر اتنا ملال‘‘ 1958ء میں فلم ’’بھلا آدمی‘‘ میں شامل ہوگیا اور پھر وہ دیکھتے ہی دیکھتے بھارت کی ہر کامیاب فلم کالازمی حصہ بن گیا‘ آنند نے زندگی میں ہزاروں گانے لکھے‘ یہ گانے بھارت کے ہر بڑے گلوکار نے گائے اور یہ گانے بھارتی فلم انڈسٹری کے ہر بڑے ہیرو اور ہیروئن پر فلمائے گئے‘ آپ اپنی پسند کے دس پرانے گانے نکال لیجیے آپ کو ان میں سے آدھے گانے اس شخص کے ذہن رسا کی پروڈکشن ملیں گے جس کی یادوں کی گٹھڑی میں صرف چند تصویریں تھیں‘ راولپنڈی اور کری شہر کی چند تصویریں اور بچپن اور ماضی میں سنے ہوئے چند واقعات اور بس‘ آنند پوری زندگی راولپنڈی کو اپنے ساتھ لے کر چلتا رہا۔
وہ شخص! جی ہاں اس شخص کا نام آنند بخشی تھا‘ آنند بخشی صاحب 2002ء میں 71 سال کی عمر میں وفات پا گئے‘ وہ 2 اکتوبر 1947ء کو راولپنڈی سے نکلے اور وہ مرنے تک 55 سال راولپنڈی‘ قطب الدین محلہ‘ چٹیاں ہٹیاں اور اپنے گھر کو یاد کرتے رہے‘ راولپنڈی کی یادیں ان کا سرمایہ تھیں‘ وہ اپنے اس سرمائے کو اپنے ہر گیت میں استعمال کرتے تھے‘ آپ کو ان کے اکثر نغموں میں تصویریں‘ پوٹھوہاری لفظ اور چھوٹے درختوں سے اٹے جنگل ملیں گے‘ یہ تینوں راولپنڈی کی سوغات ہیں‘ وہ پوری زندگی راولپنڈی آنا چاہتے تھے‘ وہ چٹیاں ہٹیاں دیکھنا چاہتے تھے‘ وہ اپنے آبائی علاقے کو چومنا چاہتے تھے‘ وہ کری شہر کی پرانی گلیوں میں سانس لینا چاہتے تھے اور وہ مری بھی جانا چاہتے تھے لیکن راولپنڈی اور دہلی کے درمیان سرحدیں بھی تھیں اور نفرت کے بے شمار دریا بھی چنانچہ وہ زندگی میں واپس راولپنڈی نہ آ سکے‘ آنند بخشی بھارتی آرمی میں رہے تھے۔
یہ بیک گراؤنڈ بھی ان کے راستے کی رکاوٹ تھا چنانچہ وہ اپنے وطن کو ترستے ترستے مر گئے‘ یہ کہانی یہاں ختم ہو گئی لیکن یہاں سے ایک نئی کہانی شروع ہو گئی‘ میرے پرانے دوست وسیم الطاف فیس بک رائیٹر ہیں‘ ان کا پیج پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں میں بہت مشہور ہے‘ یہ اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں اور کمال کر دیتے ہیں‘ یہ 2012ء میں انٹرنیٹ کے ذریعے آنند بخشی کے بیٹے راکیش آنند بخشی کے رابطے میں آئے‘ راکیش نے اپنے والد کے بچپن کی تصویریں فیس بک پر اپ لوڈ کر رکھی تھیں ‘یہ وہ تصویریں تھیں جو آنند بخشی تقسیم کے وقت راولپنڈی سے لائے تھے‘ وسیم الطاف کو تحریک ہوئی۔
راکیش نے اپنی پھوپھیوں سے معلومات لیں‘ وسیم الطاف نے کیمرہ لیا اور بخشی فیملی کی معلومات پر سفر کرتے ہوئے چٹیاں ہٹیاں میں ان کے گھر تک پہنچ گیا‘ بخشی خاندان کا گھر تبدیل ہو چکا تھا لیکن یہ اس کے باوجود قابل شناخت بھی تھا اور اس کا قدیمی ڈھانچہ بھی سلامت تھا‘ وسیم نے گھر کی تصاویر بنائیں اور اپنے فیس بک پیج پر لگا دیں‘ بخشی فیملی نے وہ رات کمپیوٹر اسکرین کو چومتے گزاردی‘ یہ لوگ آج بھی وسیم الطاف کا پیج کھولتے ہیں‘ خاندانی گھر کی تصویروں کو چومتے ہیں اور پھر اپنے کام کاج شروع کردیتے ہیں‘ یہ نفسیاتی‘ ثقافتی اور انسانی لحاظ سے ایک تکلیف دہ صورت حال ہے لیکن بھارت اور پاکستان دونوں ملکوں میں لاکھوں خاندان اس صورتحال کا شکار ہیں‘ لاکھوں لوگ جدائی کی اس حالت میں انتقال کر چکے ہیں اور ہزاروں آخری گھڑیاں گن رہے ہیں۔
