تحریر: محمود احمد خان لودھی
پاکستان ریلوے تاریخی اہمیت کا حامل ادارہ ہے۔ انگریز دور میں جبکہ آبادی موجودہ دور سے انتہائی کم تھی لاکھوں لوگوں کو چھوٹے بڑے اسٹیشنوں تک سفر کی بہترین سہولتیں میسر تھیں کسی نہ کسی طرح آخری فوجی حکومت تک یہ سلسلہ چلتا رہا مگر جمہوریت کی پاسبانی کے بلند وبانگ دعوے کرنے والی، لاکھوں پاکستانیوں کی حمایت رکھنے والی دو پارٹیوں کے دوسرے تیسرے ادوار میںدیگر سہولتوں کی طرح ریلوے کا بھی بیڑہ غرق ہوگیا ہے۔انتخابات سے قبل ترقی وخوشحالی اور اپنی تجربہ کاری کے بلند وبانگ آسمانی حدوں کو چھونے والے دعوے کرنے والوں نے دیگرشعبوں کی طرح ریل کا بھی عرق نچوڑ کررکھ دیا ہے۔
قومی اداروں کی زبوں حالی کے ذمہ دار تمام عناصر آج بھی اپوزیشن یا حکومت میں موجود ہیں مگر ہمارے ہاں اشرافیہ کے احتساب کارواج نہ ہونے کی وجہ سے یہ تمام کردار آج بھی قومی خدمت کا عزم لئے انتخابات کی تیاریوں یا دیہاڑیوں میں مصروف ہیں اور پاکستانیوں کی اکثریت آج بھی ان کی تقاریر ان کے دعووں اور وعدوں سے مرعوب دکھائی دیتی ہے حد یہ ہے کہ لیڈروں کی حمایت اور مخالفت میں عام الناس کہ جو اشرافیہ کی کسی بھی گنتی میں نہیں آتے ایک دوسرے کے ساتھ دست وگریباں، گالم گلوچ ہونے کیساتھ مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں اور انہی رویوں نے آج تک سیاستدانوں کو ، ملکی ترقی کے دعوے کرنے والوں اور اقتدار میں آکراداروں کو کنگلا کردینے والوں کوضمیر کی آواز نہیں سننے دی کہ یہ آواز بھی عوام الناس کے شورو غوغا میں دب کر رہ جاتی ہے اور پھر لیڈر ڈھٹائی کیساتھ نام نہاد ملکی ترقی کے اپنے مشن میں مصروف رہتے ہیں۔
وزیرآباد سے فیصل آباد کا روٹ انتہائی مصروف ترین، بڑے دیہی علاقوں پر مشتمل ہے اس روٹ پر ٹرین کے سفر کی سہولت سے لاکھوں عوام فائدہ اٹھا رہے تھے۔ برسوں سے محکمہ ریلوے منزلوں کی دوریاں مٹا کر انسانوں کو باہم قریب لانے میں انتہائی اہم ترین کرداراداکرتا چلا آرہا تھا دور نزدیک کے لوگوں نے ریلوے کی سفری سہولت کو دیکھ کرایک شہر سے دوسرے شہروں میں رشتہ داریاں بنائیں اپنے بال بچوں کی شادیاںکیں کہ انہیںکل کلاں اپنے بیٹے بیٹیوں کے گھروں تک آنے جانے میں سہولت ہو مگر لوٹ مار کو وتیرہ بنانے والوں نے اس ادارے اور ادارے کے وقار کیساتھ لوگوں کے جذبوں اور خوابوں کا بھی کچومر نکال دیا ہے۔بظاہر ہر وقت عوام الناس کے ساتھ ہمدردی کا ڈھنڈورہ پیٹنے والی موجودہ قیادت سے عوام کس حد تک مطمئن اور ان کی کارکردگی سے کس درجہ سکوں میں ہیں اس کا مظاہرہ گلی،محلوں اور پاکستانی سڑکوں پر پٹرول کی تلاش میں نکلنے والوں کو دیکھ کرہوجاتا ہے۔
