بقرعید آئی اور گزر گئی، قربان کرنے والوںنے قربانی کے جانوروںکو چھری تلے لِٹا کر ذبح بھی کیا اور ’’صاحبِ استطاعت‘‘ ہونے پر ’’اطاعت‘‘ کا اظہار بھی … لیکن ’’نفرت‘‘ اب بھی ذبح نہیں ہوسکی، دلوں میں بغض و عناد کے پلے پلائے جانور آج بھی ایسی تیز دھار کے منتظر ہیں جو اُنہیں ہمیشہ کےلئے کاٹ ڈالے … شاید ایسے ہی جذبات کی مسلسل پرورش دیکھتے ہوئے ہر اُس شخص نے اپنی بات کو سمجھانا یا وضاحت کرنا چھوڑدیا ہے جب سے اُس نے یہ جانا ہےکہ لوگ تو بس وہی سننا چاہتے ہیں جو اُن کی سماعتوں کا تیار شدہ جواب ہے یا پھر اپنی سمجھ کی حد تک ہی سمجھناچاہتے ہیں کیونکہ اِس سے آگے بڑھ کر سمجھنا اُن کی سمجھ سے باہر ہے …اور سچ تو یہ ہےکہ کچھ باتیں تو میں بھی نہیں سمجھ پاتا؟بہت سے ایسےکلبلاتے سوال ہیںجودماغ کی پیچیدہ رگوں میں خود بخود پیدا نہیں ہوئے بلکہ مناظر کی تکرار نے اُنہیں جستجو، استعجاب اور اُلجھن کے ایسے سستے لباس پہنادیے ہیں کہ سوال اپنی قیمت ہی کھو بیٹھے ہیں …
مثلاً میری عقل اِس امتیاز کوقبول کرنے سے اب تلک قاصر ہے کہ کون سا فرقہ یا مسلک ’’افضل‘‘ ہے؟کیونکہ قربانی کی کھالیں جمع کرنے والے جانے پہچانے ’’باریشوں‘‘ نے مانگتے وقت کبھی حلال و حرام اور جائز و ناجائز کی طویل اور گتھی تھما کر تماشا دیکھنے والی بحثیں نہیں کیں …حالانکہ اِن میں سے بیشتر وہ ہیں جو مسجد قریب ہونے کے باوجود اذان کی آواز پر اِس لئےاپنے قدم اللہ کےگھر کی سیڑھیوں تک نہیںلے جاتے کیونکہ وہ مسجد ہے تو ہے لیکن اُن کا مسلک یا عقیدہ یا چلیے فرقہ ہی کہہ لیجیے ، اُنہیں وہاں نماز پڑھنے سے نہ صرف روکتا ہے بلکہ اگر ’’انجانے ‘‘ میں یہ غلطی ‘‘ ہو جائے تواپنے مسلک کے حجتِ تمام امام کے ’’خطبۂ تنبیہ‘‘ کے بے حجابانہ کلمات کی ادائیگی کو ایک ’’گناہگار‘‘ کی طرح سننے کے بعد ’’نمازلوٹانے ‘‘ کا فریضہ بھی انجام دینا پڑتا ہے ورنہ ’’بدعقیدہ‘‘، ’’نافرمان‘‘،’’گمراہ‘‘ ،’’زندیق‘‘ اور بسا اوقات اِن کلمات میں ’’حسد’’ کی غیر مشروط شمولیت کے بعد’’کافر‘‘ اور ’’نکاح ٹوٹ جانے ‘‘کے راز بھی اُس ’’کمزورمسلمان‘‘ پر لمبی توندوں والوں کی طرف سے منکشف ہوسکتے ہیں …لیکن قربان جائیے قربانی کے ،صدقے ہوجائیں اپنے بکرے،دنبے یا گائے پر کہ جن کی کھال مسلک و فرقہ، رنگ وکفو،بے ریش و باریش،عقیدہ و عقیدت، لبرل و انتہاپسند …بلکہ ہر فرق کو مٹا کر قربانی کے جانور کی کھال کواِتنا معتبربنادیتی ہے کہ گیارہ ماہ اور26دن تک اختلافی اُمور پر ایک دوسرے کی شکل تک نہ دیکھنے کے روادار، منتظر رہتے ہیں کہ کب قصائی کھال اُتارے اور کب وہ صاحب ملکیت سے عرض کریں’’قربانی بہت مبارک ہو! اب اگر آپ اِس جانور کی قربانی کواللہ کی راہ میں مزید مقبول بنانا چاہتے ہیں اور اپنی آخرت سنوارنے کے خواہش مند ہیں تو اِ س کی کھال ہمارے مدرسے یا مسجد کو عنایت فرماکر یہ رسید حاصل کریںجو اِس نیک عمل کی یادگار کے طور پر آپ کو ہمیشہ یاد رہے گی…قربانی کا جانور تو یقیناً سنی تھا نہ شیعہ،وہابی تھا نہ دیوبندی، اہل حدیث تھانہ خارجی مگر جس نے خرید ا تھا وہ بلاشبہ اِن ہی میں سے کوئی ’’چُھپا رُستم‘‘ ضرورتھالیکن ’’ضرورت‘‘ نہیں تھا…اور جس کی ’’ضرورت‘‘ ہے وہ کس کی ملکیت تھی اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، بس کھال ہونی چاہئے پھر چاہے دینے والا شیعہ اور مانگنے والا سنی ہو یہ اُس دِن کا انتہائی ’’بے ہودہ‘‘، غلط فہمیاں پھیلانے والا اور ایسا فسادی سوال ہے جس سے ’’فرقہ وارانہ ہم آہنگی‘‘ نہ صرف متاثر ہوتی ہے بلکہ تہوار کے حسن کو بھی گہنانے کی مذموم منصوبہ سازی کی دفعہ لگا کر ایسے شر پسند عناصر کو فی الفور ’’دفع ‘‘ کرنے میں لمحے کی بھی دیر اسلام سے اخراج کا سبب بن سکتی ہے…
