تحریر : ایم سرور صدیقی
پانامہ لیکس نے ایسا کھڑاک کردیا کہ ہر سیاستدان نے ہاتھ دھو کر اس بارے میں اظہار ِ خیال کرنا اپنافرض سمجھ لیاہے کچھ جامے میں رہ کر اور جامے سے باہر ہوکر الزامات پہ الزامات لگائے چلے جارہے ہیں واقعی پانامہ لیکس نے حکمرانوں کا کچا چٹھہ کھول کررکھ دیاہے شاید شیرکی دم پر پائوں آنا اسی کو کہتے ہیں جس اندازسے مخالفین کی شریف فیملی پر الفاظ و دشنام کی گولہ باری جاری ہے یہ احساس شدید ہوتاجارہاہے کہ حکمران واقعی مشکل میں ہیں لیکن شیدے میدے کا خیال ذرا وکھڑی ٹائپ کا ہے کل جب شید ا میدے کو ملنے گیا اس کی سانس پھولی ہوئی تھی اس کی ناگفتہ بہ حالت دیکھ کر میدا بڑا پریشان ہوا پانی کا گلاس پیش کرتے ہوئے اس نے کہا تھا شیدے! خیریت ہے کوئی کالا کتا تو پیچھے نہیں پڑگیا جو سانس دھونی کی موافق چل رہی ہے
”نہیں یار! ہے تو خیریت ہی۔۔مگرمیری پریشانی کا تعلق قومی سلامتی سے ہے اسی لئے میں متفکرہوں
”قومی سلامتی اور تو۔۔۔ میدا ہنسا تو ہنستا ہی چلا گیا لگتا تھا اس پر ہنسی کا دورہ پڑ گیا ہو
”کیوں کسی بے وقوف کی مانند ہنستے چلے جارہو شیدا گرمی کھاکر بولا جاہل کہیں گے۔۔۔ ایک بات بتا دوں جتنی فکر ہم جسے
جاہل مطلق اور غریب آدمی کو پاکستان کی ہے حکمران طبقہ کو ہو ہی نہیں سکتی
”یار ۔۔ آج تو تو باتیں دانشوروں جیسی کررہاہے شیدے نے بڑی سنجیدگی سے کہا یار مجھے بھی اپنے وطن کی بڑی فکر لاحق ہے
کبھی کبھار تو سوچتے سوچتے آنکھوں سے نیند اڑ جاتی ہے
”اب یہی دیکھ لو ۔۔۔میدے نے اپنے گول گول دیدے گھماکر کہا پانامہ لیکس کے سنسنی خیز انکشافات نے پاکستان میں ایک
کہرام مچارکھاہے درباریوںکی پوری فوج قطار اندرقطار وضاحتیں اور صفائیاں دے رہی ہے بلکہ وہ ایک دوسرے پر سبقت لے
جانے کی کوشش میں جو بھی منہ میں آئے بکتے چلے جارہے ہیں اصل مسئلے کی طرف کوئی نہیں آنا چاہتا
”ابے تیری نظر میں اصل مسئلہ ہے کیا ؟۔۔ شیدے نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کرپوچھا
”سامنے کی بات بھی تیرے بھیجے میں نہیں آرہی میدے کا انداز برا منا نے جیسے ہوگیا عقل گھاس چرنے چلی گئی ہے کیا ؟
”مجھے تو کچھ سمجھ نہیں پرآہی۔۔شیدے نے جزبزہوکر کہا تم ہی کچھ بتادو فلاسفرکی اولاد
”یار سب ہاتھ دھوکر پانامہ لیکس کے پیچھے پڑ گئے ہیں میدے نے جواب دیا لیکن سامنے کی بات یہ ہے کہ ملکی سرمایہ
بیرون ِ ممالک کیسے پہنچا؟ اس پر ٹیکس بھی اداکیا گیا تھا یا نہیں؟
”یار !تمہاری بات دل کو لگتی ہے سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف الزام در الزام لگاکر اصل معاملہ گول کرنا چاہتے ہیں
عین نے کوئی غلط کام کیا ہے تو اس کو جواز بناکر میم کو رعائت نہیں دی جا سکتی ویسے پانامہ لیکس نے آف شور کمپنیاں بنانے کا انکشاف کیا ہے اپنی تو سمجھ میں یہ آف شور کمپنیوں والی بات ایک دم نہیں آئی کل میں پروفیسرکی طرف گیا تھا ان سے اس بارے میں پوچھنے ہی والا تھا کہ ان کے دوستوں نے اسی پر بات شروع کردی
