بات کیپٹن صفدر کی ہو رہی ہے۔ انہوں نے ببانگ دہل کہا کہ مریم نواز کے لیے یعنی میری اہلیہ کے لیے اثاثوں کے حوالے سے جو باتیں کی جا رہی ہیں وہ سب جھوٹی ہیں۔ اس کے علاوہ میری اہلیت پر لگائے گئے الزامات بھی جھوٹے ہیں۔ خیال ہے کہ یہ جواب سپریم کورٹ میںتحریری شکل میں بھی داخل کرایا جائے گا۔ رائے ونڈ کے ایک واقف حال شخص چودھری غفور نے تصدیق کی ہے کہ کیپٹن صفدر کسی کرپشن میں ملوث نہیں۔
میرا بھائی میرا دوست نوید خان جوانی کی دہلیز پار کرتے ہی وہاں چلا گیا جہاں عمر کی کوئی قید نہیں ہے۔ جہاں زمان و مکان کی قید سے آدمی آزاد ہو کر جاتا ہے۔ نوید خان تحریک انصاف کے بانیوں میں سے تھا۔ نوید خان نے عمران خان کے لیے بڑی قربانیاں دیں مگر شاید اس وقت قربانی کی کہانی کا کوئی عنوان ہی نہیں تھا۔ نوید خان سچا اور بہادر آدمی تھا۔ اس نے بہت سی باتوں میں عمران خان سے اختلاف کیا۔ آج ثابت ہو رہا ہے کہ وہ ٹھیک تھا۔ عمران خان اپنی باتوں کے لیے کوئی مداخلت پسند نہیں کرتے تو نوید خان کیوں کرتا۔ عمران نے یہ جرات نہ کی تھی کہ نوید خان کو تحریک انصاف سے فارغ کرتا۔ تب تحریک انصاف اس بے انصافی کو برداشت نہ کر پاتی مگر نوید خان خود الگ ہو گیا کہ عمران کی عمرانیت آمریت سے بڑھ گئی تھی۔
نوید خان جیسے جانثار دوست سے محرومی کبھی نہ کبھی تحریک انصاف والوں کو بیدار کرے گی جو اختلاف برداشت نہیں کرتا۔ وہ کسی دوست کے اعتراف کا متحمل کیسے ہو سکتا ہے۔ عمران خان کو ایک دن نوید خان کا اعتراف کرنا پڑے گا۔ انہوں نے اپنے پرانے دوست کی وفات پر افسوس کا اظہار بھی نہ کیا۔ شاید عمران کو معلوم ہی نہ ہو کہ نوید خان مر گیا ہے؟ وہ واقعی نہیں مرا۔ وہ زندہ لوگوں میں سے تھا۔ جو زندگی میں زندہ نہیں ہوتے۔ وہ موت کے بعد کیا زندہ رہیں گے۔
نوید خان زندہ ترآدمی تھا۔ مجھے تو اس کے لیے ”تھا“ کے صیغے پر بھی اعتراض ہے مگر کوئی چارہ¿ کار نہیں ہے کیونکہ مرے ہوئے ”زندہ“ لوگوں نے کتاب زیست کو مکمل ہی نہیں کیا۔ نوید خان کے دوست اور بالخصوص ارشد ملک جانتا ہے کہ وہ دوستوں کا دوست تھا اور دشمنوں کا دشمن۔ میرے مولا علیؓ نے فرمایا کہ جس کا کوئی دشمن نہیں ہوتا وہ کسی کا دوست نہیں ہوسکتا۔ مجھے تو یہ بھی دوستانہ اعزاز حاصل ہوا کہ اس نے میرے دس مرلے کے کوارٹر میں قیام کیا۔ میری بیٹھک میں چارپائی بچھانے کی جگہ نہ تھی تو وہ زمین پر سوگیا اور بڑی اچھی نیند کے مزے لینے لگا۔ اس نے کئی بار کہا کہ ایسی اچھی نیند مجھے کبھی نہیں آئی ہوگی۔ میں اسلام آباد جاتا تو میرا سب سے زیادہ وقت اس کے ساتھ گزرتا۔ برادرم ارشد ملک بھی ہوتے بڑا مزا آتا وہ میرے ساتھ ہر بات کرتا تھا۔ مگر اگلے جہان کے سفر پر جاتے ہوئے اس نے مجھ سے بات نہیں کی۔ یہ بات اس نے کسی دوست سے نہ کی۔
لاہور میں ڈاکٹر طاہرالقادری سے ملنے ضرور آتا اور مجھے بھی لے جاتا۔ ڈاکٹر صاحب میرے کلاس فیلو ہیں۔ وہ بہت بڑے آدمی ہیں مگر انہیں یاد ہے کہ ہم پنجاب یونیورسٹی بس میں ساتھ ساتھ ہوتے تو دونوں کھڑے ہوتے اور ہم نے ایک دوسرے کا سہارا لیا ہوا ہوتا تھا۔
نوید خان برادرم مواحد حسین کا بہت ذکر کرتا۔ مواحد حسین مشاہد حسین کے بڑے بھائی ہیں ان کے تیسرے بھائی مجاہد حسین سے بھی میری محبت ہے۔ وہ نوائے وقت میں باقاعدہ کام کرتے ہیں۔ ان کے والد کرنل امجد حسین سے محبوب و مرشد مجید نظامی بہت دوستی رکھتے تھے۔ مواحد اور نوید خان تحریک انصاف کے بانی ممبران تھے۔ یہ بات عمران خان کو بھول گئی ہے۔ عمران خان کو نوید خان کے لئے اظہار افسوس کرنا چاہیے تھا۔ بلکہ عمران کو نوید خان کے گھر جانا چاہئے تھا۔ بڑے سیاستدان بڑے انسان کب بنیں گے۔ نوائے وقت کے کالم نگار برادرم نعیم قاسم نے مجھے پنڈی سے فون کیا اور نوید خان کے لئے تعزیت کی میں ان کا شکر گزار ہوں یہ رویہ بڑے لوگوں کی شان ہے۔ انہوں نے مجھے یہ احساس بھی دلایا کے میں نوید خان کا بہت دوست ہوں۔ اس موقع پر معروف شاعرہ اور ماہر تعلیم فاخرہ انجم کے دو اشعار بہت یاد آئے۔ اچھے اشعار کسی نہ کسی صورتحال کے گرد چھا جاتے ہیں
فاخرہ انجم کہتی ہیں
دستکیں دے دل جہاں وہ در تو ہونا چاہیے
قابل دستار کوئی سر تو ہونا چاہیے
تھام لے سب دھڑکنیں اور اپنے رستے لے چلے
مسند دل پر کوئی دلبر تو ہونا چاہیے