تحریر: میر افسرا امان، کالمسٹ
وزیر اعظم نواز شریف صاحب نے قوم کو قانونی و عدالتی اصلاحات پیکیج دینے کے لیے نون لیگ کی قانونی ٹیم کے سینئر رکن، ممبر پیمرا جناب چوہدری محمد اشرف گوجر ایڈوکیٹ کی سربراہی میں قانون سازی کے لیے سفارشات مرتب کرنے کی غرض”وزیر اعظم لیگل ریفارمز کمیٹی” کے تحت ممبران کی تقرری کے اختیارات دیے تھے۔
پرنسپل سیکرٹری صاحب کی طرف سے٤ دسمبر ٢٠١٤ء کو ڈائرکیٹو جاری ہوا جس میں وزارت قانون و انصاف کے سیکریٹری صاحب کو اس کمیٹی کا کوآرینٹر مقرر کیا گیا اور اس کمیٹی کا سیکریٹریٹ بھی وزارت قانون وانصاف کو قرار دیا۔ چوہدری صاحب چیئرمین وزیر اعظم لیگل ریفارم کمیٹی نے بہت ہی قلیل وقت میں ١٤٤ صفحات پر مشتمل سفارشات ، پاکستانی عوام کو جلد اور فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے رپورٹ وزیر اعظم صاحب کو پیش کر دیں ہیں۔ اس عوامی کام میں چوہدری صاحب کو جناب چیف جسٹس سپریم کورٹ جواد ایس خواجہ صاحب کی طرف سے ان کے دو ریسرچ اسکالر کی بھی مدد حاصل رہی ہے۔ اس سلسلے میں چوہدری صاحب نے پاکستان کے چاروں صوبوں، اسلام آباد، آزاد جموںوکشمیر،گلگت بلتستان کی ہائی کورٹس سمیت سپریم کورٹ آف پاکستان، فیڈرل شریعت کورٹ اور تمام صوبوں کے ضلعی جج صاحبان کے ساتھ تبادلہ خیال کے ساتھ، وکلاء تنظیموں، نادرااور ملک کے تمام متعلقہ لوگوں سے مشاوارت کے بعد پاکستان کے نظامِ عدل میں اصلا حات کے لیے سفارشات مرتب کیں ہیں۔ہمیں بھی چیدہ چیدہ چیزیں گیارا صفحات پر مشتمل مورخہ ١٢ اگست کو ای میل کی تھیں جو ہم نے پرنٹ نکال کر اپنے پاس محفوظ کر لیں تھیں ۔ کو شش کی ہے کہ اس بڑے کام کو عوام تک پہنچایا جائے۔
بقول چوہدر ی صاحب کے اتنے بڑے کام کے لیے حکومت کو ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کرنا پڑا۔ ہماری چوہدری صاحب سے گزارش ہے کہ کم از کم اگر ان گیارا صفحات کو پریس میں اشاعت کے لیے جاری کر دیں توپاکستان کے لوگو ں کو ڈارکٹ معلومات بھی مل جائیںگیں۔ صاحبو! کون نہیں جانتا کہ پاکستان کے عدالتی نظام کے تحت عوام کو انصاف نہیں ملتا اگر ملتا بھی ہے تو سالوں انتطار کرنا پڑتا ہے۔انگریز کے رائج کردہ قانونِ شہادت کے تحت جج صاحبان مقدمات کے فیصلے کرتے ہیں۔ اگر دو آدمی عدالت میں آ کر گواہی دے دیں کہ فلاں شخص نے قتل کیا گو کہ ُا س نے قتل نہیں کیا ہو تو جج صاحبان شہادت کی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہیں ۔اس میں لوگ دشمنی میں جھوٹی گوائیاں دیتے ہیں ان سفارشات میں جھوٹے مقدمے میں بھاری جرمانہ تجویزکیا گیا ہے۔یہ بات تجر بے میں آئی ہے کہ لوگ غلط طور پر حکم امتناعی حاصل کر لیتے ہیں اس پر قانون میں تبدیلی کر کے بھاری جرمانے کی سزا کی سفارش کی گئی ہے اسی طرح جھوٹے مقدمے قائم کرنے والوں کی لیے سزا تجویز کی گئی ہے۔
دیوانی مقدمات برسوں چلتے ہیں مگر عدالت کی طرف سے فیصلہ نہیں ہوتا بعض دفعہ اتنے کا مقدمہ نہیں ہوتا جتنے مقدمہ کرنے والے کا خرچ ہو جاتا ہے۔اس سلسلے میں ان سفاشات میں مقدمات کے فیصلوں کے لیے کم سے کم اور زیاہ سے زیادہ مدت کے تعین کا کہا گیا ہے۔اس کے لیے قانون میں تبدیلی کی سفارش کی گئی ہے۔ایک سال کے اندر اندر فیصلہ کرنے کا پابند کیا جائے گا۔ اگر کسی مقدمے کا فیصلہ عدالت نے کر دیا یعنی ڈگری کے بعد عدالت ازخود اجراء کا عمل شروع کرے تاکہ سائل کو پریشانی نہ ہو۔ عوام کو بھی مقدمات کا شوق ہوتا ہے جو باتیں مقامی طور پر محلے کی بنیاد پر طے ہوسکتیں ہیں ان کو لوگ عدالتوں میں لے جاتے ہیں جس سے عدالتوں میںمقدمات کی بھر مار ہوتی ہے۔
جج صاحبان پر بڑا بوج ہوتا ہے لہٰذا زیادہ سے زیادہ جج صاحبان کے تقرر کی سفارش کی گئی ہے۔جج بھی ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں۔ضرورت تو اس امر کی ہے کہ معاشرے کی اصلاح کے لیے بڑے بڑے پروگرام کئے جائیں مگر ہماری حکومتیں کھیل تماشوں کے طرف زیادہ مائل نظر آتیں ہیں یہی حال ہماری دینی جماعتوں کا ہے ان کا بھی بھی معاشرے کی اصلاح کا کام ہے مگر اس طرف کم ہی دھیان ہے۔ لہٰذا جہاں تک جج صاحبان کے کام کا تعلق ہے تو ان سفارشات میں جج صاحبان کو کم از کم چھ ماہ تک ٹرنینگ ایکڈمی اور سینئر جج صاحبان کے ساتھ عدالتی کام کی ٹرنینگ دی جانی شامل ہے۔پیشہ وارانہ اخلاقیات کی تعلیم اور تربیت کے مضامین لازمی طور پر بڑھائے جائیںاس کے لیے ورکشاپ اور سیمینارز منعقد کئے جائیں۔یہاں تک فوجداری مقدمات کا تعلق ہے تو ان سفارشات میں کہا گیا ہے کہ فوجداری عدالت کو پابند کیا جائے کہ کریمینل ٹرائل ترجیحاً روزانہ کی بنیاد پرہو۔ بہت غیر معمولی حالت میںدودن سے زیادہ التواء نہ دیا جائے اورغیر ضروری تاخیر کے مرتکب فریق پر جرمانہ عائد کیا جائے۔مارکیٹ میں مشہور کہ چیک تو کاغذ کا ٹکڑا ہے۔ دھوکہ دینے کے لیے مارکیٹ میں چیک کا لین دین ہوتا ہے ڈس آنر چیک کی برسوں ادئیگی نہیں ہوتی۔ ان سفارشات میں٦ ماہ سے ٧ سال کی سزا کا کہا گیا ہے۔اگر دس لاکھ کا چیک ڈس آنر ہو تو کم از کم ٧ سال کی سزا تجویز کی گئی ہے۔ایک خاص بات یہ ہے کہ تفتیش کے شعبہ کو قطعی طور پر انتظامی یا آ پریشنل شعبہ سے الگ کر دیا جائے گا۔
دہشت گرد اپنے خلاف گواہوں کو قتل کرتے رہے ہیں حتہ کہ کراچی میں ١٢ مئی کے واقعات کا مقدمہ سننے والی عدالت کو ایک جماعت کے کارکنوں نے گھیر لیا اور وہ مقدمہ نہ سن سکی۔اس لے تجویز کیا گیا ہے کہ حکومت سنگین جرائم اور دہشت گردی کے مقدمات سے متعلق جج صاحبان ، پراسیکیوٹرز اور گواہوں کوفول پروف سیکورٹی فراہم کرنے کے انتظامات کیے جائیں ایسے مقدمات ٹرائل ویڈیو کانفرنس کے ذریعے عمل میں لایا جائے تاکہ مجرم انہیں نقصان نہ پہنچا سکیں ۔ کچھ لوگ جعلی ڈگریوں پر وکالت کرتے ہیں۔ بار کونسلز ہر نئے وکیل کو لائسنس جاری کرنے سے قبل اس کی ڈگریوں کی تصدیق کروائی جائے اس سے جعلی وکلا ء کی روک تھام ہو گی۔ذرا سے بات پر آج کل وکلاء اور ڈاکٹر ہڑتال پر چلے جاتے ہیں۔جس سے عوام کو نقصان اُٹھانا پڑتا ہے۔ اس کو ختم کرنے کے لیے بار کونسل ایکٹ میں ترمیم کی جائے کہ کوئی بار کونسل یا بار ایسوسی ایشن ہڑتال نہیں کر سکے گی۔عدالتوں کے ذریعے انصاف کی فراہمی کو لازمی سروس کے امرے میں شامل کیا جائے۔ہڑتال کی وجہ سے جج نہیںروکیں گے وکیل بھی ضرور پیش ہونگے ۔ ان سفارشات میںمجھے سب سے اچھی پیش رفعت عدالتوںمیں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے بھر پور استعمال کی لیے قانون سازی اور انتظامی اصلاحات کے سفارش کی ہے۔
عدالت کی کاروائی ویب سائٹ پر مہیا ہونے چاہیے۔ ایک کالم میں ساری باتوں کو سمیٹا نہیں جا سکتا اس لیے چوہدری صاحب سے درخواست کہ ابلاغِ عام کے لیے ان سفارشات کو پریس میں جاری کر دیا جائے۔قارئین!ایسا نہ ہو کہ وزیر اعظم لیگل ریفارمز کمیٹی کی اتنی سخت محنت اور حب الوطنی سے تیار کردہ سفارشات سرخ فیتہ کا شکار ہو جائیں اور عوام پہلے کی طرح عدالتوں میں پیشی پہ پیشی کے طرز عمل کا شکار رہیں اور انصاف ملنے میں تاخیر ہوتی رہے۔ اس لیے نواز شریف صاحب سے کہیں گے کہ ان سفارشات کو عملی جامعہ پہنانے کے فوراً حکم جاری کریں۔اللہ ہمارے ملک میں انصاف کا بھول بھالا کرے آمین۔
تحریر: میر افسرا امان، کالمسٹ
کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان اسلام آباد سی سی پی
You must be logged in to post a comment Login