یہ پانچ، چھ اور سات سالہ معصوم افغانی بچے ہیں جن کی تصاویر کل سے سوشل میڈیا پہ گردش کر رہی ہیں۔ یہ ایک مدرسے کے طالب علم، دستاربندی کی تقریب کے دولہا جنہوں نے اس تقریب کی مناسبت سے سفید براق لباس پہن رکھے تھے۔ اوربڑے خوش و خرم تھے۔ اچانک ہی اس دنیا سے خفا ہو کے چل دیے۔
امریکہ بہادر کو لگا کہ ان سے اس کی سالمیت کو خطرہ ہے۔ یہ بچے جنہوں نے دہشت گرد کا لفظ شاید سنا بھی نہ ہو، ان سے امریکہ کو خطرہ تھا کہ وہ اس کی سرحدی سلامتی کو ’نقصان‘ پہنچائیں گے۔
ڈھٹائی اور بے شرمی کی اگر کوئی انتہا ہے تو امریکی گورنمنٹ نے بلاشبہ یہ بیان دے کر اس انتہا کو پا لیا ہے کہ وہ معصوم پھول انہیں دہشت گرد دکھائی دیے تھے۔
ارے ہاں! یہ اصطلاح ’دہشت گردی‘ بھی کمال ہے۔ تاریخ کا جتنا مطالعہ میں نے کیا ہے اور حال کے واقعات کو جس قدر میں سمجھ سکی ہوں، میرے ذہن میں کل کے غیر مہذب اور تاریک خیال دشمن اور آج کے نام نہاد مہذب اور روشن خیال دشمن کا فرق واضح ہوگیا ہے۔ اس فرق میں ایک لفظ ’’دہشت گردی‘‘ بڑا اہم ہے۔
تاریخ کے اوراق پلٹیں۔ سقوطِ غرناطہ اور بغداد کی تباہی کو کون بھول سکتا ہے؟ تباہی تب بھی ہماری ہی ہوئی تھی۔ لیکن دشمن اور تھا۔ بغداد کے مسلمان کا دشمن خود کو ’مہذب‘ کہلوانے پہ مصر نہیں تھا۔ نہ ہی اس کا دعویٰ تھا کہ وہ ’روشن خیال‘ ہے۔ ظالم نے مجبور پہ دہشت گردی کا الزام بھی نہیں لگایا تھا۔ چنگیز خان اگر ظالم تھا تو اسے قبول تھا کہ وہ ظالم ہے۔ تاتاریوں نے کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کیے تھے تو یہ مان کر کیے تھے کہ وہ ظالم ہیں۔
لیکن آج کا نام نہاد روشن خیال دشمن اس حقیقت سے انکاری ہے کہ وہ واقعی ظالم ہے۔ اس کے پاس حق ہے کہ جب جی میں آئے، وہ ہتھیار اٹھائے ہمارے سروں پہ مسلط ہو جائے، ہمارا خون بہائے اور کہہ دے کہ اسے دہشت گردی کا شک پڑا تھا۔
دہشت گردی کا الزام تو گویا کوئی لائسنس ہے جو ان عالمی طاقتوں نے مسلمانوں کی قتل و غارت کےلیے حاصل کر لیا ہے۔
جیسے ہی تھوڑا وقت امن سے گزرا، فوراً ہی ان کے ہاتھوں میں کھجلی ہوتی ہے اور پھر زیادہ کچھ نہیں بس یہی کوئی سینکڑوں کے قریب جانیں چلی جاتی ہیں، لہو بہتا ہے۔ فالتو لہو۔ اّمتِ مسلمہ کا لہو۔
امریکہ، اسرائیل اور بھارت تینوں ایک ہی ایجنڈے پہ عمل پیرا ہیں۔ فلسطین ہو یا شام، کشمیر ہو یا افغانستان، جب جس کا جی چاہے مسلمانوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہو۔ اور بچوں، بوڑھوں، جوانوں، عورتوں کی تفریق کے بغیر ظلم وستم کا بازار گرم کر دے۔
تھوڑا عرصہ قبل ہی بیت المقدس کی طرف ٹرمپ نے نہ صرف بری نظر سے دیکھا، بلکہ اسرائیل کے غیر منصفانہ موقف کی عملاً حمایت کی؛ اور پوری کوشش کی کہ مسلمان قبلہ اول سے محروم ہو جائیں۔ کشمیر جو پون صدی سے جل رہا ہے، اسے ابھی دو روز قبل جوان لاشوں کا خراج پھر دینا پڑا۔ اور اب افغانستان کے گلشن کے مہکتے پھول مرجھا گئے۔
ایک طرف ظلم و بربریت کا یہ کھیل ہے تو دوسری طرف ظالم استعمار سرے سے یہ تسلیم کرنے سے انکاری ہے کہ جرم اسی کا ہے۔ یہ روشن خیال دشمن جو بلیوں اور کتوں کے حقوق کےلیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے، جو امن اور جمہوریت کے بلند و بانگ دعوے کرتا ہے، آج اسےانسانی خون کے بہنے کی پروا نہیں؛ کیونکہ تعصب اور تنگ نظری کی عینک لگا کر یہی نظر آتا ہے کہ سات اور دس سال کے بچے بھی دہشت گردی کر سکتے ہیں۔
ان بچوں کا قصور یہ تھا کہ وہ مسلمان تھے، اور تنگ نظری اور تاریک خیالی کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوگی کہ خود سے متصادم عقائد و نظریات والی ملت کا وجود برداشت ہی نہ ہوتا ہو۔
اور تعصب کی یہ آگ بچوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ طاقت کے اندھے جنون سے سرشار انسان نما درندے انسانیت کی سطح سے اس قدر نیچے گرے کہ معصوم بچوں کا خون ارزاں کر دیا۔
ان بچوں کی ماؤں کی منتظر نگاہیں پتھرا گئی ہیں۔ ان ماؤں نے تو بچوں کےلیے ان کی پسند کے کھانے بنا کے رکھے ہوں گے۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ ان کے بچے تو دہشت گردی کے الزام میں ایک ’امن پسند ‘ قوم کا نشانہ بن گئے ہیں۔ کیونکہ ’امن‘ قائم کرنے کےلیے ان معصوموں کا خون کرنا ضروری تھا۔
ان باپوں کے لب ترس ہی گئے جو دستار سے سجی پیشانیوں پہ بوسہ دینے کےلیے بے تاب تھے۔ وہ معصوم پھول ابھی خود کو محسوس بھی نہ کرا سکے تھے کہ حافظ قرآن بن کے وہ کتنے معتبر ہو گئے ہیں۔ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ ان کے سر دہشت گردی کا الزام ہے، جس سے چھٹکارا پانا جانیں دیے بغیر ممکن نہیں۔
وہ اپنی ابدی منزلوں کو پا گئے۔
امریکی حکومت اور افغانی بچوں کے اس قصے میں جو مشترک چیز ہے وہ یہی ڈھٹائی اور ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ والا اصول ہے جو کئی دہائیوں سے چلا آرہا ہے۔ اب تک جتنے گھروں کو اجاڑا جا چکا ہے اور جتنی قومیں مضروب ہیں، کسی ایک کی حالت کی ذمہ داری نہیں قبول کی جاتی۔ الٹا فخر سے جمہوریت پسندی اور امن و آشتی کے فروغ کا نعرہ لگایا جاتا ہے۔ گویا:
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو!