تحریر : سلطان حسین
دالیں تو بہت ہیں لیکن ان سب میں دال چنا بہت مشہور ہے اسے اگر دالوں کی ماں کہا جائے تو بے جا نہیں ہو گا مجھے تو دال بہت پسند ہے جس دن بھی یہ ”ڈش” ہو بڑے شوق سے کھاتا ہوں بلکہ ”پینے ” کو بھی دل چاہتا ہے لیکن بڑے بزرگ کہتے ہیں کہ ہر بات دل کی نہیں ماننی چاہیے اسی لیے اکثر پرہیز ہی رہتا ہے دال کو ہم ایک سبزی کے طور پر بھی جانتے ہیں اسے اگر سگھڑ خاتون خانہ پکائے تویہ بہت لذیزہوتی ہے ورنہ تو مجبوراََ پیٹ بھرنے کے لیے کھانا پڑتی ہے اسی دال کے بارے میں ایک محاورہ بھی بہت مشہور ہے یہ کب سے مشہور ہے اس کی تاریخ کیا ہے یہ ایک محاوہ ہی ہے یا کسی حقیقت سے محاورہ بنا ہے نہیں جانتا بڑے بزرگوں سے ”دال میں کچھ کالا ہے” کا محاورہ سنتے آئے ہیں اور اب بھی کبھی کبھی سن لیتے ہیں لیکن کبھی بولنے کی نوبت نہیں آئی اب جب پاک چین راہداری کا معاملہ گرم ہے تو ہم نے بھی سوچا کہ چلو اس محاورے کو استعمال کر لیتے ہیں یہ محاروہ کب زبان زد عام ہوا یہ بھی نہیں جانتا اس کے لیے محاوروں کی کوئی کتاب دیکھنا پڑے گی جس کا آج کل کے اس نیٹ کے دور میں ملنا بھی محال ہے اور اسے تلاش کرنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے نیٹ آج کل ہر مرض کی دوا بن چکا ہے اکثر بہت ہی مفید معلومات اس سے مل جاتی ہیں ضروری نہیں کہ تمام معلومات ٹھیک ہوں تاہم کسی حد تک اندازہ ہو جاتا ہے ہم نے سوچا کہ شاہد دال کے محاوے کے بارے میں بھی کچھ مل جائے لیکن ہمیں ناکامی ہی ہوئی اس لیے یہ ضروری نہیں کہ نیٹ پر ہر چیز کے بارے میں کچھ نہ کچھ موجود ہو۔یہ محاورہ عموماََ اس وقت کہا جاتا ہے جب کسی بات کے بارے میں شک ہو کہ اس میں کچھ غلط ہے۔
آج جس حوالے سے ہم بات کر رہے ہیں اس کے بارے میں یہ محاورہ بالکل ٹھیک لگ رہا ہے اسی لیے اسے کالم کا عنوان بنایا گیا یہ تو کالم کے عنوان کے بارے میں راہ چلتے بات تھی اب ذرا اصل مقصد کی طرف آتے ہیں جب سے پاک چین منصوبے کی باز گشت شروع ہوئی یا اس کا معاہدہ ہوا ہے تب سے اس منصوبے میں لگتا ہے کہ ”دال میں کچھ کالا ہے لیکن اب جبکہ صوبوں کی طرف سے وفاقی حکومت پر ہی عدم اعتماد کا اظہار کیا جارہا ہے اور شکوک وشہبات ظاہر کئے جارہے ہیں تو لگتا ہے کہ دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ پوری دال ہی کالی ہے جب سے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے وزیراعظم کی طرف سے چند روز قبل جس مغربی روٹ کا افتتاح کیا اس کے بارے میں جو انکشاف کیا اس کے بعد تو ہمیں دال کے ارگرد کا حلقہ بھی کالا نظر آرہا ہے وزیر اعظم نے ژوب میں مغربی روٹ کے نام سے جس منصوبے کا گذشتہ روز افتتاح کیا تھا اس کے بارے میں وزیراعلی خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے دعوی کیاہے کہ وہ تو سرے سے پاک چین اقتصادی راہداری کا حصہ ہی نہیں ہے کیونکہ اس منصوبے کے لئے مالی وسائل ایشیائی ترقیاتی بینک فراہم کر رہا ہے اس منصوبے کی حقیقت کیا ہے اس کے بارے میں وفاقی حکومت نے بالکل خاموشی اختیار کررکھی ہے راہداری منصوبے کے حوالے سے یہ ایک حقیقت ہے کہ وفاق نے جب سے اس منصوبے پر بات چیت شروع کی ہے اور اس پر پیش رفت جاری رہی۔
