تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
جناح بیرسٹر بن کرواپس لوٹے تو سیاست کا آغاز کانگرس سے کیا مگر ہندو ئوںکی اندرونی پلید گیوں اور مسلمانوں سے گہری نفرت کا پتہ چلتے ہی انہوں نے کانگرس چھوڑ دی اور مسلم لیگ میں شامل ہو گئے 1940کی قرارداد کے بعدمسلمانوں کی زوردار تحریک سے بالآخرپاکستان کا قیام عمل میں آگیا۔چونکہ انگریزوں نے اقتدار مسلمانوں سے ہی چھینا تھا اس لیے وہ اپنی دشمنیاں اور اندرونی کدورتیں نہ بھلا سکے اور ہندوستان کی تقسیم کے دوران کئی مسلم ریاستوں حتیٰ کہ جو نا گڑھ کو بھی پاکستان میں شامل نہ کیا ۔جموں و کشمیر پر بھی ایسے مکروہ کردار کا مظاہرہ کیاکہ وہاںہندو مسلم کشمکش مسلسل جاری رہے۔کشمیریوں نے آج تک قربانیوں ،شہادتوں کے عظیم مینار تعمیر کیے ہیں جمیعت علمائے ہند اور مجلس احرارِاسلام نے کھلم کھلا قائد اعظم کی طرف سے ہندوستان کو تقسیم کرکے مسلمانوں کی علیحدہ ریاست کے حصول کی جدو جہدکی سخت مخالفت کی حتیٰ کہ احرارکے سیکریٹری جنرل مولانا مظہر علی اظہر نے تو انھیں کافر اعظم تک کہہ ڈالا
ایک اورجماعت اسلامی نامی دینی تحریک سید مودودی کی قیادت میں1941سے کام کر رہی تھی انہوں نے پاکستان دشمنی کی طرح جیسی مخالفت تو نہ کی مگر تحریک کا ساتھ بھی نہیں دیا اور کہا کہ ممکن ہے کہ آپ( قائد)ایک خطہ زمین حاصل کرلیں گے جس میں زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہو گی جس کا سربراہ بھی ہمیشہ مسلمان ہو گا۔ مگر اسلامی نظام نافذ نہیں ہو سکے گا۔چو نکہ جب مسلم لیگ کی تحریک ذوروں پر تھی تو اس میںایسے لوگ بھی گھستے چلے گئے جن کا مقصد یہاں پر قطعاً اسلامی نظام نافذ کرنا نہ تھا۔پاکستان بننے سے قبل ہی کمیونسٹوں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ آئندہ چونکہ مسلم لیگ اور کانگریس ہی اقتدار میں آئیں گی اسلئے کمیونسٹ پارٹی کے مسلمان ارکان مسلم لیگ اورہندو سکھ کانگریس میں گھس جائیں تاکہ اقتدار میں آنے والی پارٹیوں کواپنے نظریات کی بجائے کمیونزم کی طرف راغب کرسکیںحتیٰ کہ پنجاب کے ٹوڈی جاگیرداروں ممتاز دولتانہ اور میاں افتخار الدین وغیرہ نے آگے چل کر ایسا ہی کردار ادا کیا۔
سید مودودی نے تو پاکستان بنتے ہی کہہ ڈالا کہ کلمہ کی بنیاد پر جو زمین ہمیں خدا نے عطا کی ہے۔ اسے مسجد سمجھ کر اس کا احترام ضروری ہے اور یہاں پر اسلامی آئین اورنظام کے نفاذ کی کوششیں جاری رکھی جائیں 1948ہی میںقائد اعظم کی اجازت سے ریڈیو پاکستان سے اسلامی نظام کے حق میں سید مودودی کو تقاریر کرنے کے لیے کہا گیا انہوں نے اسلام کے مختلف پہلو سیاسی نظام ،معاشرتی نظام ،رو حانی نظام ،اخلاقی نظام اور اقتصادی نظام پر خطابات کا سلسلہ شروع کردیاجو سیکولرسٹوں اورکمیونسٹوں کو ایک آنکھ نہ بھایا۔قائد کے ہمیں داغ مفارقت دیتے ہی وڈیروں انگریز کے ٹوڈی جاگیرداروںنے اپنا اصل روپ دکھانا شروع کردیا۔قائد کے فرمودات کے مطابق لیگی اسلامی مملکت تو کیا بناتے انہوں نے آپس کی لڑائیوں اور محلاتی سازشوں کے جال بننا شروع کردیا۔
