انٹرویو: کامران غنی
کامران: آپ کا آبائی وطن کہاں ہے، ابتدائی تعلیم کہاں سے حاصل کی؟
ذوقی: بہار کا ایک چھوٹا سا شہر آرہ…کبھی شاہ آباد کے نام سے مشہور تھا…میں نے اسی شہر میں آنکھیں کھولیں۔ ابتدائی تعلیم بھی یہیں سے حاصل کی۔٤سال کا تھا تو شاہ آباد اردو اسکول بھیج دیاگیا۔ یہ میرے گھر سے کچھ ہی دوری پر واقع تھا۔ اور میرے ایک رشتہ دار چودھری قمرعالم(قمرچچا) اس اسکول کو چلایاکرتے تھے۔ یہاں سے بنیادی تعلیم حاصل کرنے کے بعد میں نے جین اسکول میں داخلہ لیا۔ پھرمہا راجہ کالج…دلی میں اتنے برس گزارنے کے بعد بھی، جب ناول کی تخلیق کررہاہوتا ہوں…میراشہر میری نگاہوں کے سامنے ہوتا ہے…اور وہاں کے لوگ میرے کہانیوں کے کردار میں ڈھل جاتے ہیں۔
کامران: فی الحال آپ کی مشغولیات کیاہیں؟
ذوقی: ادب کے علاوہ میڈیا سے میری وابستگی ہے۔ ذوقی فلمز کے بینر تلے بہت سی ڈکیومینٹری فلمز اورسیریل بھی بنائے۔ میری کہانیوں کے پہلے مجموعے بھوکا ایتھوپیا پر مذہب نہیں سکھاتا ، کے نام سے سیریل بنا۔ ناول مسلمان کو ‘ملت ‘ کے نام سے سیرئیل میں ڈھالا گیا۔ کئی کہانیوں پر ٹیلی فلمیں بنیں۔افسانوی مجموعے لینڈ اسکیپ کے گھوڑے اور صدی کو الوداع کہتے ہوئے پرگل صد رنگ کے نام سے دوردرشن کے اردوچینل کے لئے سیرئیل بنایاگیا۔ میں نے گانے بھی لکھے ـ اسکرین پلے بھیـ اپنے کئی سیرئیل میں ڈائرکشن بھی دیا۔
کامران: ذوقی صاحب آپ نے کب سے لکھناشروع کیا؟ آپ کا پہلا افسا نہ اورناول کون سا ہے؟
ذوقی: کامران صاحب، آپ نے مجھے ماضی کی وادیوں میں پہنچادیا۔ ایک گھر تھا جو کوٹھی کہلاتاتھا۔ گھر سے باہر جانے پر پابندی تھی۔ بچپن میں ہی کتابوں سے دوستی ہوگئی۔ چھٹے کلاس میں تھا کہ بچوں کے رسالہ پیام تعلیم میں پہلی کہانی شائع ہوئیـ پہلا افسا نہ تیرہ برس کی عمر میں کہکشاں (ممبئی) میں شائع ہوا۔ میراپہلا ناول عقاب کی آنکھیں ہے، جو میں نے ١٧ سال کی عمر میں لکھاـ ٢٠١٤میں اس ناول کا نیاایڈیشن منظرعام پر آچکاہے۔ ادب میری زندگی ہے ، کمنٹمنٹ ہے، اوڑھنابچھوناہے ……عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاہی میں….
