تحریر: میر شاہد حسین
جب دیکھو شکوے، جب دیکھو شکایت۔ یہ اس کی ٹانگ کھینچ رہا ہے تو وہ اس کی ٹانگ کھینچ رہا ہے۔ کوئی ڈگڈگی بجارہا ہے تو کوئی ناچنے میں مصروف ہے۔عوام کے اپنے مسائل ہیں اور حکمرانوں کے اپنے الے ترلے۔ ایسے میں ہم جیسے کالم نویس لکھ لکھ کر صفحے کے صفحے کالے کردیتے ہیں لیکن جن کے دل کالے ہوں ان کو کیا فرق پڑتا ہے ان کے کالے کرتوت تو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے۔ ایک سانحہ پر ابھی ماتم ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا سانحہ آلیتا ہے۔ کس سے فریاد کریں اور کس سے منصفی چاہیں کہ یہاں تو مسائل جب تک سڑکوں پر ،چوک چوراہوں پر یا دھرنوں تک نہ پہنچیں کسی کے کان میں جوں نہیں رینگتی۔ ایسے میں مایوسی کے بادل فضا کو سوگوار کرتے ہیں ۔ بے یقینی کی ہوا چلنے لگتی ہے اور دل چاہتا ہے کہ ایک ایسی زور کی رحمت کی بارش ہو کہ یہ سب گندگی اپنے ساتھ بہا کر لے جائے۔ لیکن کیا کریں کہ خواہشات کے چراغوں سے کبھی روشنی نہیں ملتی۔ چراغوں کو اپنے لہو اور پسینے کا ایندھن پلانا ہی پڑتا ہے۔
میں قربانی نہیں دینا چاہتا لیکن قربانی کا بکرا بننے کے لیے بالکل تیار ہوں۔ آپ مجھے کسی بھی لائن میں لگا لیں۔آپ چاہے مجھے جوتے ماریں، راستہ بند کریں، بجلی بند کریں، گیس بند کریں یا پانی بند کردیں لیکن میں ووٹ آپ ہی کو دوں گا۔ میں چیخوں گا چلاؤ گا لیکن ووٹ آپ ہی کو دوں گا۔ آپ راستہ بند کریں گے تو میں فٹ پاتھ پر چڑھ جاؤں گا، آپ بجلی بند کریں میں جنریٹر چلا لوں گا، پانی بند کردیں میں بورنگ کروا لوں گا ، منرل واٹر گھر پر لگوا لوں گا یا ٹینکر ڈلوا لوں گا لیکن جناب ووٹ آپ ہی کو دوں گا۔ آپ مہنگائی کرتے جاؤ میں کرپشن کرتا جاؤں گا ۔
اب ایسے میں کیا کیا جائے کہ جنہیں لکھنے کی بیماری ہے وہ لکھتے ہی رہتے ہیں لیکن جسے پڑھنا نہ ہو اسے آپ کتنا بھی دیواروں کی دیواریں بھر کر نوشتہ دیوار بنا دیں لیکن سوائے اپنا سر دیواروں پر مارنے کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ صحرا میں کھڑے ہو کر اگر آپ آواز دیں تو شاید اپنی ہی آواز کی بازگشت واپس آجائے لیکن یہ وہ دنیا ہے جہاں بسنے والے لوگ آواز کو بھی دبا دیتے ہیں کہ انہیں ایسی آوازیں اچھی نہیں لگتیں جو ان کی نیند میں خلل ڈالے یا انہیں بیدار کردے۔ نیند بھی ایسی گہری ہے کہ ان پر زلزلوں پر زلزلے آئیں، سیلاب گزرتے جائیں، ڈرون گرتے جائیں یا پھر کوئی بھی قیامت لیکن یہ شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دبا کر بیٹھے رہیں گے ، اس انتظار میں کہ دشمن اسے چھوڑ کر گزر جائے گا۔ لیکن قدت کا قانون اٹل ہے کہ جس بھیڑئیے نے بھیڑ کو کھانا ہو اسے کسی بہانے کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی۔ پھر بھیڑ بھی ایسی جو ہر دشمن کو اپنا دوست بنائے بیٹھی ہو اور اس سے یہ توقع بھی کہ وہ اسے کچھ نہیں کہے۔
ہماری تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ ہماری فطرت کا حصہ رہا ہے کہ ہم ہر باہر سے آنے والے طاقتور کو سلام کرتے آئے ہیں ۔ محمد بن قاسم نے ہندوستان پر حملہ کیا تو ہم نے اسے اپنا نجات دہندہ سمجھا اور اسے دیوتا بنا کر اس کا ساتھ دیا۔ظہیر الدین بابر تشریف لائے تو ہم نے انہیں بھی اپنا نجات دہندہ کہااور تین سو سال تک ان کا ہاتھ تھامے رکھا۔ پھر انگریزوں نے ہم پر حملہ کیا تو ہم نے انہیں بھی خوش آمدید کہا اور ان کا ساتھ دے کر جاگیریں حاصل کیں۔ پھر امریکہ سپر پاور بن کر ابھرا تو ہم نے اسے بھی اپنا آقا تسلیم کر لیا ۔
اپنی چادر اور چار دیواری اس کے لیے وا کردی۔ چین کو دوست بنایا تو ایسا بنایا کہ ‘ہر مال چائنا’ ہو گیا۔ہماری صنعتیں تباہ حالی و بربادی کا شکار ہو گئیں لیکن ہم ہمالیہ سے بلند اور سمندروں سے گہری دوستی نبھاتے رہے۔آج ہمیں پھرکسی ایسے ہی نجات دہندہ کی تلاش ہے جو آکر ہم پر حکومت کرے کیونکہ ہمیںتو بس نوکری کرنی ہے چاہے وہ وڈیرے کی ہو، چوہدری کی ہو یا کسی بھی سرمایہ دار کی ہو۔ ہم اسی میں خوش ہیں کہ ہمیں روٹی مل رہی ہے چاہے وہ کسی خوبصورت پنجرہ میں ملے یا گلے میں غلامی کے پٹے کی صورت میں ملے لیکن ہمیں روٹی ملنی چاہیے۔ کیوں ایسا ہی ہے ناں…!!
تحریر: میر شاہد حسین