نوابزادہ لیاقت علی خان روسی دعوت کو مسترد کرکے پہلے سرکاری دورہ پر امریکہ چلے گئے اس دن سے ہم اس عالمی دہشت گرد کے پروردوں میںشامل ہیں۔لیاقت علی خان کوسازشیوں نے سر عام قتل کرواڈالاسکندر مرزا ور پھر چیف کمانڈر ایوب خان نے قبضہ کرلیا قائد کی بہن محترمہ فاطمہ جناح نے ان کے خلاف صدارتی الیکشن میں حصہ لیا مگر شدید دھونس و دھاندلیوں سے انھیں ہرا دیا گیاشیخ مجیب الرحمٰن اور جی ایم سید لیگ چھوڑ گئے اور اپنی اپنی پارٹیاں بنا لیں مجیب کو اگر تلہ سازش کیس میں گرفتار کیا گیامگر ایوب کی گول میز کانفرس میں شامل حزب اختلاف کے لیڈروں نے اسے رہا کرواڈالا۔ایوب خاں کو ڈیڈی کہنے والے مسٹر بھٹو اس کی کابینہ کے سب سے کم عمر وزیر تھے ۔انہوں نے سرکاری کنونشن مسلم لیگ کے اجلاس میں رائے دی کہ دپٹی کمشنر کو ضلعی مسلم لیگ کا صدر اور ایس پی کو جنرل سیکریٹری ہونا چاہیے بعد میں خارجہ امور پر اختلافات کے بموجب لیگ چھوڑ کر پی پی پی کی بنیاد رکھی۔
1970ء کے عام انتخابات میں پی پی پی مغربی پاکستان کی اکثریتی پارٹی بن گئی ۔مشرقی پاکستان میں ہندوئوں نے اپنے امیدوار کھڑے کیے اور پھر آخری دنوں میں مجیب کی عوامی لیگ کے حق میں دست بردار ہوگئے ۔زبردست بیرونی فنڈنگ اور پرا پیگنڈے کے طوفان نے مجیب کو مکمل فاتح قرارد یا۔مجیب سمیت ہر نئے لیڈر نے لسانیت علاقائیت اور صوبائی خود مختاری کے نعرے لگائے تو قائد کے پاکستان کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجانے کا اندیشہ پیدا ہوا روٹی کپڑا مکان دیں گے، جالو جالو آگن جالو، جھیڑا واوھے اوہی کھاوے ، اُدھر تم ادھر ہم جو ڈھاکہ اسمبلی کے اجلاس میںجائے گااس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی ۔صرف پی پی پی کا احمد رضا قصوری ڈھاکہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں گیا نتیجتاً اپنا والد قتل کروا بیٹھا ۔یحیٰی نے بھٹو سے لاڑکانہ میں شکار کے بہانے تین دن تک مذاکرات کیے اور اقتداری فارمولہ طے کیا۔
ادھر مجیب کے چھ نقاط نے مشرقی پاکستان میںآگ بھڑکا ڈالی بھارت مکمل اس کی پشت پر آن کھڑا ہوا جنگ بندی کروانے کے لیے پولینڈ و دیگر ممالک کی قراردادیں اقوام متحدہ میں پیش تھیں کہ نامزد وزیر خارجہ کے طور پر بھٹو نے وہاں پہنچ کر “لاڑکانہ پلان ” کے مطابق قرار دادیں ہی پھاڑ ڈالیںاور بائیکاٹ کرکے واپس وطن چل دیے تیسرے ہی دن یحییٰ خان نے مشرقی کمان کے کمانڈر جنرل نیازی کو ہتھیارڈالنے کا کہا 93ہزار فوجی قیدی بن کر بھارتی جیلوں میں ٹھونس ڈٍالے گئے یحییٰ بھٹو پلان کامیاب ہو ااور ادھر تم ادھر ہم کے مصداق مجیب اور بھٹو دونوں ہی بنگلہ دیش اور مغربی پاکستان کے وزرائے اعظم بن گئے۔بالآخر 1977کے عام انتخابات میں شدید انتخابی دھاندلیوں کے خلاف قومی اتحاد کی تحریک کے نتیجہ میں ضیاء الحق قابض ہو گئے۔