کامران: خوب….اب تک آپ کے کتنے ناول اورافسانوی مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔
ذوقی۔ ناول کی بات کروں تو عقاب کی آنکھیں، نیلام گھر، شہرچپ ہے، ذبح، مسلمان ،بیان ،پوکے مان کی دنیا، پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایاسونامی، لے سانس بھی آہستہ اورآتش رفتہ کا سراغ شائع ہوچکے ہیں، ناول اردو، اور’اڑنے دوذرا’ مکمل کر چکا ہوں۔
ایک ناول ‘نالۂ شب گیر’ اپریل ٢٠١٤ میں شائع ہوجائے گا۔ افسانوی مجموعوں میں بھوکا ایتھوپیا،منڈی، غلام بخش، صدی کو الوداع کہتے ہوئے، لینڈ اسکیپ کے گھوڑے، ایک انجانے خوف کی ریہرسل اورنفرت کے دنوں میں شائع ہوچکے ہیں۔ ہندی زبان میں بھی ١٨مجموعے مل جائیں گے۔ ان میں سے زیادہ تر بڑے پبلشنگ ہاؤس سے شائع ہوئے ہیں۔ جیسے پینگوئن، گیان پیٹھ، راج کمل، وانی وغیرہـ میری تمام کتابیں دونوں زبانوں میں شائع ہوئی ہیں۔
کامران: اچھایہ بتایئے، اپنی تخلیقات میں کون ساایساناول یاافسانہ ہے جو آپ کو سب سے زیادہ پسند ہے؟
ذوقی: ناول کی بات کریں تو پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایاسونا می اورلے سانس بھی آہستہ ،مجھے بہت پسند ہےـ تعجب کی بات یہ ہے کہ جو ناول مجھے سب سے زیادہ پسند تھا اسی پر گفتگو سب سے کم ہوئی۔ پروفیسر ایس کو میں اپنا شاہکار سمجھتاہوںـاس ناول کولکھنا کوئی آسان کا م نہیں تھاـاس ناول پر کالج کے زمانے سے سوچتاآیاتھا۔ اورجب ٢٠٠٢میں سونامی آئی تو مجھے احساس ہوا، اب اس ناول کو مکمل کرنے کا وقت آگیاہے۔اس ناول میں کچھ زندہ کرداروں سے مددلی گئی ہے، شاید یہی وجہ تھی کہ اس ناول کو ایک بڑے طبقے نے نظرانداز کیا۔ لیکن میں اپنے قارئین سے کہناچاہوں گا کہ وہ اس ناول کا مطالعہ ضرور کریں۔
کامران:ذوقی صاحب…ایک عام سا سوال، آپ کیوں لکھتے ہیں؟
جواب: لکھنا میرے لیے محض شوق نہیں ایک بڑی ذمہ داری کانام ہےـادیب اپنے عہد سے وابستہ ہوتاہے۔ اورعہد میں درآئی تبدیلیوں کو اپنے طورپر دیکھتااورمحسوس کرتاہے۔ پھر وہ اپنے ہی خلق کیے گئے فلسفوں کی آگ سے گزرتاہےـ سماج ،معاشرہ ، سیاست، مذہب کے دورازے اس کے لیے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ وہ اپنے تخلیقی عمل میں ان سب سے گزرتاہے۔ اورجب اس کو احساس ہوتاہے کہ وہ ان مراحل سے گزرکر اب زندگی کو کوئی نیافلسفہ دے سکتاہے تو وہ پھر لکھنے بیٹھ جاتاہے۔ـلکھنا آغاز سے ہی میرے لیے محض شوق کبھی نہیں رہا۔ اوراسی لیے میں نے سرکاری نوکری کی جگہ فری لانسنگ کو ترجیح دی۔ ایسانہیںہوتا تو شاید میں وہ سب نہیں لکھ سکتاتھا، جو میں نے لکھایا اب لکھناچاہتاہوں۔ آپ پوچھ سکتے ہیں وہ نیافلسفہ کیاہے؟ ایک زندگی تو سب جیتے ہیں پھر فلسفہ کہاں سے آگیا؟ لیکن نہیں صاحب۔ زندگی کو ہربار اپنے طریقے سے ڈسکورکرناہوتا ہے،سمجھناہوتاہے،ـسماج ، معاشرہ ،سیاست سے مذہب اورسائنس سے ارتقاتک، ایک بڑی دنیا کے تعاقب کے بعد کسی نتیجہ پر پہنچنا ہے پھرشعور کی تیسری آنکھ کھلتی ہے۔ یہاں بہت سے سوال وجواب لکھنے سے قبل حاوی ہوتے ہیںـ اورجب تخلیق کار ممکن ہوجاتاہے کہ اس ناول یاافسانہ میں زندگی کا ایک نیاپہلو نکل کر سامنے آئے گا تو انہی تخلیقی محرکات کے ساتھ وہ لکھنے بیٹھ جاتاہے اوراسی لیے آغاز سے اب تک کے سفرمیں، میںنے کبھی اپنے آپ کو Repeatنہیں کیا۔ ہمہ جہت زندگی سے ہربار ایک نئی روشنی لے کر ، میں نئی کہانیوں کی دنیاآباد کرلیتاہوں۔ جیسے میرا نیاناول ہے۔ نالۂ شب گیر ۔ آپ کو یہاں ایک نئی عورت کا تصور ملے گا۔ عورت اقبال کے تصور ‘وجودزن سے ہے تصور کائنات میں رنگ’سے کافی آگے نکل گئی ہے۔ دراصل مردوں نے اب تک اسے نمائش یاچٹخارے کے طورپرپیش کیاہے۔ اب وہ اکھاڑے میں بھی ہے، سیاست میں بھی، وہ کہیں مردوں سے کم ترنہیںـبلکہ کئی مقام ایسے ہیں جہاں مرد احساس کمتری میں ہے اورعورت اس سے آگے نکل گئی ہےـ صدیوں کے جبرسے نکل کر عورت جب یہ کہتی ہے کہ یہ کمرہ میرا، یہ لیپ ٹاپ میرا اوریہ بدن میرا، میں جو چاہے کروں تومرد تہذیب، مذہب اورمعاشرے کی دہائی دیتاہوا اس پر الزامات لگانے لگ جاتاہے۔ـ مسلمان عورت کی بات کریں تو وہ اب تک جنت کی کنجی، دوزخ کا کھٹکا اوربہشتی زیورکی المیرامیں بندکردی گئی تھی ـنالۂ شب گیر کی عورت ایک ایسی عورت ہے جو بیوی، اہلیہ، شریک حیات، جیسے لفظوں کو سننا بھی گوارہ نہیں کرتی۔ اسے چوڑیاں پائل، ناز کی، تصویرکائنات جیسے لفظوں اورتشبیہوں سے نفرت ہے۔ وہ اپنے شوہر کو بیوی بلاتی ہے۔اوراس سے کہتی ہے تم گھرکا کام دیکھو۔ میں کافی ہوں باہر کے کام کے لیےـ تم گھر سنبھالو اورعیش کرو۔ لیکن وہ کوئی نفسیاتی مریضہ نہیں ہے۔ اگروہ صدیوں کے سفرمیں عورت کو داسی، طوائف جیسے ناموں میں سمٹی ہوئی دیکھنے کے بعد اگر آزاد ہونا چاہتی ہے تویہ بغاوت اس کے وجود میں آئے گی ہی ـسوسال پہلے رقیہ سخاوت حسین نے جب سلطانہ کا خواب لکھا تو ان کے سامنے یہ عورت خواب کے طورپرموجود تھی ۔ اب سوسال بعد حقیقت کے طورپر ـاس لیے عورت جب بغاوت کرتی ہے تو پہلی بغاوت خدا سے اوردوسری مردوں سے کرتی ہےـ دراصل لکھتے ہوئے میں جب تک تمام پہلوؤں پر غورنہ کرلوں، میں لکھنے نہیں بیٹھتا۔ ادب ڈرائنگ روم کی چیز نہیں ڈرائنگ روم سے نکل کر زمینی حقیقتوں کو سمجھناہوتاہےـ اورایک بڑی دنیاکا تعاقب کرنا ہوتا ہےـ
کامران: کیا ایسا ناول لکھنا جس میں بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر جیسے حساس واقعہ کا ذکرہو، حقیقی واقعات کو فکشن میں ڈھالاگیا ہو، تخلیقی نقطۂ نظر سے خطرناک نہیں تھا؟
ذوقی: آپ آتش رفتہ کا سراغ، کا ذکرکررہے ہیںـ ادب خطرے اٹھانے کا نام ہے۔ مشکل یہ ہے کہ عام ادیب جو سرکاری نوکرہے، ڈر ڈرکے لکھتاہےـ میںنے کبھی خوف اورخطرے کو زندگی میںراستہ نہیں دیا۔ حقیقی واقعات کو فکشن میں ڈھالتے ہوئے سب سے بڑی مشکل یہ ہوتی ہے کہ اسے صحافت یا رپو ٹنگ کا درجہ نہ دے دیاجائے۔ اس لیے حقیقی واقعات کو ادب بناتے ہوئے پھونک پھونک کر قدم اٹھاناہوتاہے۔ آتش رفتہ کا سراغ، کا کینواس بہت بڑاہے۔ ‘اردو’ اس کا دوسراحصہ ہے۔ جو مکمل ہے۔ میںجب اس ناول کو لکھ رہاتھا، ٦٧برسوں کا ہندوستان سامنے تھا۔ ہندوستان کی سیاست سامنے تھی۔ اورمیں یہ بھی دیکھ رہاتھا کہ ٢٥کروڑ آبادی ہونے کے باوجود مسلمان سہما ہو ا اقلیت کی طرح رہنے پر مجبور ہے ـ سیاسی پارٹیوں نے اسے محض ووٹ بینک بنادیاہے۔ ان ٦٧برسوں میں مسلمانوں کا صرف استعمال اوراستحصال کیاگیاہے۔اس لیے ایسے ناول کو تخلیق کرنے میں خطرہ تو تھا ہی ـ لیکن مجھے خوشی ہے کہ میں نے گہرائی سے ایک ایک پہلوکو سامنے رکھتے ہوئے لکھا ـ اورجنہوں نے بھی اس ناول کا مطالعہ کیا، انہوں نے یہ بات ضرور کہی کہ آپ نے یہ لکھاکیسے؟ تو صاحب، ادیب ہوں۔ خطرہ ا ٹھانا پڑتاہے۔ ادب میں ڈرگئے تو پھر آپ کیسے لکھ سکیں گے۔
کامران: شکریہ ذوقی صاحب۔ میرا اگلا سوال دراصل اسی سوال کی ایک کڑی ہے۔ بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کے علاوہ بھی کئی ایسے واقعات یا انکاؤنٹر س ہوئے جس نے ہندوستان کی اقلیتی آبادی کومتأثر کیاـپھر آپ نے اسی واقعہ کو اپنے ناول کے لیے منتخب کیوں کیا؟
ذوقی: بٹلہ ہاؤس ‘ ناول کی صرف ایک کڑی ہےـ آپ غور کریں تو ٦٧ برسوں کا ہروہ واقعہ شامل ہے جس نے مسلمانوں کو اس ملک میں نہ صرف پریشان کیا بلکہ تیسرے درجے کا شہری بننے پر مجبور کیا۔ بٹلہ ہاؤس کا معاملہ کچھ یوں تھا کہ مجھے سروانٹس کے ناول ڈان کوئزوٹ کی یاد آگئی۔پولس محکمہ، ایجنسیاں ، میڈیا ایسی ایسی منطق لارہاتھا کہ ہنسی آرہی تھی ـ ناول کی تخلیق کے دوران میں باربار انکاؤنٹر والی جگہ پرگیا۔ اس ایک حادثے میں ٦٧برسوں کے مسلمانوں کا مکمل درد چھپاتھا کہ خونی سیاست کس طرح ایک جھوٹے واقعہ کو سچ بناتی ہے اورسیاست کس طرح مسلمانوں کو دہشت گرد بنارہی ہےـ مجھے احسا س ہواکہ ٦٧ برسوں کے درد کو اس حادثہ کے تناظر میں آسانی سے ناول کی شکل میں پیش کیا جا سکتا ہے اور اب ناول آپ کے سامنے ہے۔
کامران: کیا اس ناول کی تخلیق میں آپ نے متأثرہ افراد سے رابطہ کیا؟
ذوقی: رابطہ بھی کیا، مگراس بات کو جانیے کہ میں اس حادثہ پر ایک ادبی ناول لکھنے جارہاتھا۔روسی ناول نگار وں نے بھی اپنے عہد اورحقیقی واقعات سے فائدہ اٹھایاہےـ گو گول کی ڈیڈ سول کو ہی لے لیجئے۔ میں ناول کی تخلیق کے درمیان کئی بار اس علاقے میں گیا اوروہاں کے لوگوں سے رابطہ کیا۔
سوال: آپ کے یہاں جدید عہد کے ایسے مسائل پربھی توجہ دی گئی ہے جو دوسرے تخلیق کاروں کے یہاں نہیں ملتے۔ مثلا ٹکنالوجی کا غلط استعمال، بچوں پر ٹکنالوجی کے منفی اثرات، ہندوستانی مسلمانوں کی مٹتی ہوئی تہذیب وغیرہ۔ آخر کیاوجہ ہے کہ ان مسائل کی جانب دوسرے تخلیق کار توجہ نہیں دے رہے ہیں یا کم دے رہے ہیں؟
ذوقی (قہقہہ) : یہ تو دوسرے تخلیق کاروں سے پوچھیے۔کلاسیکی ادب کے نام پر آسمان یاچاند تاروں اورغالب داغ کی کہانیاں لکھنا بہت آسان کام ہے کامران صاحب۔ نئی دنیاکی تخلیقی اور نئی دنیا کی ڈسکوری کے بعد زندگی کے نئے مفہوم تلاش کرناخون کی الٹیاں کرنے جیساہےـ ہمارا ادیب ان چکروں میں کہاں پڑنے والاـ اسے ڈرائنگ روم چاہئےـ نیاسماج، نیامعاشرہ، نیاسینیریو اس کے سامنے کہاں ہےـنئی دنیا بھی اس کے سامنے نہیں ہےـ دراصل ہمارے زیادہ ترادیب ادب کو داغ کے عہد میں لے جارہے ہیںـ میں کہتاہوں ، صاحب ذراسانئی دنیا کی سیر بھی کر لیجئےـ
