تحریر: محمد شہزاد اسلم راجہ
صاحبو چونکہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور ظاہر ہے کہ اسلامی ملک میں حکومت بھی اسلامی ہو گی۔ اسلامی حکومت میں حاکم ایک بادشاہ نہیں بلکہ عوام کا ایک خادم ہوتا ہے۔ رعایا کی خبر گیری، بلا تفریق انصاف کی فراہمی، مظلوم کی فوری داد رسی اور عوام کی تمام ضروریات کا خیال رکھنا اس کا فرض ہوتا ہے۔ رعایا کی خبر گیری کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت ملک کے تمام لوگوں کی ضروریات کا خیال رکھے، ان کو پورا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھے اور اگر لوگوں کو کوئی تکلیف یا شکایت ہو تو اس دور کرنے کی کوشش کرے ۔یہ نا ہو کہ عوام کو روٹی کی ضرورت ہو تو وہ روٹی کی جگہ عوام کو تفریح کر کے پیٹ بھرنے کے مواقع فراہم کئے جائیں ۔ عوام پر یا خود اپنی ذات پر کوئی تکلیف آجائے تو شیر کی طرح اس تکلیف یا مصیبت کا سامنا کرے نہ کہ گیدڑ کی طرح دُم دبا کر اپنوں سے دور جا کر کسی غیر سے مدد مانگے۔
خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق کے دورِ خلافت میں جب کسی شخص کو حاکممقرر کیا جاتا تو اس سے یہ عہد لیتے ”وہ ترکی گھوڑے پر سوار نہیں ہو گا ، باریک کپڑے نہیں پہنے گا ، چھنا ہوا آٹا نہیں کھائے گا ، اپنے دروازے پر دربان یا چوکیدار نہیں رکھے گا ، کسی کام یا ضرورت والے لوگوں کے لئے ہمیشہ دروازہ کھلا رکھے گا” یہ سب باتیں عہدے پر مقرر کئے جانے کے حکم نامہ میں لکھی جاتیں اور عام لوگوں کے مجمع کے سامنے سنایا بھی جاتا۔ہر عہدے دار کے مال و اسباب کی فہرست تیا کی جاتی ، اگر کبھی کسی عہدے دار کے مال و اسباب میں زیادہ ترقی ہو جاتی تو حضرت عمر فاروق اس سے جواب طلب کرتے کہ یہ ترقی کیسے ہوئی۔اگر خلفاء راشدین کے دورِ حکومت پر نظر ڈالین جن کے نظام حکومت اسلامی ممالک اور اسلامی حکومت کے حاکم کے لئے قابلِ تقلید ادوار ہیں تو ان میں کہیں بھی حضرت ابو بکر صدیق ، حضرت عمر فاروق ، حضرت عثمان غنی اور حضرت علی کر م اللہ وجہہ کو جو کسی علاج و معالجہ کی ضرورت پیش آئی تو عوام الناس میں موجود طبیب سے ہی علاج و معالجہ کی خدمات حاصل کیں۔
یہاں مجھے جرمنی کے ایک ہسپتال میں میں داخل بوڑھے شخص کی بات یاد آئی جو کچھ دن پہلے میری نظروں سے گزری بات کچھ یوں ہے کہ اس بوڑھے شخص نے اپنے ساتھ والے کمرے میں غیر معمولی آمدو رفت ، سیکورٹی کے لوگوں کی بہتات اور عملے کا اہتمام دیکھا تو اپنے ساتھ موجود ورثاء سے سبب پوچھا ۔ بوڑھے کے ورثاء نے بتایا کہ اُس کمرے میں مصر کے صدر حسنی مبارک کو علاج کے لئے ٹھہرایا گیا ہے ۔ بوڑھے نے پوچھا یہ حسنی مبارک کتنے عرصے سے مصر پر صدارت کر رہا ہے ؟ بوڑھے کو بتایا گیا کہ اس صدر رہتے ہوئے پچیس سال ہوگئے ہیں۔
بوڑھے نے کہا۔ یہ ایک مفسد اور گندا شخص ہے۔ اُس کے ورثاء نے پوچھا آپ کیسے جانتے ہیں کہ یہ ایک مفسد اور گندا شخص ہے ؟ بوڑھے نے کہا جو شخص اپنے پچیس سالہ دورِ حکومت میں اپنے ملک میں ایک ایسا ہسپتال نہیں بنوا سکا جس میں وہ خود اپنا علاج اعتماد کے ساتھ کراسکے اس شخص کا اپنے ملک اور عوام کے ساتھ خلوص مشکوک اور اس کے انتظامی ، اصلاحی و تعمیری کاموں میں کھوٹ ہے۔
