چند روز قبل (10 اور 11 ستمبر) قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی کا سائنس وٹیکنالوجی کے حوالے سے پہلی بار دو روزہ اجلاس ہوا۔ جس میں پاکستانی صدر ممنون حسین سمیت 22 ممالک کے سربراہان اور 37 ممالک کے مندوبین نے شرکت کی۔ یوں 57 مسلم ممالک اس کانفرنس میں شریک ہوئے۔کانفرنس میں کسی قسم کے ٹھوس اقدامات تجویز کیے جانے کے بجائے مسلم ممالک کی سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں کم مائیگی کا نوحہ پڑھا گیا۔ اعلامیہ میں بتایا گیا کہ2026 تک سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں مسلمانوں کی ترقی کا لائحہ عمل ترتیب دیا جائے گا۔ یہ فیصلہ بھی ہوا کہ اس سلسلے کی اگلی کانفرنس ازبکستان میں منعقد ہوگی، جس کی تاریخ کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔
سوال یہ ہے کہ مسلم دنیا جو آج بدترین تقسیم کا شکار ہے، کیا او آئی سی اسے کسی ایک پلیٹ فارم پر جمع کرتے ہوئے سائنس و ٹیکنالوجی جیسے اہم علمی میدان میں طے کردہ اہداف حاصل کرسکے گی؟ کیونکہ یہ تنظیم گزشتہ تین دہائیوں سے غیر فعال چلی آرہی ہے۔ جس نے اس دوران مسلم ممالک اور مسلمانوں کو درپیش مسائل پر توجہ دینے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔
یہ تنظیم جو ستمبر 1969 میں مسجد اقصیٰ میں آتشزدگی کے واقعے کے ردعمل میں 1972 میں رباط (مراکش) میں قائم کی گئی تھی۔ لیکن بھٹو مرحوم نے اس کا دوسرا اجلاس فروری 1974 میں لاہور میں منعقد کرکے اسے واضح سمت دینے کی کوشش کی۔ اس وقت جن چار رہنماؤں (شاہ فیصل مرحوم، بھٹو مرحوم، معمرقذافی مرحوم اور حوری بومدین مرحوم) نے اس تنظیم کو ایک فعال اور متحرک تحریک بنانے پر خصوصی توجہ دی۔ بھٹومرحوم اس تنظیم کو مسلم دنیا کا ایک وسیع البنیاد ادارے یا مسلم دنیا کی اقوام متحدہ کی شکل دینے کے خواہشمند تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلم ممالک کی دولت اور وسائل مسلم عالمی بینک کے ذریعے ان مسلم ممالک میں سرمایہ کاری اور صنعتکاری کریں، جہاں ہنرمند افرادی قوت موجود ہے۔ ان کی یہ بھی خواہش تھی کہ مسلم ممالک جدید سائنس وٹیکنالوجی بالخصوص جوہری توانائی میں ملکہ حاصل کرسکیں تاکہ ترقی یافتہ دنیا کے ہم قدم ہوسکیں۔ بھٹو ہی کی کوششوں اور کاوشوں کے باعث مشرق وسطیٰ کے ممالک کی تعمیرو ترقی کے لیے پاکستانی ہنرمند افرادی قوت کے لیے راستہ کھلا۔ یہ بھٹو ہی کا مشورہ تھا کہ تیل کی قیمتیں ترقی یافتہ صارف ممالک کے بجائے تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم او پیک طے کرے۔ نتیجتاً ان ممالک نے ایک ہفتے کے لیے تیل بند کرکے ترقی یافتہ ممالک کو اپنے مطالبات منظور کرنے پر مجبور کردیا۔
وہ اپنی آخری کتاب اف آئی ایم ایسوسی ایٹڈ میں لکھتے ہیںکہ 1975 میں امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ ہنری کسنجر پاکستان کے دورے پر آئے۔ گورنر ہاؤس لاہور میں ہونے والی میٹنگ کے دوران انھوں نے مجھ سے استفسار کیا کہ پاکستان کے جوہری پروگرام کے لیے آپ کو کس ملک سے فنڈنگ ملنے کی توقع ہے۔ بھٹو نے کہا کہ کوئی بھی، قذافی ہوسکتا ہے۔ اس پر ہنری کسنجر نے غصیلے لہجے میں کہا کہ پھر مسٹر بھٹو آپ کو ایک مثالی سزا ملے گی۔ بھٹو آگے لکھتے ہیں کہ جنرل ضیا نے غیر ملکی قوتوں کے اشارے پر ان کی حکومت کا تختہ الٹا۔
ترقی یافتہ دنیا ان چار مسلم رہنماؤں سے خوفزدہ ہوچکی تھی۔ جنھیں وہ مسلم دنیا پر اپنے کنٹرول کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھنے لگی تھی۔ چنانچہ 1975 میں شاہ فیصل شہید کردیے گئے۔ بھٹو اپریل 1979 کو پھانسی چڑھا دیے گئے۔ قذافی کے خلاف اسی دور سے سازشوں کے جال بنے جانے لگے۔ حوری بومدین کو پہلے اندرون ملک مذہبی شدت پسندی کے مسئلے میں الجھا کر عالمی سیاست سے دور کردیا گیا۔ پھر کچھ سال بعد وہ ایک پراسرار بیماری میں مبتلا ہوکر اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ یوں اسلامی ممالک کو ایک لڑی میں پرونے کے خواہشمند چاروں رہنما یکے بعد دیگرے سیاسی منظرنامے سے ہٹادیے گئے۔ ان کے بعد آنے والے مسلم رہنماؤںمیں یہ بصیرت تھی اور نہ عزم کہ وہ اس تنظیم کے ڈھانچے اور اغراض و مقاصد کو وقت اور حالات کے مطابق تبدیل کرتے ہوئے اس کو فعال رکھ سکتے۔ چنانچہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ تنظیم گہناتی چلی گئی اور آج محض دکھاوے کی انجمن رہ گئی ہے۔