اتحادی لیڈروں نے وزارتیں قبول کرکے نظام مصطفیٰ کے لیے عوام کی زبردست قربانیوں اور شہادتوں کو خاک میں ملا ڈالا۔ضیاء الحق کے ہی دور میں اس کے زیر سایہ نواز شریف وغیرہ ابھرے وزیر خزانہ پنجاب اور پھر وزیر اعلیٰ نامز د ہوئے۔بھٹو کی پھانسی یا عدالتی مرڈر پر قوم بھٹو اور اینٹی بھٹو کیمپوں میں بٹ گئی۔نواز شریف کی آمر کے زیر سایہ لاٹری نکل آئی اور اس کا طوطی بولنے لگا ۔چھانگا مانگا جیسی سازشیں جنم لینے لگیں دو بڑی جماعتوںکے مقابلے میں عوام چکی کے دو پاٹوں کی طرح پستے چلے گئے۔ان کے مسائل پس پُشت ڈال دیے گئے۔مکمل کنٹرول کے حصول اور ہر ادارے پر اپنے بندوں کا قبضہ کروانے کی خواہش کی تکمیل نے نواز شریف کو جیل یاترا کرواڈالی۔حکمرانی ختم ہوئی اورملک بدر ہو کر سعودی عرب جا پہنچے۔جنرل مشرف نے قابض ہوکر 9/11پر امریکہ کو افغانستان پر حملوں کی اپنے اڈوں سے اجازت دے ڈالی اور اپنے مغربی بارڈروں کو غیر محفوظ کروا بیٹھا۔ اب تک بھی مسلم لیگ اور تمام ہی بڑی اپوزیشن جماعتوںمیں وڈیروں نو دولتیے سود خور صنعتکاروں اورانگریزوں کی ناجائز اولاد جاگیرداروں کرپٹ مفاد پرست عناصر خود یا ان کی اولادوں کا قبضہ ہے سیاست صرف مال سمیٹو کاروبار بن چکی ہے۔
کئی وکی لیکس سرے محل سوئس اکائونٹس ظاہر ہوئے اب دو بار وزیر اعظم بننے والے کے شہزادگان پانامہ لیکس میں اربوں ڈالر جمع کروائے ہوئے ہیں گیلانی اور راجہ رینٹل وزائے اعظم کرپشن میں ڈبکیاں لگائے ہوئے ہیں ۔اپوزیشن خصوصاً عمران خان جس کی خودبھی لندن میں نیازی لیکس تھیںمگر وہ حکمرانوں کے خوب لتے لے رہے ہیں افرا تفری کا عالم ہے ان کے خلاف کاروائیاں کرنے والے تو ملازمتوں سے ہی برخواست یا صوبہ بدر ہی ہوں گے ۔اژدھے نما لیڈروں کے خلاف ایکشن ہونا محال ہے چیخ وپکار کرنے والی دینی جماعتیں لاکھ کہیں کہ ہیں مگر نہ ہیں ۔مسلکوں اور تفرقوں کے باعث ان میں کچھ زندگی ہے مگر وہ ویسے ہی سخت شرمندگی ہے۔
اے قائد تیرے کسی فرمان پر عمل نہیں ہوتاآپ 14اگست کو سارا دن زند ہ باد رہتے ہیں باقی 364دنوں میں آپ کے نام کی نوٹوں پر چھپی ہوئی تصویر کا سکہ چلتا رہتا ہے کہ کوئی معمولی کام بھی اس کے بغیرہو نہیں سکتا۔کرپشن ،بیروزگاری ،غربت ،مہنگائی دہشت گردی کا تیرے دیے گئے خطہ پر قبضہ ہے عوام سخت پریشان کہ جس پاکستان کے لیے1947میں نوجوانوں بوڑھے مائوں بہنوں نے قربانیاںدیں اور شہادتیں قبول کیں اس کا کیا حال ہو چلاہے۔ اے قائد ہم سخت شرمندہ ہیں مگر تو پائندہ ہے اور بچا کھچاپاکستان ابھی زندہ ہے جب کہ ملک دشمن دہشت گرد وارداتیں کیے چلے جارہے ہیں ۔کوئٹہ سول ہسپتال میں چھ درجن سے زائد شہادتیں ہوچکیں مقتدر سیاستدان اپنے بچائو کے لیے سرگرداں انھیں شہیدوں کی کیا پرواہ۔اے قائد ہم شرمندہ ہیں۔
تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری