کرسٹی براؤن پیدائشی معذور تھا۔ آئرلینڈ میں پیداہونے والابچہ ہاتھ پیرہلانے سے محروم تھا۔گوشت کاایک لوتھڑا۔ کرسٹی کو ایک مہلک بیماری تھی، جسکی وجہ سے چلنے پھرنے، اُٹھنے اورکسی قسم کے کام کرنے کی استطاعت نہ رکھتا تھا۔ پیدا ہوتے ہی ڈاکٹروں نے کہاکہ اس کی پرورش گھرمیں کرنا ناممکن ہے۔ والدین کے لیے یہ فیصلہ بہت مشکل تھاکہ اسے خصوصی اسپتال میں داخل کرادیں یاگھرلے جائیں۔ والدین نے فیصلہ کیاکہ اپنے لختِ جگر کو گھر لے جائینگے۔
کرسٹی براؤن اسکول یاکالج نہیں جاسکا۔ آئرلینڈمیں ایک صدی پہلے سوشل سیکیورٹی کانظام آچکاتھا۔ سوبرس پہلے برصغیرمیں لوگ کیسے زندگی گزاررہے تھے،اس پربات کرنے کاکوئی فائدہ نہیں۔بیسویں صدی کے شروع تک برصغیرمیں اقتصادی،صنعتی،اورعلمی ترقی نہ ہونے کے برابر تھی۔ چندتعلیم گاہیں جوموجودتھیں،وہ بھی انگریزوں کی مرہونِ منت تھیں۔دیکھاجائے توچندمصنوعی تبدیلیوں کے سوا پورا برصغیر آج بھی ایک بے معنی زندگی گزاررہاہے۔ خیرکرسٹی براؤن اس لحاظ سے خوش قسمت تھاکہ ایک ایسے ملک میں پیداہواجو ترقی کررہاتھا۔سٹی کونسل نے کرسٹی کے گھرایک سوشل ورکر بھجوانی شروع کردی۔کیترنیاڈیل ہینٹ نام کی اس خاتون نے کرسٹی کوکتابیں لاکردیناشروع کردیں۔
کیترینا، ششدر رہ گئی کہ اپاہج ہونے کے باوجودکرسٹی کو انگریزی ادب اور مصوری کاحددرجہ جنون تھا۔سوچ و بچار کے بعدکیترینانے فیصلہ کیاکہ کرسٹی کومصوری کاتمام سامان اورمختلف موضوعات پرکتابیں مہیاکرنی چاہییں۔کتابوں کی حدتک تو درست تھا کہ اس کی بصارت معمول کے مطابق تھی۔ مگرمصوری کیسے ہوگی۔اس سوال کاکسی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ خدا کا کرناتھاکہ کرسٹی کی بائیں ٹانگ معمولی سی حرکت کرتی تھی۔ بائیں پاؤں کی صرف دوانگلیاں معمولی سی جاندارتھیں۔کرسٹی نے اپنے بائیں پاؤں کے انگھوٹے کے ساتھ انگلی کو ملاکر قلم کواس میں پھنسادیا۔اس نے وہ کام کیا، جسے عام لوگ سوچ بھی نہیں سکتے۔پاؤں سے انتہائی خوبصورتی سے لکھنے کاعمل شروع کردیا۔ساتھ ساتھ برش کوبھی پاؤں میں اڑیس کومصوری شروع کردی۔
یہ صلاحیت حیرت انگیز تھی۔ تھوڑے عرصے میں کرسٹی نے حددرجہ محنت سے لکھنے اور پینٹ کرنے کی صلاحیت حاصل کرلی۔کوئی تصوربھی نہیں کرسکتاتھاکہ ایک معذورانسان اپنے پیرکے انگھوٹھے سے اتنا بہترین کام کرسکتاہے۔اس کے ڈاکٹرکوجب یہ کچھ پتہ چلا توکرسٹی کے پاس آیااور حددرجہ حوصلہ افزائی کی۔ ڈاکٹر رابرٹ کولس بذاتِ خودبھی ایک ادیب تھا۔ مسلسل حوصلہ افزائی سے کرسٹی نے اپناپہلاناول مکمل کیا۔ ناول کانام (میرا بایاں پاؤں) تھا۔ ناول میں کرسٹی نے اپنی تمام محرومیوں اوراپنے شہرڈبلن کی بھرپورزندگی کاذکر کیا۔ڈاکٹرکولس نے اپنے ذرایع استعمال کرکے کرسٹی کے ناول کوچھپوادیا۔جیسے ہی ناول چھپ کرمارکیٹ میں آیا،تو صرف ایک دن میں اس کی ساری کاپیاں فروخت ہوگئیں۔