برصغیر کی تقسیم انسانی المیہ تھی‘ اس المیے نے لاکھوں المیے جنم دیے‘ لاکھوں انسان ستر سال بعد بھی پاکستان میں تڑپ رہے ہیں اور لاکھوں بھارت میں اپنے لاہور‘ اپنے راولپنڈی‘ اپنے لائل پور اور اپنے سرگودھے کو ترس رہے ہیں‘ ہم ماضی کو نہیں بدل سکتے‘ انگریزی کا محاورہ ہے ’’ماضی کو خدا بھی تبدیل نہیں کر سکتا‘‘ تاریخ ایک ایسا قبرستان ہے جس کی قبروں میں نئے مردے تو دفنائے جا سکتے ہیں لیکن کسی مردے کو اٹھا کر زندہ نہیں کیا جا سکتا‘ ہم بڑی سے بڑی ٹائم مشین بھی لے لیں لیکن ہم واپس 1947ء میں جا کر المیوں کا حمل نہیں روک سکیں گے۔
ہم دونوں ملکوں کا جغرافیہ اور دونوں ملکوں میں آبادی کا بے رحمانہ تبادلہ بھی نہیں روک سکیں گے‘ وقت وقت ہے اور تاریخ تاریخ ہے لیکن ہم کم از کم آنند بخشی جیسے کرداروں کے سینے ٹھنڈے کر سکتے ہیں‘ میری وفاقی حکومت بالخصوص پنجاب حکومت سے درخواست ہے آپ ’’آخری زیارت‘‘ کے نام سے بھارت اور پاکستان میں ایک اسکیم شروع کریں‘ آپ بھارت کے ان بزرگ شہریوں کو ویزے کی سہولت دیں جن کا بچپن پاکستان میں گزرا تھا اور یہ اب زندگی کی سرحد پر کھڑے ہیں‘آپ ان لوگوں کو پاکستان لائیں اور انھیں تین چار دن ان گھروں میں رکھیں جو کبھی ان کے اپنے ہوتے تھے۔
حکومت گھروں کے نئے مالکان کو پرانے مالکان کی میزبانی کے لیے بھی رضامند کرے‘ یہ سہولت بھارت بھی بزرگ پاکستانیوں کو دے‘ یہ لوگ بھی بھارت جائیں اور چند دن اپنے آبائی گھروں میں رہ کر واپس آ جائیں‘ بھارتی حکومت اگر نہیں مانتی تو بھی پاکستان یہ سہولت ضرور دے‘ یہ نیکی ہے اور اللہ تعالیٰ ہمیں اس نیکی کا اجر ضرور دے گا‘ میں نے پچھلے دنوں یہ نیکی کر کے دیکھی‘ آپ یقین کریں میرا بال بال سرشار ہو گیا‘ امریکا میں ایک سکھ خاندان رہتا ہے‘ یہ لوگ فیصل آباد سے نقل مکانی کر کے بھارت گئے اور وہاں سے امریکا چلے گئے‘ ان کی والدہ حیات ہیں‘ یہ 92 سال کی بزرگ خاتون ہیں‘یہ بھارتی پنجاب میں رہتی ہیں‘ یہ مرنے سے قبل اپنا گاؤں اور اپنا گھر دیکھنا چاہتی تھیں لیکن انھیں ویزہ نہیں مل رہا تھا‘ میں نے ویزے کے لیے کوشش کی‘ یہ کوشش کامیاب ہوئی‘ وہ بزرگ خاتون فیصل آباد آئیں اور آخر میں ملاقات کے لیے اسلام آباد آگئیں۔
آپ یقین کریں وہ مجھے دیکھ کر ہاتھ باندھ کر کھڑی ہو گئیں اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگیں‘ وہ بار بار کہتی تھیں ’’پتر توں میرا محسن ہے‘‘ میری آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے‘ کاش ہماری حکومت بھی ان لوگوں کی محسن ہو جائے‘ کاش یہ بھی ان کی دعائیں لے لے‘ میری جنرل قمر جاوید باجوہ‘ خواجہ آصف‘ چوہدری احسن اقبال اور میاں شہباز شریف سے درخواست ہے آپ ان مرتے ہوئے لوگوں پر رحم کریں‘ آپ ان کے لیے اپنے دل کے دروازے کھول دیں‘ اللہ آپ کی زندگی کا سفر بھی آسان کردے گا۔