اس وقت تک کسی بھی صوبے کو اعتماد میں نہیں لیا ۔ وزیراعظم نے منصوبے پر ہونے والی بات چیت کے دوران کسی بھی صوبے کے وزیراعلیٰ کو کبھی بھی چین ساتھ لے جانے کی ضرورت محسوس نہیں کی جبکہ پنجاب کے وزیراعلیٰ اور اور ان کے بھائی شہباز شریف وزیراعظم کے ہمراہ ہر دورے میں ساتھ رہے جس سے دیگر صوبوں میں احساس محرومی پیدا ہوا اور یہ تاثر پیدا ہوگیا بلکہ سرے عام یہ کہا جانے لگا کہ وزیراعظم نواز شریف صرف پنجاب کے وزیراعظم ہیںجبکہ وزیراعظم نے اس تاثر کو دور کرنے کی زحمت بھی کبھی گوارہ نہیں کی ایسا کیوں ہے یہ تو وہی زیادہ بہتر طور پر جانتے ہیں تاہم ان کے اقدامات سے صوبوں میں احساس محرومی میں کمی کی بجائے اضافہ ہی ہورہا ہے اسی لیے خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ نے تجویز پیش کی کہ مشرقی روٹ پر شروع کئے گئے وہ تمام منصوبے اس وقت تک روک دیئے جائیں جب تک خیبرپختونخوا حکومت کے تحفظات دور نہیں کئے جاتے۔
انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ وفاقی حکومت پاک چین اقتصادی راہداری کے بارے میں خیبرپختونخوا کی حکومت اور تمام سیاسی جاعتوں سے کئے گئے وعدے پورے کرے اور اس منصوبے سے متعلق تمام حقائق کو منظر عام پر لایاجائے پاکستان اور چین میں اقتصادی منصوبے کے بارے میں کیا معاہدہ ہوا ہے یہ ایک سربستہ راز بن چکا ہے اس منصوبے کے بارے میں صرف وزیراعظم چند وفاقی وزراء اور وزیراعلیٰ پنجاب ہی حقائق جانتے ہیں کسی صوبے کو نہ تو اس منصوبے کی دستاویزات فراہم کی گئیں نہ انہیں اس سلسلے میں اعتماد میں لیا گیا جس کی وجہ سے صوبوں میں بداعتمادی کی فضا پیدا ہو چکی ہے اور اس میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے اور اب تو خیبر پختونخوا کے ساتھ ہی ساتھ سندھ نے بھی اس کا واضح اظہار کر دیا جبکہ بلوچستان میں بھی شکوک وشہبات کا اظہار کیا جارہا ہے اس قدر اہم منصوبے کے بارے میں موجودہ مسلم لیگی وفاقی حکومت کا طرز عمل افسوس ناک ہے جس کے خلاف اس صوبے کی تمام پارلیمانی جماعتیں متحد ہوچکی ہیں اور صوبائی حکومت کا ساتھ دے رہی ہیں۔
جبکہ صوبائی حکومت صوبے سے وفاق کی اس ناانصافی کے خلاف آج کل متحرک ہوچکی ہے اور اپنے حق کے لیے آواز اٹھا رہی ہے وفاقی حکومت صوبوں کو ان کا حق دینے یا ان کے تحفظات دور کرنے کی بجائے انہیں خاموش کرنے کی کوشیشوں میں مصروف ہے۔ جمعیت علما اسلام (ف)جو وفاقی حکومت کی اتحادی جماعت ہے اور عوامی نیشنل پارٹی پر بھی جب یہ حقیقت آشکارا ہوئی کہ منصوبے کے سلسلے میں وفاقی حکومت اپنا وعدہ پورا نہیں کر رہی اور مغربی روٹ میں راہداری سے ملحقہ دیگر منصوبے شامل نہیں کئے جارہے تو اس کے بعد یہ دونوں جماعتیں بھی اس مسئلے پر خیبرپختونخوا حکومت کے موقف کی مکمل حمایت کر رہی ہیں۔