ریلوے کی ترقی اور مسافروں کو دی جانے والی سہولتوں کا بھی یہی حال ہے وزیرآباد سے فیصل آباد کے روٹ پر چند سال قبل تک پانچ گاڑیاں چلتی تھیں جودن بھر رات شہریوں کو سفر ی سہولتیں فراہم کرکے سہولت/سکون کا باعث بن رہی تھیں۔ ان گاڑیوں میں سمہ سٹہ ایکسپریس، پاکستان ایکسپریس اور تین پسنجر ٹرینیں شامل تھیں۔ پاکستان ایکسپریس کے سوا باقی تمام ٹرینیں یہاں چلنا بند ہوگئی ہیں جبکہ یہ واحد ٹرین بھی مختلف اہم ترین علاقوں منصوروالی، گاجر گولہ، جامکے چٹھہ ، کالیکی، سکھیکی،مڑبلوچاں، سانگلہ ہل، دارالاحسان،سائیانوالہ، جیسے چھوٹے روٹس پر بریک نہیں لگاتی۔ اکلوتی نان سٹاپ پاکستان ایکسپریس کو پٹری پر دیکھ کر مقامی لوگوں کے دل خون کے آنسو روتے ہیں کہ جب بھی ان کیلئے بے سودیہ ٹرین پٹری پر ان کی آنکھوں کے سامنے سے گزرتی ہے
تو ان کے جذبات کوکچل کر جاتی ہے تبھی وہ اس وقت کو یاد کرنے لگتے ہیں جب کبھی ٹرینیں یہاںعام دستیاب ہوتی تھیں اور مقامی لوگوں کو اپنے عزیز واقارب تک آنے جانے کیلئے زیادہ پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا یہیتکالیف ملک کے دیگرعلاقوں کی عوا م کو درپیش ہیں ۔ریلوے سٹاپوں کے خاتمہ کا یہ نتیجہ بھی نکلا ہے کہ ریلوے اسٹیشنوں کی خوبصورت اور قیمتی عمارتیں بھوت بنگلوں میں تبدیل ہوتی جارہی ہیں اکا دکاجو ملازم چوکیدار ان اسٹیشنوں پر تعینات ہوتے ہیں وہ بھی مایوسیوں میں گھرے رہتے ہیں، ویرانیوں کے عالم دیکھ کر ، سنہری دنوں کو یاد کر کے اندر ہی اندر کڑھتے رہتے ہیں۔ مختلف علاقوں کے لوگوں سے ٹرینیں اور ان کے سٹاپس ختم کرنے بارے جب راقم نے استفسار کیا تو ہر کوئی ریلوے کی زبوںحالی اور حکمرانوں کی منہ زبانی ترقیوں پر پریشان دکھائی دیا۔ لوگوں نے یہاں تک اظہار کیا کہ سیاستدان اور بعض ریلوے دشمن مافیا کی صورت اختیار کرچکے ہیں
جو سڑکوں پردوڑنے والی ٹرانسپورٹ اور ان کے مالکان کو فائدہ پہنچانے کی خاطر قومی ادارے کی تباہی پر تلے ہوئے ہیں۔ واقعی دیکھا جائے تو ان سٹاپس کی بحالی سے پرائیویٹ ٹرانسپورٹ ہولڈرز ان روٹس پر من مانیاںکرتے ، مرضی کے کرایے وصول کر کے شہریوں کو دونوں دونوں ہاتھوں لوٹ رہے ہیں ایک اور بات جو غور طلب ہے وہ یہ ہے کہ ریلوے کے سٹاپس ختم ہونے کی وجہ سے چھوٹی سڑکوں پرٹریفک کا رش بڑھ گیا ہے آبادیوں میں اندھا دھند ڈرائیونگ کی وجہ سے آئے روزجان لیوا حادثات رونما ہوتے ہیں جن میں بوڑھے باپ اپنی جوان اولادوں، بچے والدین، بیویاں اپنے سہاگوں سے محروم ہوجاتی ہیں۔ ریلوے کے سفر کی بڑی بات یہ ہے کہ لوگ اسے محفوظ تصور کرتے ہیں اورعام ٹرانسپورٹ کو وہ اعتماد حاصل نہیں جو ریلوے کو ہے۔