” کیا بتایا پروفیسرنے۔۔۔ میدے کا اشتیاق دیدنی تھا
”ان کا کہنا تھا غیرقانونی سرمائے سے بنائی جانے والی کمپنیوں کی اصطلاح ہی آف شور کمپنیاں کیلئے استعمال کی جاتی
ہے
”اچھا تو یہ بات ہے۔۔ شیدے نے سرہلاتے ہوئے کہا جب ایسی کمپنیاں بنانے والوں نے خود اعتراف کیا ہے کہ ہم نے آف شور
کمپنیاں بنائی ہیں توپھر شورکیسا؟
”جہاں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادارہوں وہاں ایسا ہی ہوتا ہے بھولے شاہ
”مطلب مال کسی اور نے کھایا وضاحتیں کوئی اور کررہاہے اس گناہ کو گناہ بے لذت کہتے ہیں
”یہ گناہ۔۔ گناہ بے لذت کیسے ہوگیا شاہ کے مصاحب بن کر کوٹھی ، گاڑیاں اوربھرپورسرکاری وسائل ،پروٹوکول تمہیں مل جائے تو دل کو یقین ہے تم بھی ہرحدسے گذرجائو گے
” نہیں یار۔ میں اس حد تک نہیں گرسکتا ۔۔ میں تو بالکل ان فٹ ہوں۔۔ ایک مرتبہ ایک بزنس مین دوست مجھے ایک VIP پروگرام
میں لے گیا ایک اہم شخصیت نے سرمایہ کاری کانفرنس سے خطاب کرنا تھا ہمیں منتظمین نے پہلی قطار میں بٹھا یا بڑی آئو بھگت کی انہوںنے اتنی شاندار تقریب کہ میں بھی اپنے آپ کو بزنس مین سمجھ بیٹھا مہمان ِ خصوصی اتنے پروٹوکول کے ساتھ آئے شاید وہ مغل ِ اعظم کوبھی نصیب نہیں ہوا ہوگا انہوںنے اپنے خطاب میں پاکستان میں سرمایہ کاری کی فیوض وبرکات پر بڑی دل پذیرتقریر کی میں سوچ میں گم تھا ان حکمرانوں کی اپنی غیر ممالک میں اربوں کھربوں کی سرمایہ کاری اور دوسروں کو اپنے ملک میں انوسٹمنٹ کی تر غیب ۔۔ اتنی مکاری اتنی ڈھٹائی،اتنی دیدہ دلیری اور اتنی بے شرمی کہ میں دنگ رہ گیا عین اس وقت جب وہ ڈائس کے پر خچے اڑارہے تھے نہ جانے کیا ہوا بے ساختہ، بلا ارادہ میں نے حلق پھاڑکرقہقہے لگانا شروع کردئیے انگلی کے اشارے سے جو کچھ کہا وہ اتنا بے ربط تھا کہ مجھے آج تک خود بھی سمجھ نہیں آئی ۔۔۔ منطمین کے ایک شارے پر نہ جانے کہاں سے کمانڈوز میرے چاروں طرف آکھڑے ہوئے انہوں نے آئو دیکھا نہ تائو مجھے اٹھاکر اتنی گجی مار ماری کہ بیان نہیں کرسکتاپھر تقریب کے عقبی حصہ میں کچرے کے ڈھیر پر پھینک کرچلتے بنے
”تم جیسے نامعقول کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے تھا کم بخت کس نے کہا تھاشاہی معاملات میں دخل دو میں تو پانامہ لیکس کے
بارے میں تبادلہ ٔ خیال کررہا تھا تم اپنا دکھڑا لے بیٹھو
”پانامہ لیکس کے انکشافات سے پہلے را کے ایجنٹ کلبھوش یادیو کی گرفتاری کا بڑا چرچا تھاہرکوئی اس پراظہارکرتا دکھائی
دیتا تھا اب حکمران خاندان کی آف شور کمپنیوں کا ذکرکرکے پانامہ لیکس نے پاکستانی قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگادیاہے اب کوئی را کے ایجنٹ کل بھوش یادیو کی بات نہیں کررہا شایدقومی سلامتی کے حساس معاملات سے توجہ ہٹانے کا اس سے بہتر اور تیزبہدف نسخہ یا کوئی اور طریقہ ا یجاد نہیں ہوا اور ہم ہیں سمجھتے ہی نہیں۔
تحریر : ایم سرور صدیقی