بھلا یہ بھی کوئی جھگڑے کی بات ہے کہ جن سے کھال مانگی جارہی ہے وہ روزہ ــ’’ہمارے تحقیقی وقت ‘‘کے مطابق نہیں کھولتے ،اب کوئی کھال دینے والا اِس لئے تو لعن طعن کا مستحق نہیں ہوسکتا نا کہ وہ تراویح کی 8کے بجائے 20رکعت کیوں پڑھتا ہے ؟بھلا طالبِ کھال کو اِس سے کیا غرض کہ جو ٹوکری بھر رہا ہے وہ طالب علم ہے یا طالبان؟…مقصودیوم یا اہدافِ ایام توزیادہ سے زیادہ کھالوں کا حصول ہے …یہ مت دیکھو کہ کون دے رہا ہے ، یہ دیکھو کہ کیا دے رہا ہے ؟…اپنے قلوب میں طلبِ کھال کی چاہ پیدا کرو، اور مصلحت سے کام لیتے ہوئے ’’بائیکاٹ کی چاہت‘‘کو تین روزہ چُپ کی قبر میں خاموشی سے دفنادو…اِتنے بڑے اور فلاحی کام کے لئے ’’اُس ’’کافر‘‘کےگھر سے نفرت کے ’’مستقل‘‘ جذبے کو کچھ دیر کے لئے چھٹی دینے میں حرج ہی کیا ہے ؟بے شک بعض الفاظ زہر سے بھی زہریلے ہوتے ہیںلیکن دل پر جبر کرکے جب تک کھال نہ ملے اپنے اِسی زہر سے طریاق کی طرح ٹپکتے ایسے جملے ادا کرو کہ وہ اُن میں گم ہوکر تمہیں وہ ادا کرنے پر مجبور ہوجائے جسے تم نے اپنی مانگ بنارکھا ہے اور اُسے پورا کرنے کے لئے قصائی نے وہیںکہیں بکرے کو ٹانگ رکھاہے …تمہیں یاد ہے نا کہ اُستادجی نے ایک مرتبہ درس دیتے ہوئے کیا فرمایا تھا؟ نہیں یاد…چلو کوئی بات نہیں میںبتاتا ہوں،ہمارے اُستاد جی اُس دن بڑے ہی اچھےاور روحانی مزاج میں تھےاِسی لئےکہنے لگے کہ ’’انسان کو دیکھوکتنا عجیب ہے ،جب تک کوئی حادثہ نہیں ہوتاوہ نیکی کی طرف مائل ہی نہیںہوتا‘‘…اب تم اُستاد جی کی اِسی بات کی طرف دھیان دے کر سوچو کہ ایک ایسے بے دین شخص کے لئے قربانی حادثہ ہی تو ہے اور یہ آدمی اِسی حادثے کی وجہ سے نیکی کی جانب لپکا ہے تو تم اِس کے لپکنے سے پہلے کھال لپک لوچاہے اِس کے لئے تمہیںایسے دریدہ دہن اور تمسخر اُڑانے والے شخص کی صرف شکل ہی نہ دیکھنی پڑے بلکہ باتیںبھی برداشت کرنی پڑیں…تمہاری نگاہ کا مرکز صرف کھال ہونی چاہئے ، کھال دینے والا نہیںاور اگر تم یہی سوچ کر اِس ’’منحوس مقام‘‘ پر صرف رضائے الہی کے لئے قیام کرو گے تو تمہیں ہر ایک لمحے کا بھرپور اجر ملے گا کیونکہ تم نے یہ کھال اُس شخص سے حاصل کر نے کی صعوبت اُٹھائی ہے جو معصیت اور گمراہی کے پست ترین درجوں کا مسافر ہے لیکن تمہاری استقامت اور اُستادجی کی نصیحتیں تمہاری رہنما بن کر ان شا اللہ کامیابی کی نوید سنائیں گی…
اورپھر بس! تمام جھگڑے ختم، چہرے پر مسکان، شیریں انداز میں کلام اور عزت سے لیا جانے والا نام کھال دینے والے کو (گو کہ وہ لینے والے کے نزدیک اللہ کا مجرم ہے)اللہ کی محبت اور اُس کے خوف میں ایسا سرشار کرتاہے کہ وہ کھال ہی نہیں بلکہ مدرسے کے بچوں کے لئے تھیلی بھر گوشت بھی دےدیتا ہے تاکہ قلبی قتلی کی اندر سے بلند ہونے والی صدائیںاُس سےکہیں کہ ’’اپنے دِل کو تُو اللہ کی راہ میں قتل تو کر! پھر دیکھ کہ کیسی ابدی زندگی حاصل کرتاہے …
اور یوں اُس دن تین قتل ہوئے ، پہلا اللہ کی راہ میں قربانی کاجانور، دوسرا کھال دینے والا اپنی نیت کا سچا مقتول اور تیسرا مانگنےوالاموقع پرست مقتول…!!!