تحریر: زاہد محمود
2009 ء میں سیالکوٹ کی تحصیل سمبڑیال سے ملحق ایک گاؤں کوجلا دیا گیا۔ اس گاؤں میں بسنے والے لوگوں میں کیتھولک عیسائی اکثریت میں تھے۔ نمازِ جمعہ سے فارغ ہونے کے بعد مسلمانوں کا ایک مشتعل گروہ مقامی مولوی صاحب کی قیادت میں عیسائی محلے کو نذرِ آتش کرنے چڑھ دوڑا۔ جہاں کوئی عیسائی نظر آتا یہ لوگ اسے پکڑتے اور بد ترین تشدد کے بعد آگ کے ایک الاؤ میں پھینک دیتے۔ اسی دوران لوگوں کی کثیر تعداد اور پولیس بھی موقع پر پہنچ گئی۔ مشتعل ہجوم کی تعداد اور جنون کے سامنے پولیس مکمل طور پر بے بس تھی۔ اسی اثنا میں گرجا گھر کو آگ لگا دی گئی۔
اس وقت محلے میں جتنے بھی عیسائی موجود تھے ان پر شدید جسمانی تشدد کیا جاتا رہا۔ خطبہ جمعہ میں مقامی مولوی صاحب نے لوگوں کو بتایا کہ گاؤں میں عرصہ دراز سے بسنے والے ایک عیسائی خاندان کے نو عمر لڑکے نے قرآن پاک کی بے حرمتی کی ہے اور یہ کہ مدرسے میں پڑھنے کے بعد واپس جاتے ایک بچے سے سپارہ چھین کر گٹر میں پھینکا گیا لہذا ہر مسلمان پر اسکا بدلہ لینا فرض ہے۔ اس ساری کاروائی میں کسی نے حقیقت جاننے کی کوشش نہیں کی اور اس ”کارِخیر” میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا گیا۔ تشدد کے بعد جب کچھ لوگ مرنے کے قریب پہنچ گئے تو پولیس کو ہوش آیا۔
شدید کشمکش کے بعد انہیں جائے وقوع سے نکال کر تھانے لے جایا گیا۔ ملزم لڑکے پر تھانے میں پولیس نے بے پناہ تشدد کیا اور اسی رات لڑکے کی موت واقع ہو گئی عوامی ردِ عمل اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے دبائو نے حوالات میں ہونے والی اس موت پر پولیس کی نیندیں حرام کر دیں۔ ”ماہرین ”نے قانون کی کتابیں کھولیں اور گنجائش ڈھونڈنے لگے۔ میڈیا کو ابھی تک اس سارے معاملے سے دور رکھا گیا۔ اگلی صبح میڈیا بریفنگ میں بتایا گیا ملزم لڑکے نے رات گئے اپنی پتلون کو پھندا بنا کر خودکشی کر لی۔ اس کے بعد توہینِ رسالت کے قانون کو استعمال میں لایا گیا جس سے پولیس کا کام آسان ہو گیا۔
اس گاؤں میں ایک لیڈی ڈاکٹر بھی تھیں جنہوں نے جھلس جانے والوں کو فرسٹ ایڈ پہنچائی تھی۔ مسلسل ایک ماہ کوشش کے بعد کچھ صحافی دوستوں کے ساتھ ہم اس لیڈی ڈاکٹر تک پہنچ گئے اور ان سے واقعے کے حقائق جاننے کی التجاء کی۔ بہت اصرار کے بعد انہوں نے ہمیں ایک ڈائری مہیا کی جو ڈائری تو نہ تھی بلکہ ایک زناٹے دار تھپڑ تھا جسے ہم سب نے اپنے گالوں پر پڑتا محسوس کیا۔ اس ڈائری کا ہر ورق چیخ چیخ کر بتا رہا تھا عیسائی کمیونٹی کے گھروں کو جلانے کی وجہ قرآنی سپارہ نہیں بلکہ گاؤں کی مسلم لڑکی اور عیسائی لڑکے کے درمیان محبت تھی جو جلد شادی میں بدلنے والی تھی۔ گزشتہ دو سال میں یہ ڈائری لڑکی کی جانب سے لکھی گئی تھی جس کے کچھ اوارق لڑکا بھی لکھ چکا تھا۔
لڑکا اپنا مذہب بدل کر لڑکی سے شادی کرنا چا ہتا تھا۔ مذہبی فیملی سے تعلق رکھنے والے لڑکی کے ماں باپ اسے ناک کٹوانے کے مترادف سمجھتے تھے۔ لہٰذا اُنہوں نے بدنامی سے بچنے کے لئے مذہبی اشتعال انگیزی کو اپنایاجس سے قانون کا ناجائز استعمال عمل میں آیا ۔ اس بات میں ذرہ برابر شک و شبہ نہیں پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق (ان کا مقام خاص کر عیسائی مذہب کا) کم وبیش وہی ہیں جو انڈیا میں رہنے والے مسلمانوں کے۔ اس قانون سے متعلق متنازعہ بیان دینے پر گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو ان کے سیکیورٹی گارڈ ممتاز قادری نے قتل کر دیا۔ صحیح قا نون کا غلط استعمال ہمیشہ سے ہوتارہا ہے۔کسی بھی قانون کے ناجائز استعمال کو روکنے کے لئے قومی مفاد میں آئینی ترامیم کا مطالبہ ناجائز نظر نہیں آتا۔