کامران: ہم عصر فکشن رائٹر میں آپ کس سے متأثر ہیںـ
ذوقی : خالد طور،مستنصرحسین تارڑ، رضیہ فصیح احمد، اشرف شاد، مرزا اطہر بیگ۔ مصطفی کریم نے بھی کئی اچھے ناول دیئے ہیںـ
کامران: آپ ایک صحافی بھی ہیں۔ صحافی اورادیب کے فرق کی مختصر الفاظ میں وضاحت کیجئے۔
ذوقی: ادب کا تعلق سیاست اورسماج سے بہت گہرا ہے ـصحافت صرف رپورٹنگ تک محدود ہے۔ ادب نظریہ کانام ہے۔ ادیب واقعہ یاحادثہ کو تراش کرادب بناتا ہے ـ اورایک وسیع منظرنامہ میں اسے پیش کردیتاہے۔
کامران: آج کی بھاگتی دوڑتی زندگی میں ناول پڑھنے والوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔ آپ کس حد تک اتفاق کرتے ہیں؟
ذوقی: بالکل اتفاق نہیں کرتا۔ مجھے معاف کیجئے گا۔ قارئین کچرا ادب، پسند نہیں کرتےـ میں کہہ سکتاہوں، مجھے ہرروزکئی کئی فون ہندوستان اورباہرسے موصول ہوتے ہیں ـاورکہاجاتاہے کہ میں نے آپ کا فلاںناول پڑھاـ آپ کو تعجب ہوگا، مجھے بھی ہواکہ ان میں بھاری تعداد مولویوں کی اورمدرسوں کے طالب علم کی بھی ہےـ میراناول لے سانس بھی آہستہ اور آتش رفتہ کے سراغ کے کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ قاری تو موجودہے مگر سوال ہے کہ آپ قاری کو دے کیا رہے ہیں ؟ صاحب آج کا عام قاری بھی انڈیا ٹوڈے ، دی ہندو اوراسٹیٹس مین پڑھتاہے۔ آپ کچھ بھی لکھ کر اس کو بے وقوف نہیں بنا سکتے۔
کامران: اردو زبان ترقی کررہی ہے یازوال آمادہ ہے ؟
ذوقی: ابھی کہنا مشکل ہے۔ سوال یہ ہے کہ زبان زندہ کیسے رہتی ہےـ صرف ادب سے کسی زبان کو زندگی نہیں دی جاسکتیـ ہمارے یہاں ادب بھی کمزورلکھا جارہاہے اوراردو کا رشتہ روزی روٹی سے بھی منقطع ہے۔
کامران : آپ کی تحریریں اردو نیٹ جاپان پر بھی شائع ہوتی رہی ہیں۔ اردو نیٹ جاپان کے تعلق سے کچھ کہنا چاہیں گے؟
ذوقی: جاپان ایک ترقی یافتہ ملک ہے۔خوشی کا مقام ہے کہ جاپان جیسے ملک سے اردو زبان میں آن لائن اخبار شائع ہو رہا ہے۔ اردو نیٹ جاپان کی پوری ٹیم قابل مبارکباد ہے۔ اردو کے تعلق سے چھوٹی بڑی خبریں جاپان کے توسط سے ساری دنیا میں پڑھیں جا رہی ہیں، اس سے زیادہ خوشی کی بات اور کیا ہوگی۔کیا ہی اچھا ہو کہ آپ لوگ اردو ادب کے تراجم جاپانی زبان میں بھی پیش کریں۔
کامران: نئی نسل کو کوئی پیغام؟
ذوقی (قہقہہ): نئی نسل کو پیغام۔ نہیں صاحب۔ نئی نسل کو اب پیغام کی ضرورت نہیں ۔ نئی نسل سے ہمیں بہت کچھ سیکھنا ہے۔ نئی نسل بہت طاقتور ہے۔ اس کے پاس اپنا نظریہ ہے اورسب سے اہم بات نئی نسل زندگی کو اپنی شرطوں پر جینے پر یقین رکھتی ہے ـآپ کوئی پیغام دیں گے تووہ ہنسیں گے ـکیونکہ آپ کی دنیا ایک پرانی دنیاہوچکی ہے اورہمارے زیادہ تر لوگ نئی دنیا سے واقف بھی نہیں۔
انٹرویو: کامران غنی
رابطہ: مشرف عالم ذوقی : 9310532452
کامران غنی: 9312219509