کرسٹی پوری دنیامیں مشہورہوگیا۔خط وکتابت کادورتھا۔ کرسٹی کوپوری دنیاسے اَن گنت خط موصول ہونے شروع ہو گئے۔ آئرلینڈسے ہوتاہوایہ ناول،ان تمام ممالک میں پہنچ گیاجہاں انگریزی پڑھی اوربولی جاتی ہے۔ چند برس کے بعد،کرسٹی نے اپنادوسراشہرہ آفاق ناول لکھا۔ اس نے تو قیامت برپا کردی۔ چودہ زبانوں میں ترجمہ ہونے کے بعد ہالی ووڈ میں اس ناول پرایک فلم بنائی گئی۔ فلم کوپانچ اکیڈمی ایوارڈ ملے۔ کرسٹی نے اس کے ساتھ ساتھ شعری مجموعے اوردیگرناول بھی لکھے جوحیرت انگیزحدتک مقبول ہوئیں۔ساتھ ساتھ اس کی مصوری بھی حددرجہ پختہ اور خوبصورت ہوگئی۔کرسٹی اب ایک بین الاقوامی سطح کالکھاری اورمصوربن چکاتھا۔ دنیا کے کونے کونے میں اس کی شہرت تھی۔انچاس برس کی عمرمیں کرسٹی وہ معیاری کام کرگیا،جسکے لیے اَن گنت زندگیاں چاہئیں۔بائیں انگھوٹھے نے صلاحیت کاوہ جادو جگایا جو آج تک ایک دیو مالائی حیثیت رکھتا ہے۔ مقصد قطعاً یہ نہیں کہ آپکو کرسٹی براؤن کے ادبی اور فکری کارناموں سے آگاہ کروں۔ یہ بھی نہیں چاہتاکہ آپ اس کے شہرہ آفاق ناول پڑھنے شروع کردیں۔مقصدبہت سادہ ساہے۔ اگر کرسٹی معذور ہوکرلافانی کام کر سکتا ہے تو ہم مکمل جسم اور بھرپور دماغ رکھنے کے باوجود کامیاب کیوں نہیں ہوسکتے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنی ذہنی اورجسمانی صلاحیتوں کوبھرپورطریقے سے استعمال کرتے ہیں یا نہیں۔ ارد گرد دیکھیے۔ نناوے فیصدلوگ آپکو کسی نہ کسی طور پر شکوہ و شکایت کرتے نظر آئینگے۔ ان کی نظر میں حالات انھیں ترقی سے روک رہے ہیں۔ حالات، سماج اور مشکلات کا ذکر کرتے کرتے پوری زندگی بے مقصد گزار دیتے ہیں۔ لوگوں سے گفتگو کیجیے۔ پوچھیے کہ تمہیں روزگار کیوں نہیں مل رہا۔ متعدد تو جیہات پیش کرینگے۔ کوئی سرمایہ نہ ہونے کا جواز بنائے گا۔کوئی کہے گا کہ کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوسکا۔ دکان کھولی مگر چل نہ پائی۔ نوکری ڈھونڈی تو وہ سفارش کے بغیرممکن نہیں تھی۔ درست ہے کہ ہمارے نظام میں آگے بڑھنا قدرے مشکل ہے۔ مگر کیا جس نوجوان کو نوکری نہیں ملی، اس نے گھر آ کر تجزیہ کیا کہ اس کے اندر کونسی ایسی کمی یا خامی تھی جسکی بدولت ناکام ہو گیا۔ کیا اس نے تمام سوالات کا جواب بہترین طریقے سے دیا۔ ذاتی تنقید کا رویہ نہ ہونے کے برابر نظر آئیگا۔ 1984ء میں جب میں نے سی ایس ایس کاامتحان دیاتویہ جان کر ذہنی جھٹکا لگا کہ تقریباً ستر سے اَسی فیصدلوگ بغیرکسی تیاری کے امتحان گاہ میں صرف تجربہ حاصل کرنے کے لیے آئے ہیں۔ اکثریت یہ کہتی تھی کہ وہ توصرف دیکھنا چاہ رہے تھے کہ پرچے کس طرح دیے جائیں۔ سی ایس ایس میں کیونکہ تین چانس ہوتے ہیں، لہٰذا بقول ان کے، اگلی دفعہ پوری تیاری کرکے آئیںگے۔ مگر اگلی باری کبھی نہیں آتی۔ نوے فیصد اُمیدواروں کوادراک ہی نہیں ہوتاکہ ان کاسال ضایع ہورہاہے۔اگلے برس انھیں مختلف نوعیت کی مشکلات سے گزرناپڑے گا۔وہ کبھی اپنی غلطی یاکوتاہی تسلیم نہیں کرتے۔
سی ایس ایس کے امتحان کوچھوڑدیجیے۔کسی بھی میدان کاسنجیدہ تجزیہ کیجیے۔چلیے،کرکٹ کولے لیجیے۔ درجنوں ایسے کرکٹردیکھے ہیں جوسلیکٹرزکے تعصبانہ رویہ کی شکایت کرتے نظرآئیںگے۔ہوسکتاہے کہ اس میں کچھ سچائی بھی ہو۔مگراکثریت بین الاقوامی سطح تودورکی بات،ملکی لیول پر بھی کامیاب کھلاڑیوں جتنی محنت کرتے نظرنہیں آئیں گے۔ دراصل اکثریت بغیرمحنت کیے سب کچھ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ہاں،ایک اوربات۔ہم میں سے واضح اکثریت اپنی استطاعت بڑھانے کوجرم سمجھتی ہے۔ اگرکسی کی انگریزی کمزورہے،توپہلارویہ توانگریزی زبان سے روگردانی ہوگی۔
