تحریر : اختر سردار چودھری
قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کا یوم ولادت ہر سال 5 جنوری کو منایا جاتا ہے ان کا 2015 میں یہ 87 ویں یوم ولادت ہے۔ ملک بھر میں ان کی ولادت جوش و خروش سے منائی جاتی ہے اور گڑھی خدا بخش لاڑکانہ میں مرکزی تقریبات ہوتی ہیں ۔ذوالفقاری علی بھٹو 5 جنوری 1928 کو لاڑکانہ میں پیدا ہوئے ۔بھٹو کو ئی قوم نہیں ہے بلکہ یہ ایک بھارت کے گا ئو ں کا نام تھا ۔بھارت کے ضلع حصار کے قصبے سرسہ کے میں ایک گا ئو ں بھٹو تھا ۔جو اب بھی دریائے سرسوتی کے کنارے آباد ہے ۔جب دریائے سرسوتی خشک ہوا ،قحط پڑا ،وہاں کے مکین ہجرت کر کے لاڑکانہ میں آباد ہوئے ۔بھٹوخاندان اس گاوں کی مناسبت سے بھٹو کہلایا۔ذوالفقارعلی بھٹو سر شاہنواز کے تیسرے بیٹے تھے ،شاہنواز کو برطانیہ نے سر کے خطاب دیا تھا ان کو ہند کی سیاست میں ایک اہم مقام حاصل تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بمبئی اورآکسفورڈیونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی ۔1950 میں کیلیفورنیا یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں گریجویشن کیا ۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعدکراچی میں وکالت کا آغاز کیا ،اور پھر 1953 میں ایس ایم لا ء کالج میں بین الاقوامی قانون پڑھانے لگے ۔ آپ کی شادی نصرت اصفہانی سے ہوئی جو کہ نسلا ایرانی تھیں ان کے والد مرزا اصفہانی کی کراچی میں کیمیکل کی ایک انڈسٹری تھی ۔انتہائی خوش شکل ،خوش لباس ،گیسو دراز،ذہین و فطین بھٹو کی شہرت ملک میں پھیلی تو ایوب خان نے 1958 کو بھٹو صاحب کو بطور وزیر اپنی کابینہ میں شامل کر لیا ۔ اکتوبر 1958 کو آپ کو وزیر تجارت بنا دیا گیا ۔جنوری 1960 میں اس کے ساتھ ساتھ آپ کو مزید محکمے مثلا اقلیتی امور ،ایندھن بجلی و قدرتی وسائل اور امور کشمیر کا قلم دان بھی سونپ دیا گیا ۔1962 کے آخر میں دسمبر میں پاک بھارت مذاکرات کے مندوب مقرر ہوئے ۔1963 میں وہ ملک کے وزیر خارجہ بنے ۔قائد عوام کو ہلال پاکستان کا اعزاز 27 جون 1964 کو دیا گیا ۔بھٹو ایک بہادر اور نڈر طبیعت کے مالک تھے ۔مفاہمت ،منافقت ،دوغلی پالیسی سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا ۔وہ سچ بات منہ پر کہنے کے عادی تھے ایک بار جب وہ وزیر خارجہ تھے تو صدر جانس نے ان سے کہا تھا ،دنیا کے جس حصے میں اور جتنی دولت چاہیے لے لو اور ہماری راہ سے ہٹ جا ئو ،بھٹو نے جواب دیا ۔۔ہم بکا ئو مال نہیں ہیں ایک غیرت مند قوم ہیں۔
