بارہ جنوری 1931ء خانہ برق میں جس تجلی کا ظہور ہوا وہ نوجوانی میں گوہر و شرر برقی کے نشیبوں سے ہوتی اپنے فراز کو پہنچ گئی اور ظلمتِ شب میں 14 شمعیں روشن کرنے کے بعد دس سال سے ایچ ایٹ اسلام آباد کی خاک کو چمکا رہی ہے۔
غیر معمولی شخصی قامت کے حامل اس شاعر نے اپنے نام کی طرح شاعری کو بھی سرفراز کیا اور اسے ٹی ہاؤسوں سے اٹھا کر فائیو سٹار ہوٹلوں اور تھڑوں سے ڈرائنگ رومز میں لے آئے۔ ان کی شاعری میں رومان اور احتجاج کے ملاپ نے انہیں غزل پسند کرنے والوں کا محبوب بنا دیا۔ محبتوں کا یہ سلسلہ اب تک برقرار ہے۔ وہ آج بھی لوگوں کے دل میں دھڑکتے ہیں اور ہر سال ان کی سال گرہ بہت محبت سے منائی جاتی ہے۔ 12 جنوری 2018ء کو ان کی 87 ویں سال گرہ پر پنجاب آرٹس کونسل راولپنڈی میں شعر و ادب کی منتخب شخصیات زاویہ نشین تھیں اور فراز صاحب کی شخصیت اور شاعری کے مختلف پہلوؤں پر دلچسپ گفتگو ہو رہی تھی۔ جن میں سے ایک ان کا آخری مشاعرہ تھا۔
جن جن شہروں میں انہوں نے اپنی زندگی کے آخری دور میں مشاعرے پڑھے وہ اپنے اپنے تئیں نازاں ہیں کہ فراز صاحب کے آخری مشاعرے کا شرف ان کے شہر کو ملا۔ ویسے تو محبوب ظفر اپنی کتاب احمد فراز، شخصیت اور فن میں ”احمد فراز کا پاکستان اور پاکستان سے باہر آخری مشاعرہ” اور اشفاق حسین (کینڈا) نے اپنے مضمون ”احمد فراز:آخری مشاعرہ، آخری ملاقات” میں اس بحث کو تمام کر چکے ہیں لیکن متضاد دعوؤں کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔
جن شہروں کو فراز صاحب کی آواز سب سے آخر میں سننے کا موقع ملا ان میں ایک کہوٹہ ہے۔ جہاں فراز صاحب نے 2007ء کے اختتام پر مشاعرہ پڑھا۔ احمد فراز کی صدارت اور جاوید احمد کی میزبانی اور نظامت میں ہونے والے اس مشاعرے میں حلیم قریشی، شعیب بن عزیز، محبوب ظفر، ثمینہ راجہ، سعد اللہ شاہ، منظر نقوی اور دیگر معروف شعرا نے شرکت کی۔ مشاعرہ کافی تاخیر سے شروع ہونے کے باعث احمد فراز جلدی اپنا کلام سنا کر چلے گئے۔ انہوں نے سب سے پہلے یہ غزل سنائی
فتنہ سامانی میں یکساں ہیں فراز
اپنا دل ہو یا کہوٹہ اور کیا
سات مارچ 2008ء احمد فراز آخری مرتبہ اپنے آبائی شہر کوہاٹ گئے۔ پانچ سال پہلے جناح لائبریری کو جناح آرکیڈ میں بدلنے پر انہوں نے کوہاٹ جانے کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔ زوالفقار چیمہ ڈی آئی جی پی کی درجنوں دعوتوں نے انہیں فیصلے پر نظر ثانی پر مجبور کر دیا۔ ڈی آئی جی کی رہائش گاہ پر ہونے والے اس مشاعرے میں انہوں نے محاصرہ اور دوسرا کلام پیش کیا۔ مصرعوں کی یاد دہانی سعدی فراز اور باذوق سامعین نے کرائی۔
پندرہ مئی 2008ء کو دوحہ (قطر) میں بارھویں فروغ اُردو ادب ایوارڈز کامشاعرہ کی فراز صاحب نے صدارت کی۔ اس مشاعرے میں منشا یاد اور وارث علوی کو فراز صاحب کے ہاتھوں ایوارڈز دیے گئے۔ (منشا یاد، سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے، دنیا نیوز، 19 اگست 2014ء)
اکیس جون 2008ء بے نظیر بھٹو کی سالگرہ کے موقع پر لیاقت باغ راولپنڈی میں فراز صاحب کی صدارت میں ایک مشاعرے کا اہتمام تھا۔ باغ جیالوں سے بھرا ہوا تھا۔ فراز صاحب نے اس غزل سے آغاز کیا۔
اس نے جب چاہنے والوں سے اطاعت چاہی
ہم نے آداب کہا اور اجازت چاہی
مشاعرہ رات دیر گئے تک جاری رہا اور وہ اسی رات امریکہ کے لیے روانہ ہو گئے۔ فراز صاحب کا پاکستان میں یہ آخری مشاعرہ تھا۔
اٹھائیس جون 2008ء کو انہوں نے امریکہ میں پاکستانی نژاد ڈاکٹروں کی تنظیم ”اپنا ” کے مشاعرے کی صدارت واشنگٹن میں کی۔ یاداشت ساتھ نہ دینے کے باوجود آپ آخر تک مشاعرے میں بیٹھے رہے۔ یہ فراز صاحب کا آخری انٹرنیشنل مشاعرہ ٹھہرا۔ شیڈول کے مطابق 2 جولائی کو انہیں ٹورانٹو میں مشاعرہ میں شرکت کرنا تھا لیکن ان کی صحت نے اجازت نہیں دی۔