اب ہمارے حکمرانوں کو ہی دیکھ لیجیئے ۔ سابقہ دور کی حکومتیں اگر پاکستان میں ایک بھی معیاری ہسپتال نہ بنا سکے جس میں ہمارے ملک کے حکمرانوں کا علاج ہو سکے تو جو پارٹی اس وقت اقتدار میں ہے وہ تین بار وفاقی اور چھ دفعہ صوبائی حکومت کا مزہ چکھ چکی اہے اس علاوہ پچھلے انتالیس سال کسی نہ کسی طرح حکومت میں بھی رہی جس کے نتیجہ میں موٹر وے بنا لی، میٹرو بنا ڈالی، اورنج لائن ٹرین چلنے والی ہے لیکن ایک اچھا ہسپتال نہ بنا سکے ۔یا پھر جیسے ہمارے حکمران عوام کو مغربی طرز کے روڈ ، پل ، انڈر پاسسز اور سفری سہولت دینے کے خواہش مند ہیں تو کیا وہ ویسے مغربی ہسپتال اپنے ملک میں نہیں بنانے کے خوہش مندجیسے ہسپتالوں میں وہ خود اپنا علاج کرانے کے خواہش مند ہیں۔
بقول انور مسعود
حکام کو نہ کرنا پڑے دور کا سفر
ایسا کچھ انتظام ہو،ایسی سبیل ہو
میری یہی دعا ہے کہ انور مرا وطن
طبی معائنے کے لئے خود کفیل ہو
صاحبو! آج کل ہمارے ملک کی سیاست پر لیکس کا غلبہ ہے اور اس لیکس کے بارے گزشتہ روز خادمِ اعلیٰ صاحب ایک نجی ٹی وی چینل پر گفتگو فرما رہے تھے کہ اس میں وزیر اعظم صاحب کے نام کی بجائے وزیر ِاعظم کے صاحبزادوں حسین نواز اور حسن نواز کا نام ہے اور سونے پر سہاگہ یہ کہ دو حضرات حسین نواز اور حسن نواز دونوں اس ملک کے رہنے والے نہیں اس لئے ان پر پاکستان کے ٹیکس لاگو نہیں ہوتے اس لئے ان سے ان ٹیکسوں کے بارے ہم نہیں پوچھ سکتے تاہم وہ وقت کے حکمران کے صاحبزادے ہیںاور خود مختار ہیں اس لئے ان کے پاس جو دولت ہے اگر وہ غلط ذرائع منی لانڈرگ یا آف شور کمپنیوں سے حاصل کی ہیں تو ان کا مواخذہ ضرور ہو گا اور ان کو انکوئری کمیشن کے سامنے آنا ہو گا۔
اگر سچ میں ایسا ہو گا تو ہمارے ملک کی ترقی کی پہلی راہ ہموار ہو جائے گی ، کرپشن کے دروازے بند ہوجائیں گے اور آئندہ آنے والوں کو بھی سبق ملے گا ۔ حضرت عمر فاروق ایک دفعہ بازار سے گزر رہے تھے کہ ایک موٹے تازے اونٹ پر ان کی نظر پڑی جسے بیچنے کے لئے بازار لایا گیا تھا ۔لوگوں سے پوچھا یہ اونٹ کس کا ہے ؟ انہوں نے بتایا کہ آپ کے بیٹے عبداللہ کا ہے۔ حضرت عمر نیب اپنے بیٹے حضرت عبد اللہ کو بلایا اور دریافت کیا کہ یہ اونٹ کیسا ہے؟انہوں نے عرض کیا۔ اباجان! کچھ عرصہ پہلے میں نے یہ اونٹ اپنی گرہ سے خریدا تھا ۔ پھر میں نے اسے سرکاری چراہ گاہ میں بھیج دیا۔اب یہ خوب موٹا تازہ ہو گیا ہے اس لئے میں چاہتا ہوں کہ اسے بیچ دوں۔
امید ہے کہ اچھی قیمت پر بک جائے گا جس سے مجھے نفع ہو گا۔ امیر المومنین نے کہا ۔ یہ اونٹ سرکاری چراگاہ میں چر کر موٹا تازہ ہوا ہے اس لئے اس کو بیچ کر جو رقم تم کو ملے اس سے تم اتنی ہی رقم کے حقدار ہو جس سے تم نے اسے خریدا تھا باقی رقم تم کو بیت المال میں جمع کروانی ہو گی ۔چنانچہ حضرت عبد اللہنیوہ اونٹ بیچا تو تو حضرت عمر نے اس کی اصل قیمت حضرت عبد اللہ کے پاس رہنے دی اور باقی رقم ان سے لے کر بیت المال میں جمع کرا دی۔
تحریر: محمد شہزاد اسلم راجہ