لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) عالمی سطح پر اسٹیل اسٹرکچر کے تحت بنے بنائے گئے گھر مقبول ہیں اور اب پاکستان میں بھی روایتی گھروں کے بجائے زلزلہ پروف جدید ترین تعمیرات کا رجحان شروع ہو گیا ہے،، یہ روایتی تعمیرات کے مقابلے 10 سے 15 فیصد سستی بھی ہوتی ہے،، جس کو لوگ پسند کر رہے ہیں،، ریڈی میڈ کپڑوں کا تو سنا تھا لیکن کیا گھر اور عمارت بھی ریڈی میڈ ہوتی ہے؟ جی ہاں ریڈی میڈ عمارتیں ترقی یافتہ ممالک میں کثرت سے بننا شروع ہو گئی ہیں،، اب شہر کراچی میں بھی گراؤنڈ پلس ون ‘پری فیبریکیٹڈ اسٹریکچرز’ بننا شروع ہو گئے ہیں۔ ایک نجی اسکول میں گراؤنڈ پلس ون کیلئے اسی طرز تعمیر کو استعمال کیا گیا ہے،، ان بنی بنائی عمارتوں میں اسٹیل فٹگنس کرکے سیمنٹڈ شیٹیں لگائی جاتی ہیں جو ٹھیک ٹھاک وزن سنبھال سکتی ہیں۔ یہ تعمیرات روایتی تعمیر جیسی ہی لگتی ہیں اور اندر کا ماحول بھی عام گھروں کی طرح ہی لگتا ہے،، اگر لوگ استعمال ہونے والے مٹیریل اور صحیح زوایوں پر تعمیر کا خاص خیال رکھیں تو خصوصاً گھروں کے اوپر فیملی بڑھنے کی صورت میں تیز ترین اور ہلکے وزن والی یہ جدید ترین تعمیرات گھاٹے کا سودا نہیں،، اس طرح کی تعمیر میں کوڑا کرکٹ نہیں ہوتا، وقت بھی بہت کم لگتا ہے اور یہ اسٹرکچرز زلزلے میں سلامت رہتے ہیں لہٰذا جانی نقصان کا بھی احتمال نہیں ہوتا،، تیز تر تعمیر کے سبب کرائے کے ذریعے آمدنی قبل از وقت ہونا بھی ممکن ہے، یہ تعمیر روایتی تعمیر کے مقابلے میں 10 سے 15 فی صد سستی ہے لیکن اگر یہ طریقہ رائج ہوگیا ہوگیا تو اس صورت میں روایتی گھروں کی تعمیر سے منسلک لاکھوں مزدوروں کے روزگار پر کاری ضرب بھی پڑسکتی ہے۔