1966جنوری کی دس تاریخ کو صدر ایوب سے پہلا اختلاف ہوا جس نے بعد میں ان کی راہیں جدا کر دیں 10 جنوری 1966 میں معاہدہ تاشقند سے اختلاف کیا پانچ ماہ بعد اور 10 جون 1966 کو ایوب کابینہ سے استعفیٰ دے دیا ۔پہلے تو انہوں نے معاہدہ تاشقند پر صرف اختلاف کیا تھا لیکن جب ایوب خان نے اعلان تاشقند پر دستخط کیے تو وہ حکومت سے علیحدہ ہو گئے ۔30 نومبر 1967کو اپنے دو اڑھائی سو دوستوں کے ساتھ گلبرگ لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی چار ارکان پر مشتمل پیپلز پارٹی کی سپریم کونسل بنائی گئی جن میں ذوالفقار علی بھٹو،جے اے رحیم ، محمد حنیف رامے ،ڈاکٹر مبشر حسن شامل تھے ۔بنیادی ارکان میں بھٹو کا کوئی قریبی رشتہ دار نہیں تھا ۔بھٹو نے غریبوں کے حق میں انقلاب لانے کا اعلان کیا تھا ۔لیکن وہ غریبوں کے حق میں انقلاب نہیں لا سکے یا ان کو لانے نہیں دیا گیا ان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں ۔لیکن ہاں وہ غریبوں کو جگا ضرو ر گئے۔ان کو ان کے حقوق سے آگاہ ضرور کر گئے ۔ وہ جب تک زندہ رہے پارٹی میں الیکشن نہیں کرواے ۔پاکستان پیپلز پارٹی کے چار بنیادی اصول تھے۔ ۔اسلام ہمارا دین ہے ۔جمہوریت ہماری سیاست ہے۔سوشلزم ہماری معیشت ہے ۔طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں ۔جب پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تو اس وقت ایک سوال تھا کہ ایک نئی پارٹی کیوں ضروری ہے ؟اس کا جو جواب دیا گیا وہ قابل توجہ ہے ۔آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد برصغیر کے مسلمانوں نے مکمل اتحاد سے ساتھ اعلان کیا تھا کہ پاکستان کی بنیادیں اسلام کے بنیادی اصولوں پر استوار کی جائیں گی اور ہماری سیاسی ،معاشی،اور سماجی زندگی اسلام کے دینی و دنیوی اصولوں کی قوت سے رواں دواں ہوگی لیکن ایسا نہ ہو سکا اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی ہے ۔ بھٹو صاحب نے دن رات محنت کر کے پاکستان پیپلز پارٹی کو پاکستان کی مقبول ترین جماعت بنا دیا۔
۔1970 میں ہونے والے الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی نے مغربی پاکستان میں اکثریت حاصل کی اس وقت سقوط ڈھاکہ ہوا 1971 میں مشرقی اور مغربی پاکستان الگ الگ ہو گئے ۔اسی سال وہ پاکستان کے تیسرے صدر بنے اور 14 اگست 1973 کو پاکستان کا پہلا آئین نافذ کیا اور خود وزیر اعظم بن گئے ۔اور بھارت سے مقبوضہ علاقے واگزار کرائے ، جس نے ان کو ملک مقبول ترین لیڈر بنا دیا ۔اس کے علاوہ 20 نومبر 1972 کو پاکستان کے پہلے ایٹمی ری ایکٹرکا افتتاح کیا ۔بھٹو جب اقتدار میں آئے تو ان کو جن مسائل کا سامنا تھا ان میں سے بنگلہ دیش کو تسلیم کرنا ،بھارت سے تعلقات بحال کرنا ،نوے ہزار سے زائد قیدی بھارت سے رہا کروانا،مضیب الرحمن جو ان دنوں قید تھے اور ملک میں ان کے حق میں تحریک چل رہی تھی ۔اس کے علاوہ بھارت کے قبضہ میں پانچ ہزار مربع میل زمین بھی تھی اسے واگزار کروانا ۔قائد عوام نے ملک کو ایٹمی ملک بنانے ،اسلامی بینک قائم کرنے،کہوٹہ پلانٹ کی تعمیر کرنے،ملک کو پہلا متفقہ آئین دینے ،نوے ہزار قیدیوں کو بھارت سے چھڑانے ،غریبوں کو ان کے حقوق سے آگاہ کرنے ان ان کو ان کے حق دلانے جیسے کاموں کے لیے جہدو جہد کی ۔بھٹو نے غربا کی بات کی ان کے حق کے لیے آواز اٹھائی ،ملک کو قومی لباس سلوار قمیض دیا ،اس سے پہلے ملک کا کوئی قومی لباس نہ تھا۔
