میرے پوتے عزیزم ایقان حسن قریشی، جس میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے ساتھ ساتھ میری تحریریں جمع کرنے اور اُنہیں کتابی شکل دینے کا بے انتہا شوق اور غیرمعمولی لگن پائی جاتی ہے، نے دو سال پہلے وہ مضامین ترتیب دئیے، جو جنگ ستمبر 1965ء کے بارے میں اُردو ڈائجسٹ میں شائع ہوئے تھے۔ میں دورانِ جنگ مختلف محاذوں پر گیا اور آنکھوں دیکھا حال تحریر کیا۔ اِن مضامین میں ہماری مسلح افواج کی شجاعت اور قوتِ ایمانی کے معجزہ نما واقعات بھی تھے اور ایسے حیرت انگیز مناظر بھی، جن میں عوام اور فوج وطنِ عزیز کے دفاع میں چٹان کی طرح سینہ سپر تھے۔ میں نے محسوس کیا کہ کمال ہم آہنگی کے اِس غیرمعمولی جذبے کو تروتازہ رکھنے کے لیے ان تحریروں کو کتابی شکل دینا ضروری ہے۔ پھر مجھے کتاب کا مقدمہ لکھنے کا خیال آیا، چنانچہ تاریخ سے اُن محرکات کا سراغ لگایا جو ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تصادم کا باعث بنے رہے اور جن کی کوکھ سے 1965ء کی جنگ نے جنم لیا۔ مختلف مقامات پر مجھے شدت سے محسوس ہوا کہ اگر اُس وقت پوری قوم زبردست ہم آہنگی اور سرفروشی کا مظاہرہ نہ کرتی اور فوج کے جوان اور افسر اپنی جانوں پر کھیل کر دشمن کی یلغار کا منہ توڑ جواب نہ دیتے، تو پاکستان اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت بن جانے کے قابل نہ رہتا۔
1857ء میں آزادی سے محروم ہو جانے کے بعد انڈیا میں مسلمانوں کو انگریزوں اور ہندوؤں کی ملی بھگت کا سامنا کرنا پڑا، جو اُن کی تہذیبی شناخت، اُن کا دینی تشخص اور اُن کی سیاسی حیثیت ختم کرنے کے درپے ہو گئے تھے۔ اِن اندھیروں میں سر سید احمد خاں، علامہ شبلی نعمانی اور سید سلیمان ندوی نے اُمید کے چراغ روشن کئے اور حکیم الامت علامہ اقبال کے مسلسل اصرار پر اعلیٰ مرتبت محمد علی جناح نے آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت سنبھالی۔ اُنہوں نے برہمن قیادت کی شرانگیزیوں اور انگریزوں کی شاطرانہ چالوں کا غیرمعمولی سیاسی بصیرت اور عملی فراست سے مقابلہ کیا۔ دشمنوں نے قدم قدم پر سازشوں کے جال بچھائے اور جب مسلم قوم نے 1945-46 کے انتخابات میں پاکستان کے حق میں بھاری اکثریت سے ووٹ دئیے اور ہندوستان کی تقسیم ناگزیر ہو گئی، تو لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ریڈکلف پر دباؤ ڈال کر پنجاب کی سرحدوں میں اِس طرح ردوبدل کروایا کہ بھارت کو جموں و کشمیر کے لئے زمینی راستہ مل گیا، جو آگے چل کر دونوں آزاد مملکتوں کے درمیان کئی جنگوں کا باعث بنا، جن میں 1965ء کی جنگ کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔
گزشتہ سال ’جنگ ِستمبر کی یادیں‘ شائع ہوئی، تو میں نے ایک نسخہ مطالعے کے لئے اپنے قابلِ احترام دوست لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم خاں کو ارسال کیا، جو اِن دنوں سینیٹر بھی ہیں۔ مجھے اُن کا فون آیا کہ یہ کتاب ایسی ہے جسے ہر فوجی افسر کو ضرور پڑھنا چاہئے کیونکہ اس قت جو افسر کمان کر رہے ہیں، اُنہوں نے 1965ء کی جنگ میں حصہ لیا ہے نہ اُن عظیم جذبوں سے پوری طرح واقف ہیں جنہوں نے قوم کو حیاتِ نو عطا کی تھی۔ یہ بھی فرمایا کہ آرمی میں ایک ’بُک کلب‘ قائم ہے، جو حربی موضوعات سے متعلق کتابوں کا انتخاب کر کے اُنہیں اپنے طور پر شائع کر کے ہر افسر تک پہنچاتا ہے۔ میں اس کلب کے منتظمین سے کہوں گا کہ وہ ’جنگِ ستمبر کی یادیں‘ کی اشاعت کا خصوصی اہتمام کریں۔ کچھ روز بعد ملک گیر شہرت کے حامل میجر(ر) عامر کا بھی فون آیا، وہ بھی کتاب کی تعریف میں رطب اللسان تھے اور اسے مسلح افواج کے لئے ایک بیش قیمت دستاویز قرار دے رہے تھے۔ اُنہوں نے بھی عندیہ دیا کہ وہ آرمی بک کلب کے منتظمین کو اس کی وسیع اشاعت کی طرف توجہ دلائیں گے۔ مولانا ظفر علی خاں ٹرسٹ کے زیرِاہتمام اِس کتاب کی تقریبِ رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے مایہ ناز صحافی جناب مجیب الرحمٰن شامی نے کہا کہ میں نے اعلیٰ فوجی قیادت کو مشورہ دیا تھا کہ 6 ستمبر کو 1965ء کی جنگ کے حوالے سے جی ایچ کیو میں جو تقریب منعقد ہو رہی ہے، اس میں جناب الطاف حسن قریشی کو مہمانِ خصوصی کے طور پر مدعو کیا جائے کہ اُنہوں نے 1965ء کی جنگ کی فضا کو تازہ کرنے اور تنازعِ کشمیر کو صحیح تاریخی تناظر میں اُبھارنے کی زبردست کاوش کی ہے۔
ایک روز لیفٹیننٹ جنرل(ر) عبدالقیوم کا فون آیا کہ میں نے سروسز بک کلب کے انچارج افسر سے بات کی ہے۔ اُن کا جواب تھا کہ مروجہ پالیسی صرف انگریزی کتابوں کے انتخاب اور اشاعت کی اجازت دیتی ہے۔ وہ خود بھی اِس فیصلے پر حیرت زدہ تھے اور مجھے بھی حیرتوں میں غرق کر گئے۔ آرمی بک کلب کا قیام جنرل ضیاء الحق کا ایک تخلیقی کارنامہ تھا۔ اس کلب نے سب سے پہلے علامہ شبلی نعمانی کی سیرتِ النبیؐ کی سات جلدیں اور سید ابوالاعلیٰ مودودی کی تفہیم القرآن کی چھ جلدیں بڑے پیمانے پر شائع کی تھیں۔ اُن کے مطالعے سے ہمارے فوجی افسر اسلام کی بنیادی تعلیمات اور اسوۂ رسولﷺ کی عظمتوں سے واقف ہوتے گئے اور اُن کے اندر اُردو زبان میں شائع ہونے والی کتابوں کے پڑھنے کا شوق پیدا ہوا۔ یہ بھی عجب حسن اتفاق ہے کہ اُردو کے قابلِ قدر شگفتہ نگاروں کا تعلق فوج سے رہا ہے۔ میجر سید ضمیر جعفری، کرنل محمد خاں، کرنل شفیق الرحمٰن، بریگیڈئیر صدیق سالک، کرنل اشفاق حسین اور بریگیڈئیر صولت رضا کے نام جگمگاتے ہیں۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جنرل پرویز مشرف جو انگریزی کے زیادہ دلدادہ تھے، اُنہوں نے سروسز بک کلب میں اُردو کا داخلہ بند کر دیا تھا، جسے کسی طور پر بھی ایک مناسب فیصلہ نہیں کہا جا سکتا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ جنہوں نے سر سید پبلک کالج، راولپنڈی میں تعلیم حاصل کی ہے، وہ اُردو کی اہمیت کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ جن عظیم شخصیتوں سے ہمارے فوجی ایمانی قوت حاصل کرتے ہیں، ان کے بارے میں ایمان افروز معلومات اُردو میں شائع شدہ کتابوں میں ملتی ہیں۔ شیرِ خدا حضرت علیء، حضرت خالدؓ بن ولید، طارق بن زیاد، محمد بن قاسم، ٹیپو سلطان، صلاح الدین ایوبی اور ہمارے وہ جانباز جن پر نشانِ حیدر نچھاور کئے گئے، اُن کے ولولہ انگیز تذکرے زیادہ تر اُردو کی کتابوں میں دستیاب ہیں۔ ہمارے بیدار مغز سپہ سالار نے دفاع کی ایک نئی ڈاکٹرائن دی ہے اور عام فہم اُردو میں تقریر کرنے کا ایک اچھا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ اُن سے قدرتی طور پر توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ دوبارہ سروسز بک کلب میں اُردو کے باعزت داخلے کا اہتمام فرمائیں گے۔ یہ وہی زبان ہے جس کے بارے میں قائداعظم نے فرمایا تھا کہ یہ رابطے اور اتحاد کی زبان ہے۔