لیکن اسے بھی غلط انداز میں لیا گیا۔ ممتاز قادری بلاشبہ ایک سچا عاشقِ رسول اور پکا نمازی تھا۔ اسے مذہبی یرغمالیوں نے استعمال کیا۔ نیتوں کے احوال سے ہم واقف نہیں لیکن اس کا اقدام ماورائے قانون تھا۔ سلمان تاثیر کا قتل تعزیراتِ پاکستان C492 کی خلاف ورزی جبکہ ممتاز قادری کی پھانسی اسی قانون کی عملداری ہے۔ جبکہ کچھ لوگ اس واقعے کو غازی علم دین (شہید) کا دوسرا پارٹ ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں بارہا علمائے اکرام ثابت کر چکے ہیں کہ کسی بھی اسلامی ریاست میں سزا دینے کا اختیار صرف اعلی عدلیہ کے پاس ہوتا ہے۔ غازی علم دین (شہید) نے جب گستاخِ رسول کو قتل کیا اس وقت اسلامی ریاست موجود نہ تھی۔ عدلیہ پر انگریزوں کا قبضہ اور ہندؤوں کا اثرو رسوخ تھا۔ گستاخی کامجرم توہینِ رسالت پہ مکمل کتاب لکھ کر چھپوا چکا تھا۔
کوئی قانونی راہ باقی بچی نہ تھی۔ جبکہ ممتاز قادری کا معاملہ مختلف ہے۔ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے جس کا مسلمان سربراہ ہے۔ یہاں عدلیہ کا مکمل نظام موجود ہے۔ لوگ خود جرم ثابت کرنے لگیں اور خود ہی سزائیں دینے لگیں گے تو ملکی قوانین کی پاسداری کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ یہاں مذہبی عُلماء و رہنما اور قلمی مبصرین کا کردار خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ انہیں خطبہِ جمعہ اور مذہبی اجتماعات میں ریاستی وفاداری اور قانون کی پاسداری سے متعلق شعور اجاگر کرنا چاہیے تھا۔ گورنر پنجاب کے اس بیان کے بعد یہی نام نہاد خطیب اس بیان کو متنازعہ بنانے کے لئے توہین رسالت کے فتوے جا ری کر رہے تھے۔ کسی نام نہادخطیب کے فتوے سے متاثر ہو کر ممتاز قادری نے گورنر پنجاب کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس اقدام کو غلط ثابت کرنے کے بھی فتوی جاری ہوئے۔
اب ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد پھر سے یہی لوگ مذہبی لبادے میں سیاسی دکانداری چمکانے میں مصروف ہیں۔ آئین ِ پاکستان کی دفعہ 302 کا مطالعہ کریں تواس شِق میں آپ کو بے حد وسعت نظر آئے گی۔ سماجی دبائو یا مصالحتی ترجیح پر پھانسی کی سزا کو کم کرنے یا معطل کرنے کے لئے رحم کی اپیل کاآپشن موجود ہے۔ اس کے علاوہ صدرِ پاکستان کو خصوصی اختیا ر حاصل ہے کہ وہ قومی مفاد میںپھانسی کی سزا کم یا معاف کر سکتے ہیں۔ ممتاز قادری کی رحم کی اپیل منظور ہونا کچھ مشکل کام نہیں تھا۔ اگر اس کا تعلق کسی امیر سیاسی وڈیرے یا سرمایہ دارخاندان سے ہوتا تواس کا پھانسی لگنا تقریبًا ناممکن ہوتا۔ آپ شاہ زیب قتل کیس دیکھ لیں،دندناتے ریمنڈ ڈیوس کاعام شہریوں کو وسط لاہور شہر میں قتل کرنا او ر عدالت کا راتوں رات گنجائش نکال کر اسے بری کرنا پورے پاکستان کو یاد ہے۔ ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد سوشل میڈیا اور عوامی حلقے دو دھڑوں میں بٹے نظر آئے۔
مذہبی تنظیمیں ممتاز قادری کو غازی علم دین شہیدثابت کرنے کے لئے حوالہ جات پیش کر رہی ہیں۔ دوسرے دھڑے میں بھی نیم سیکولرمذہبی مفتیانِ اکرام موجود ہیں جو مقتول گورنر سلمان تاثیر کا قتل ناجائز ثابت کرنے کی دلیلیں اور فتوے جاری کر رہے ہیں۔ دونوں اطراف ہی ملکی نامور جید علماء قانون داںاور مذہبی رہنما موجود ہیں ۔جو ایک دوسرے کو قرآن حدیث کے حوالہ جات ”استعمال” کر کے کافر ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ مورخ لکھے گا جس و قت د نیا ترقی کرتے ہوئے خلائوں میں شہرآباد کرنے کی پلاننگ کر رہی تھی اور مریخ پر جا کر زندگی بسانے کے لئے ٹیم تیارکر رہی تھی ایسے میں پاکستانی قوم کے لوگ ایک دوسرے کو کافر ثابت کرنے میں مصروف تھے۔ جو رمضان کا چاند دیکھنے، عید کو ایک ہی دن منانے ، نماز کے اوقات اورممتاز قادری کی پھانسی کو لے کر کافر کافر کھیل رہے تھے۔
تحریر: زاہد محمود