اے این پی نے تو اس منصوبے کا مسلسل جائزہ لینے کے لیے کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے۔اس منصوبے کے بارے میں دہشتگردی سے متاثرہ خیبر پختونخوا کے ساتھ توابتداء سے ہی امتیازی رویہ رکھا جارہا ہے وفاقی حکومت نے اس صوبے کو شروع دن سے آج تک کبھی پاک چائنا روٹ کے منصوبے پر اعتماد میں لیا اور نہ ہی کبھی اس منصوبے کی تفصیلات سے آگاہ کیا وفاقی حکومت نہ صرف اس صوبے کو اپنے حقوق سے محروم کر رہی ہے بلکہ وہ وفاق کو بھی اپنے اقدامات سے کمزور کر رہی ہے ہونا تو چاہیے کہ دیگر اہم منصوبوں سمیت اس اہم منصوبے کو مشترکہ مفادات کونسل جیسے اداروں میں لایا جاتا اور سب صوبوں کو اس کی تفصیلات سے آگاہ کرنے کے علاوہ اتفاق رائے سے اس پر کام کیا جاتا اس کے بر عکس اسے کالا باغ ڈیم کی طرح متنازعہ بنایا جارہا ہے ۔اس طرح کے قومی منصوبوں اور معاملات پر چاروں اکائیوں کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنا وقت کے ساتھ ساتھ آئینی تقاضا بھی ہے۔
اقتصادی راہداری کا جو منصوبہ چین کے تعاون سے ترتیب دیا گیا ہے اس میں’ ایل این جی، بجلی کی پیداوار، گیس پائپ لائن، آپٹک فائبر، انڈسٹریل پارکس، ریلوے لائن اور اکنامک زون جیسے منصوبے شامل ہیں جو پنجاب سے توگزرنے والے مشرقی روٹ میں شامل کئے گئے ہیں اور مشرقی روٹ کے ان منصوبوں پر کام کا آغاز بھی ہو چکا ہے جبکہ خیبرپختونخوا کے بارے میں بالکل خاموشی ہے اور ا س طرح کے منصوبوں کا ابھی تک کوئی نام و نشان نہیں ہے اور اگر وزیراعلی خیبر پختونخوا کا انکشاف صیح ہے تو بلوچستان کے ساتھ بھی ہاتھ کیا جارہا ہے جس کی خوشحالی کے بڑے دعوے کئے جارہے ہیں۔کہا یہ بھی جا رہا ہے کہ وفاقی حکومت کے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں بھی مغربی روٹ کیلئے کوئی رقم مختص نہیں کی گئی اور نہ ہی اس منصوبے کے نقشے یا دیگر تفصیلات ویب سائٹ پر موجود ہیں جو ناقابل فہم ہے اور جس سے اس منصوبے کہ بارے میں یہ تاثر صیح ثابت ہر رہا ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔
اقتصادی راہداری سے متعلق وفاقی حکومت تمام حقائق سے دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ خیبر پختونخوا سمیت تمام صوبوں کو آگاہ کرے اور منصوبے کی شفافیت پر انہیں قائل کرئے حقائق کو خفیہ رکھ کرشکوک و شبہات پیدا نہ کئے جائیںیہی اس منصوبے اور ملک کے مفاد میں ہے پاک چین اقتصادی راہداری کے حوالے سے پاکستان اور چین کے درمیان کئے گئے تمام معاہدے منظر عام پر لائے جائیں ان پر اسمبلی میں بحث کی جائے اور آئینی تقاضوں کے مطابق مشترکہ مفادات کونسل میں بھی اسے زیر بحث لایا جائے تاکہ صوبے مطمین ہوں کیونکہ یہ کسی ایک صوبے کا نہیں چاروں صوبوں کا مسئلہ ہے پنجاب کی معیشت ہو یا تجارت یا روزگار کا معاملہ ہو دیگر صوبوں کی بہ نسبت بہت بہتر ہے۔
اس لیے بجائے پنجاب کو نوازنے کے پسماندہ صوبوں کی طرف توجہ دی جائے خصوصاَ خیبرپختونخوا پر زیادہ توجہ کی ضرورت ہے کیونکہ اس صوبے نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے شمار قربانیاں دی ہیں اور یہ صوبہ اس جنگ میںہر شعبے میں بری طرح متاثر ہوا ہے۔ اس منصوبے پراس کی اصل روح کے مطابق عمل کیا جائے کے پی سمیت سب چھوٹے صوبوں کے تحفظات دور کئے جائیں صرف جھوٹی تسلیاں دے کرخاموش کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔
تحریر : سلطان حسین