مجال ہے کہ انگریزی کتاب کوہاتھ لگایاجائے۔صرف یہ کہہ دینا،کہ فلاں مضمون مشکل لگتاہے یاسمجھ نہیں آتا،یااس سے مجھے رغبت نہیں ہے۔اپنی استطاعت کونہ بڑھانے کاایک کمزورترین رویہ ہے۔تعلیم کو رہنے دیجیے۔اگرکسی نے چھوٹا ساسٹورکھول رکھا ہے۔ اس پردن رات ڈیوٹی نہیں دیتا۔ ملازمین پرکڑی نظرنہیں رکھتا۔ چیزوں کے معیارکوہرممکن اعلیٰ سطح پرنہیں رکھتا۔ پھر انھی وجوہات کی بنیادپرناکام ہوجاتا ہے۔ کاروبار ختم ہو جاتا ہے۔ تو وہ شخص کبھی اپنی کمزوریوں کا ذکر نہیں کریگا۔اپنی استطاعت کونہ بڑھانے کے المیہ پر خاموش رہیگا۔کوتاہیوں کوچھپاتے چھپاتے ناکامی کی دلدل میں ڈوب جائیگا۔ مگر فکر اور ذاتی تدبرکرنے کی کوئی خواہش نہیں رکھے گا۔
انفرادی سطح سے نکل کرقومی سطح پر آئیے۔ آپکو ہر لیڈر، قائد،رہنماشکایت کرتانظرآئیگا۔کوئی بتائیگا کہ معیشت تباہ ہوگئی۔حکومتی پالیسی بالکل نامعقول اورغلط ہے۔حکومت تو کاروبارختم کرنے پرتلی ہوئی ہے۔بیرونی قرضے لے لے کر قوم کوغلام بنا دیا گیا ہے۔مگرکوئی بیانگ دہل اقرارنہیں کریگاکہ یہاں کوئی تاجر،کوئی سرمایہ دار،کوئی امیر آدمی، حکومت کو ٹیکس نہیں دیتا۔نناوے فیصد صنعتی طبقہ اورتاجر،ٹیکس چوری کے اندرملوث ہیں۔اس رویہ کومعقول بنا دیا گیا ہے۔ جہاں کوئی ٹیکس وصول کرنے کی کوشش کرے تواعلان کردیا جاتاہے کہ معیشت کاپہیہ روکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ آپ لاہورمیں کسی بھی چیزکی خریداری کے لیے نکلیں۔ فوراً احساس ہوجائیگا کہ بڑے سے بڑااورچھوٹے سے چھوٹا دکانداربھی ٹیکس والی رسیددینے کوگناہ سمجھتا ہے۔
اگر ہوٹل میں پکابل مانگ لیں توکھلبلی مچ جاتی ہے۔ مینیجر تک آپ کے پاس آجاتا ہے۔ بل میں ٹیکس کے بغیر فروخت شدہ اشیاء کا اندراج کرنے پر اصرار کریگا۔ اَن گنت جگہ توبل دینے کا رواج ہی نہیں ہے۔صرف پیسے بتادیے جاتے ہیں۔اگرکوئی بھی حکومت ٹیکس لینے پراصرارکرے توقیامت برپاکردی جاتی ہے۔ حقیقت حددرجہ تلخ ہے۔یہی حال کارخانوں اور ملوں کا ہے۔پورے ملک میں ہرشعبے میں ایک جیسا حال ہے۔ برانہ منائیے گا۔ہم مجموعی طورپرایک نااہل اورجیب کترے طرزکی قوم بن چکے ہیں۔ اکثریت کی بات کررہا ہوں۔ ایک اقلیت صائب طریقے سے زندگی گزارنے کی کوشش کررہی ہے جواب حددرجہ مشکل ہوتاجارہاہے۔
ہم میں ہرایک انفرادی اورقومی سطح پراپنی بھرپور استطاعت کواستعمال کیے بغیرترقی کرنا چاہتا ہے۔کامیاب ہوناچاہتاہے۔ہم کمزوریوں کو دور کیے بغیراپنی ناکامیوں کو بیرونی عوامل میں تلاش کرتے ہیں۔یقین ہے کہ ہم بالکل ٹھیک ہیں،باقی سب غلط ہیں۔تمام لوگ اورقومیں ہمیں ناکام بنارہی ہیں۔ہمارے خلاف سازشیں درسازشیں ہورہی ہیں۔ ہمارے ہاں،کوئی شخص یاادارہ کرسٹی براؤن کی طرح شدیدمحنت کی عادت نہیں اپناتا۔الزام دوسروں پرڈال دیتاہے۔ مسلسل ناکامی کا یہ سفر، انفرادی اورقومی سطح پرختم ہونے کانام ہی نہیں لیتا۔شائدہم کامیاب ہوناہی نہیں چاہتے۔کوئی بھی کرسٹی کی طرح اپنابایاں انگھوٹھا استعمال ہی نہیں کرناچاہتا۔