پاکستان پیپلز پارٹی جو کہ قومی جماعت تھی آج صرف سندھ تک سمٹ گئی ہے ۔مفاہمت کی سیاست کے لیے پیپلز پارٹی نہیں بنی تھی بلکہ غریبوں کے حق کے آواز بلند کرنے ان کے حقوق دلانے کے لیے۔روٹی ،کپڑا اور مکان ۔ایک انسان کی بنیادی ضروریات کا نعرہ لگایا گیا جس نے بے پناہ مقبولیت پائی ا س کے علاوہ پاکستان میں اسلامی نظام کے رائج کرنے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا تھا ۔ ایک دور تھا جب پاکستان میں بھٹو کٹ جناب بھٹو کا ہیر اسٹائل مقبول ہوا تھا سر پر بڑے بڑے بال رکھنا بھٹو کٹ تھا اس وقت پاکستان کے نوجوان بھٹو کٹ میں اکثر دیکھنے کو ملتے تھے بھٹو کے لاکھوں کارکن تھے جن کو جیالوں کا نام دیا گیا ۔بھٹو نے انقلاب غریبوں کے لیے ،نیا پاکستان کا بھی نعرہ لگایا اور بے پناہ غریبوں کی محبت پائی ۔کسان کا قائد بھٹو ہے ،مزدور کا قائد بھٹو ہے ،غریبوں کا قائد بھٹو ہے کے نعروں سے ملک گونج اٹھا ۔اگر کوئی اپنی ذات کے لیے نمود و نمائش کے لیے نام و شہرت کے لیے ،عہدہ و مقام کے لیے جہدو جہد کرے تو وہ ایسا بن سکتا ہے لیکن عظیم انسان بننے کے لیے اپنی ذاتیات سے ہٹ کر قوم،عوام ،انسانوں کے لیے جہدو جہد کرنی پڑتی ہے ۔ذوالفقار علی بھٹو وہ پہلے سیاست دان ہیں جنہوں نے غریبوں کی بات کی ،غریبوں کے لیے سیاست کے دروازے کھولے ،عوام کی حکومت ،عوام کے ذریعے ،عوام کے لیے یعنی حقیقی جمہوریت کے لیے جہدو جہد کی ۔غریبوں کے لیے روٹی ،کپڑا ،مکان کا نعرہ لگایا ۔اس طرح پاکستان کی سیاست میں تبدیلی لے آئے قائد اعظم کے بعد عوام کے محبوب لیڈر بن گئے ۔پیپلز پارٹی کے عوامی منشور نے پاکستان کے ہر طبقہ فکر کو متاثر کیا اور لوگ جوک در جوک اس میں شامل ہونے لگے ۔ان کا سب سے بڑا کارنامہ عوام کو ان کے حقوق سے آگاہ کرنا ہے ،ووٹ کی طاقت کو تسلیم کیا جانے لگا ۔انہوں نے غریبوں کے لیے بہت سے منصوبہ جات شروع کیے۔
پھر جب 1977 میں انتخابات ہوئے تو بھی پاکستان پیپلز پارٹی نے بھاری اکثریت حاصل کی لیکن حزب اخلاف نے الیکشن قبول نہ کیے اور ملک گیر تحریک چلائی جس کے نتیجے میں جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کر لیا ۔ اور 5 جولائی 1977 کو ملک میں مارشل لگایا ۔دو ماہ بعد ذوالفقار علی بھٹو کو محمد احمد خان کے قتل کے مقدمہ میں گرفتار کر لیا گیا اور 18 مارچ 1977 کو انہیں قتل کے الزام میں موت کی سزا سنائی گئی اس طرح 4 اپریل 1979 کو قائد عوام جو کہ لاکھوں دلوں کی دھڑکن تھا ان کو پھانسی دے کر شہید کر دیا گیا ۔فیض احمد فیض نے بھٹو کی پھانسی کے بعد کہا۔دیا تھا صبح مسرت نے ایک چراغ ہمیں اسی کو تم نے سر شام کھو دیا لوگو۔ ایک سیاست دان نواب احمد رضا خان جو کہ پرویز مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری کے والد تھے انہیں لاہور میں 11نومبر کو قتل کر دیا گیا تھا ان کے قتل کا مقدمہ ایک منتخب وزیر اعظم پر ہوا اور اس کو اس ناکردہ قتل کی سزا میں پھانسی سنا دی گئی ۔پاکستان کی تاریخ کا اپنی نوعیت کایہ واحد کیس ہے ۔ اگر اس کیس کی لوجک کو سامنے رکھا جائے تو ملک میں ہر وزیر اعظم کو پھانسی ہونی چاہیے ۔شائد ایسی ہی کوئی بات تھی بھٹو کے دل میں جب انہوں نے ۔۔درداں دی ماری دلڑی علیل ہے ۔۔۔سرائیکی شاعری کے نغمے کا یہ ٹکڑا بھٹو نے سپریم کورٹ کے سامنے اپنی دفاعی تقریر میں کہا تھا ۔بھٹو صاحب کو 17 مئی 1978 کی صبح کوٹ لکھپت جیل لاہور سے راولپنڈی سینٹرل جیل میں لایا گیا ۔4 اپریل 1979کو ان کو پھانسی دی گئی اس دوران ان سے ملنے والوں کا ریکارڈ موجود ہے 342 ملاقاتیں ہوئیں جن میں جیل کے عملے کا ریکارڈ درج نہیں ہے اس دوران ان کی مختلف افراد سے ملاقاتیں ہوں اور آخری ملاقات محترمہ بے نظیر سے درج ہے ۔کہنا یہ ہے کہ ان کو اپنی بیٹی سے بے پناہ پیار تھا ۔بھٹو سے آخری ملاقات محترمہ بے نظیر بھٹو اور نصرت بھٹو کی 3 اپریل 1979 کو ہوئی اور دوسرے دن 4 اپریل 1979 کو قائد عوام کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی ۔ان کی تدفین لاڑکانہ گڑھی خدا بخش میں ہوئی۔
اس دن پاکستان کے بہت سے گھروں میں صف ماتم بچھ گئی ۔بھٹو کو شہید کر دیا گیا اور شہید زندہ ہوتے ہیں ،بھٹو عوام کے دلوں میں زندہ رہا اس کی عوام میں بے پناہ مقبولیت کی وجہ سے اس کی بیٹی بے نظیر دو مرتبہ ملک کی وزیر اعظم بنی اور ایک دفعہ ان کے داماد آصف علی زرداری بھی پانچ سال حکومت کر چکے ہیں ۔آج بھی بلاول ز رداری بھٹو اپنے نانا کی عوام کے دلوں میں جو بے پناہ عقیدہ ہے اس کے بل بوتے پر سیاست کے میدان میں اترا ہے اور وزیر اعظم بننا چاہتا ہے ۔لیکن یہ فیصلہ وقت کرے گا کہ بھٹو کو پھانسی سے قتل کیا گیا یا اس کے جانشین اس کے بنائے ہوئے منشور پر نہ چل سکے اور بھٹو کو انہوں نے مار دیا ۔چند دن پہلے ایک کتاب میرے مطالعہ سے گزری ۔جس کے آخری جملے پر میری نگاہ کافی دیر تک ٹکی رہی کتاب ختم ہو چکی تھی مگر جو کچھ اس کتا ب میں لکھا تھا وہ سب مناظر میرے سامنے گھوم رہے تھے ۔یہ کتاب بھٹو صاحب کا خط تھی جو انہوں نے اپنی پیاری بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کو لکھا تھا اس کا آخری جملہ میں نے کئی بار پڑھا وہ لکھتے ہیں۔ میں آنے والی نسل کے لیے ٹینی سن کا مایوس کن لیکن ایک طرح سے پیغمبرانہ پیغام چھوڑتا ہوں کہ۔ ارے پچاس سال کی عمر میں میں کیسا ہو جا ئو ں گا اگر قدرت نے مجھے زندہ رکھا جبکہ اس پچیس سال کی ہی عمر میں میں دنیا کو اس قدر تلخ پاتا ہوں۔
تحریر : اختر سردار چودھری