چونکہ گزشتہ کئی دہائیوں سے یہ تنظیم غیر فعال ہے۔ اس لیے اس دوران رونما ہونے والے اہم واقعات اور سنگین سانحات پر اس جماعت کا کوئی خاطر خواہ لائحہ عمل تیار کرنا تو دور کی بات، واضح موقف بھی سامنے نہیں آسکا۔ خاص طور پر افغان جنگ کو جہاد قرار دیا جانا۔ غیر ریاستی عناصر کا جہاد کے نام پر پوری دنیا میں عسکریت پسندی کا مظاہرہ کرنا۔ 9/11 کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال اور اس کے مسلمانوں پر پڑنے والے اثرات۔ مشرق وسطیٰ میں شروع ہونے والی باہمی مخاصمت۔ جس کے نتیجے میں کئی مسلمان ممالک تباہ ہوچکے ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں مسلمانوں بے گھر ہوئے ہیں۔ یہ وہ معاملات و مسائل ہیں، جن پر سر جوڑ کر بیٹھنے اور سنجیدگی کے ساتھ ٹھوس اور قابل عمل فیصلوں کی ضرورت ہے۔ مگر ان تمام معاملات پر او آئی سی کی خاموشی معنی خیز ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت دنیا میں ایک ارب 68 کروڑ کے قریب مسلمان ہیں، جو 58 ممالک میں اکثریتی، جب کہ دیگر ممالک میں اقلیتی حیثیت میں آباد ہیں۔ مسلم ممالک کی اکثریت میں پشتینی بادشاہتیں اور شخصی آمریتیں قائم ہیں۔ صرف چند ممالک میں منتخب حکومتیں ہیں۔ مگر وہ جمہوریت کے معیار اور پیمانے پر پوری نہیں اترتیں۔ بیشتر مسلم معاشروں میں قبائلیت کے اثرات گہرے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان معاشروں میں ریاستی قوانین کے متوازی روایتی قوانین (جرگہ وغیرہ) زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ نتیجتاً ان ممالک میں نسلی، لسانی، فرقہ وارانہ اور صنفی امتیازات اپنے عروج پر ہیں۔
اگر شرح خواندگی اور تعلیمی معیار کا جائزہ لیں، تو 58 مسلم ممالک میں سے کسی ایک میں بھی کوئی ایسی جامعہ نہیں، جو دنیا کی 100 اعلیٰ جامعات کی فہرست میں شامل ہوسکے۔ ان تمام ممالک میں اول تو خواندگی کی اوسط شرح بہت کم ہے۔ دوئم جو تعلیم دی جارہی ہے، اس کا معیار بھی عالمی سطح سے خاصا کم ہے۔ جس کی وجہ سے مسلم نوجوان عالمی سطح پر مقابلے میں دیگر مذاہب کے ماننے والوں سے خاصے پیچھے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ سائنس وٹیکنالوجی کی ترقی کے لیے جس وژن کی ضرورت ہوتی ہے، ان ممالک کی مقتدر اشرافیہ اس سے عاری ہے۔ لہٰذا اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلم نوجوان اپنے بہتر اور محفوظ مستقبل کی خاطر یورپ اور امریکا کا رخ کرتے ہیں۔ جہاں ان کی صلاحیتوں کو جلا ملتی ہے۔ مگر شدت پسند عناصر کی دہشت گردانہ کاروائیوں کے باعث اب ان ممالک میں نقل مکانی کی راہیں بھی مسدود ہوتی جارہی ہیں۔
سائنس اور ٹیکنالوجی مسلم دنیا کی اولین ضرورت ضرور ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ آیا غیر فعال اور غیر متحرک او آئی سی میں اتنی اہلیت و صلاحیت ہے کہ وہ فکری، فقہی اور مسلکی اعتبار سے درجنوں پرتوں میں منقسم مسلم معاشروں کو باہمی چپقلشوں کی دلدل سے باہر نکال کر کسی ایک پلیٹ فارم پر یکجا کرسکے؟ کیا مسلم دنیا میں یہ وژن اور عزم ہے کہ وہ عسکریت پسندی کے بجائے جدید عصری علوم پر قدرت حاصل کرکے ترقی یافتہ دنیا سے ساتھ مسابقت کرسکے؟ کیا بقیہ دنیا جو مسلمانوں کے حالیہ کردار سے پریشان ہے، مسلمانوں کے نئے انداز میں مجتمع ہونے کو شک کی نگاہ سے نہیں دیکھے گی؟
حالیہ کانفرنس سے گو کوئی خاص امید نہیں ہے، لیکن مسلم ممالک کے حکمرانوں اور منصوبہ سازوں میں اگر یہ بصیرت اور عزم پیدا ہوجاتا ہے کہ او آئی سی کو فعال بناکر اس کے ذریعے عسکریت پسندی اور متشدد کارروائیوں کو دین کا حصہ سمجھنے والے مسلم نوجوانوں کو جدید سائنسی علوم کی جانب راغب کیا جاسکتا ہے، جو کہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، تو یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہوسکتی ہے۔