دوسری جانب حکومت کی طرف سے کرایوں میں کمی کے منہ زور دعووں کی حقیقت بھی جان لیجئے کہ ریلوے مسافروں کو بڑی چھلانگ لگاتے ہوئے جو 3% کاریلیف دیا گیا وہ بھی وزیر آباد سے کراچی کا روٹ اختیار کرنے کی صورت میں گوجرانوالہ، لاہور، اوکاڑہ، ساہیوال، خانیوال تک سفر کرنے والے مسافروں پر لاگو نہیں ہوتا جبکہ ملتان یا کراچی تک کے سفر میں بھی جو ریلیف 3فیصد کے حساب سے ملتا ہے وہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہے عوامی اور جعفر ایکسپریس کے مسافر دیگر سہولتوں سے بھی محروم ہیں۔تاریخی ریلوے اسٹیشن وزیرآباد کی صورتحال بھی ذرا ملاحظہ ہومشرف دور حکومت کے وزیر ریلوے موصوف جو ان دنوںٹی وی چینلز کے چیمپئن بنے ہوتے ہیں نے وزیرآباد کا دورہ کیا تو پیرس طر زپر عمارت کی تعمیر کے وعدہ پر پرانی،خوبصورت عمارت کو مسمار کروادیا۔وزیر ریلوے شیخ رشید صاحب نے بڑھک ماری تھی پیرس کی اور اسے پاکستان کا ریلوے اسٹیشن بھی نہیں رہنے دیا۔
عمارت مناسب توجہ اور فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے روزبروز خستہ حالی کی جانب گامزن ہے مین عمارت جہاں ریلوے کی اسٹیشنری اورافسران اور ملازمین موجود ہوتے ہیں وہ معمولی بارش کے بعد ٹپکنا شروع ہوجاتی ہے اﷲ نہ کرے اﷲ نہ کرے کسی روز یہ عمارت زمانے کی ستم ظریفی اور اپنے وجود کا بوجھ نہ برداشت کرپانے پر نیچے آگری تو سوچیں کیا ہوگا۔۔۔ ذرا اپنے ذہنوں میں وہ خاکہ ترتیب دیں۔۔۔ملبے تلے کسی کا باپ تو کسی کا بھائی تو کسی کا بیٹا دبا ہوگا اور پھر وزیر اعظم اور دیگر افسران کی طرف سے افسوس کے بیانات بروقت ٹی وی چینلز پر نشر ہونے کے علاوہ وقت کے وزیر ریلوے مگر مچھی آنسوئوں کیساتھ ٹسوے بہاتے آن وارد ہوں گے قیمتی جانوں پر دلی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ورثاء کے لواحقین میں سے کسی ایک فرد کو ملازمت اور چند لاکھ روپے کا چیک دینے کا وعدہ کر کے ایک ایسی انکوائری کمیٹی تشکیل دیں گے جس کی رپورٹ تاحیات سامنے نہیں آئے گی نا ہی چیک کیش ہوگااور بس !!!پھرسے وہی، چل سوچل۔۔۔ ایسے حالات میں موجودہ حکمرانوںکو اپناطریقہ کار بدلتے ہوئے حقیقت میںعوامی ریلیف کے عملی اقدامات اٹھانا ہوں گے۔شہریوں کی ضروروتوں اور مطالبات کو مدنظررکھنا ہوگا ریلوے کی ترقی میںملک کی ترقی ہے۔اﷲ تعالیٰ ہمارے ملک کے حالات بہتر کرے۔آمین!
تحریر: محمود احمد خان لودھی
0334-4499404