لاہور (ویب ڈیسک) میری بات غور سے سنو، ہماری تباہی کی وجہ حکومت نہیں بلکہ عوام بنیں گے‘‘۔ یہ بات سن کر میں نے زور سے کہا ’’بیچارے عوام کا کیا قصور ہے؟‘‘ اس نے زہریلے انداز میں کہا کہ عوام کا قصور یہ ہے کہ ان میں اکثریت جھوٹوں اور منافقوں کی ہے نامور کالم نگار حامد میر اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لہٰذا جیسے عوام ہیں، ویسے ہی حکمران ان پر مسلط ہو گئے ہیں۔ میں نے ایک دفعہ پھر اختلاف کیا اور دعویٰ کیا کہ اس ملک کے عوام اتنے طاقتور نہیں ہوئے کہ اپنی مرضی کے حکمرانوں کو مسندِ اقتدار پر بٹھائیں۔ اکثر اوقات کسی نہ کسی حکمران کو عوام پر مسلط کر دیا جاتا ہے۔ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائو کہ کیا موجودہ حکومت کو عوام پر مسلط نہیں کیا گیا؟ اس نے میرے سوال کو قہقہے میں اڑا دیا اور پوچھا کہ تم بھی اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائو کہ کیا پچھلی حکومت کو بھی عوام پر مسلط نہیں کیا گیا تھا؟ یہ سن کر میں نے فاتحانہ انداز میں کہا کہ میرے موقف کی تصدیق ہو گئی ہے۔ پچھلی حکومت بھی مسلط کی گئی اور موجودہ حکومت بھی مسلط کی گئی ہے، اس ملک میں اکثر حکومتیں عوام پر مسلط کی جاتی ہیں۔ تم نے مان لیا میں صحیح کہہ رہا ہوں۔ وہ مجھ سے اتفاق کے لئے تیار نہ تھا۔ آج اس کا لہجہ کچھ بدلا بدلا سا تھا۔ اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اور شہادت کی انگلی میری طرف تان کر قدرے سخت لہجے میں کہا کہ اپنے آپ کو دھوکہ دینا بند کرو۔ تم سیاستدان نہیں ایک صحافی ہو، سیاستدان نے ووٹ لینا ہوتے ہیں۔ وہ ہزار مصلحتوں کی وجہ سے سچ نہیں بولتا لیکن تمہارا کام صرف سچ بولنا ہے۔ تمہیں ماننا ہوگا کہ اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ جھوٹ اور بددیانتی ہے لیکن تم صحافی لوگ چند سیاستدانوں کو جھوٹا اور بددیانت تو کہتے ہو لیکن اس قوم کو جھوٹا اور بددیانت نہیں کہتے۔ جھوٹی اور بددیانت قوم کا مقدر ہمیشہ جھوٹے اور بددیانت حکمران بنتے ہیں، حکمرانوں کے بدلنے سے اس قوم کے مسائل حل نہیں ہوں گے، اس قوم کو اپنا آپ بدلنا ہوگا۔ اس قوم کی اصلیت ہر رمضان میں بےنقاب ہو جاتی ہے۔ حکمران کوئی بھی ہو رمضان میں ہر دوسرا مسلمان شیطان بن کر روزہ داروں کو لوٹتا ہے۔ اسلام محبوس ہو جاتا ہے اور مسلمان چور بازاری میں آزاد ہو جاتا ہے۔ جو لوگ رمضان کے مقدس مہینے میں جھوٹ اور بددیانتی سے باز نہیں آتے، تم ان بدبختوں کا دفاع کر رہے ہو۔ کم از کم تم تو رمضان میں خوفِ خدا کرو۔ اب میں خاموش ہو گیا تھا، میرے ذہن میں علامہ اقبالؒ کے کچھ اشعار گونج رہے تھے؎ قُرآن کو بازیچۂ تاویل بنا کر ۔۔ چاہے تو خود اک تازہ شریعت کرے ایجاد ۔۔ ہے مملکتِ ہند میں اک طرفہ تماشا ۔۔ اسلام ہے محبوس، مسلمان ہے آزاد! ۔۔ میں سوچ رہا تھا کہ پاکستان بننے سے کئی سال پہلے علامہ اقبالؒ نے اپنی اس قوم کے بارے میں کہا تھا کہ اسلام ہے محبوس، مسلمان ہے آزاد۔ پاکستان بننے کے کئی سال بعد یہاں مسلمان آزاد ہے لیکن اسلام محبوس ہے۔ جو اسلام کہتا ہے مسلمان اس پر چلتا نہیں۔ ہر وقت حکمرانوں کو کوستا رہتا ہے، اپنے گریبان میں جھانکتا ہی نہیں۔ شاید میرا دوست صحیح کہہ رہا تھا کہ پاکستان کو غیر ملکی قرضوں کی زنجیروں میں جکڑنے والے حکمران دراصل اس قوم کے اجتماعی گناہوں کی سزا ہیں۔ ابھی کچھ دن پہلے میں لاہور میں کچھ بھٹہ مزدوروں سے ملا تھا۔ یہ بھٹہ مزدور جن بھٹوں پر کام کرتے ہیں ان کے مالکان کے چھوٹے چھوٹے قرضوں میں جکڑے ہوئے تھے۔ وہ نسل در نسل ان قرصوں کو ادا کرنے میں مصروف رہتے ہیں لیکن قرضے ادا نہیں کر پاتے اور غلامی کی موت مر جاتے ہیں۔ آج میرے پاکستان کی حالت ایک ایسے بھٹہ مزدور کی ہے جو سارا دن محنت کرتا ہے لیکن شام کو اس کے بچوں کو بھوکے پیٹ سونا پڑتا ہے۔ وہ عالمی طاقتوں کی غلامی میں ہر قسم کی خدمات سر انجام دیتا ہے، اپنا خون بھی بہاتا ہے لیکن یہ طاقتیں اسے قرضوں کے بوجھ سے نجات نہیں دیتیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ یہ بھٹہ مزدور کس دن ظالموں کے خلاف بغاوت کا علم بلند کرے گا؟ میرا دوست بولے جا رہا تھا، بولے جارہا تھا، اس کے الفاظ میری سماعتوں سے ٹکرا رہے تھے لیکن مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ میں نے غور سے سننے کی کوشش کی کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ وہ پوچھ رہا تھا کہ آج کل تم ٹویٹر پر قرآن کی آیتیں کیوں پوسٹ کرتے ہو؟ ’’رمضان کا مہینہ ہے، نیکی کمانے کی کوشش کی ہے‘‘۔ یہ جواب دے کر میں اپنی نشست سے اٹھا اور دوست سے کہا کہ افطار کا وقت قریب ہے، مجھے ایک افطار پارٹی میں پہنچنا ہے تم نے بھی کہیں نہ کہیں افطار کرنا ہوگا لیکن دوست نے کہا میری آخری بات سن لو۔ یہ بتائو تم ٹویٹر پر قرآن کی آیتیں پوسٹ کرتے ہو، علماء کرام رمضان میں ہر تقریر قرآن کی آیت سے شروع کرتے ہیں، قرآن کی آیت پر ختم کرتے ہیں یہاں تک کہ وزیر اعظم کی ہر تقریر بھی قرآن کی آیت سے شروع ہوتی ہے لیکن تم لوگوں کی باتوں میں برکت کیوں نہیں ہے؟ تم سب کے بس میں صرف بے بسی ہے، تم سب کے پاس کثرتِ مال ہے لیکن اندر سے برا حال ہے۔ تم سب اندر سے خوفزدہ ہو، تم لوگ سچ نہیں بولتے، جھوٹ بولنا پاکستان کی خدمت سمجھتے ہو۔ یاد رکھنا سچ چھپا کر اور جھوٹ بول کر پاکستان کا بھلا نہیں کیا جا سکتا۔ میں نے پوچھا:ہم نے کون سا سچ چھپایا ہے؟ دوست نے مسکرا کر کہا:اس ملک کا چیف جسٹس کہتا پھر رہا ہے کہ اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ جھوٹ ہے۔ میں نے تلملا کر پوچھا کہ کیا چیف جسٹس کا تعلق اسی قوم سے نہیں؟ کیا وہ کسی دوسرے ملک سے آیا ہے؟ کیا تم چاہتے ہو کہ میں جسٹس محمد منیر سے پاکستانی عدلیہ کی کہانی شروع کروں اور جسٹس نسیم حسن شاہ کے اعترافات یاد دلا کر جسٹس ثاقب نثار پر ختم کروں؟ دوست نے کچھ مدہم لہجے میں کہا کہ نہ کسی عدالت کی توہین کرو، نہ کسی جج کی توہین کرو، نہ کسی حکمران کو گالی دو، بس سچ بولنا شروع کر دو۔ اس ملک کو حکمران نہیں بدل سکتے، اس ملک کو صرف چند صاحبانِ فکر و دانش ہی بدل سکتے ہیں، اگر اخبار اور ٹی وی پر سچ نہیں بول سکتے تو سوشل میڈیا پر سچ بولو۔ وہاں نہیں بول سکتے تو چوک اور چوراہے پر جاکر سچ بولو۔ پہلے اپنی برائیوں اور خامیوں کا اعتراف کرو پھر دوسروں کی غلطیاں سامنے لائو۔ سچائی چھپا کر اس ملک کے مفاد کا تحفظ کرنے کے دعویداروں کو بتائو کو تم پاکستان کو 1971ء کی طرف واپس لے کر جا رہے ہو، ملک بچانا ہے تو سچ بولنا ہوگا۔ آزادیٔ ا ظہار کی جنگ لڑنا ہوگی۔ آزادیٔ اظہار پر پابندیاں ہی اصل ففتھ جنریشن وار ہے کیونکہ یہ پابندیاں وہ حالات پیدا کرتی ہیں جن سے دشمن فائدہ اٹھاتا ہے۔ میرا دوست اجازت لینے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے مصافحہ کیا اور چلتے چلتے کہنے لگا کہ آج میرا لہجہ تلخ تھا، اس کی معافی چاہتا ہوں لیکن امید ہے کہ تم مجھے کوئی غدار یا ملک دشمن نہیں بلکہ حقیقی تبدیلی کا علمبردار سمجھو گے۔