counter easy hit

چین جنوبی بحیرہ کی سمندری حدود کا قبضہ چھوڑ دے: امریکا

Let the South

Let the South

واشنگٹن میں چین کے سفیر کا کہنا ہے کہ عدالتی فیصلہ یکطرفہ اور ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے جس کو چین کبھی بھی قبول نہیں کریگا
نیویارک ( یس اُردو) امریکا نے چین کو ایک بار پھر کہا ہے کہ وہ عالمی عدالت کا فیصلہ تسلیم کرتے ہوئے جنوبی بحیرہ چین کی سمندری حدود کا قبضہ چھوڑ دے ۔ واشنگٹن میں چین کے سفیر Cui Tiankai نے امریکی حکام کو بتا دیا ہے کہ یہ عدالتی فیصلہ یکطرفہ اور ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے جس کو چین کبھی بھی قبول نہیں کریگا ۔انہوں نے کہا کہ امریکہ سمیت کچھ ممالک اس خطے میں چین کے گرد گھیرا ڈالنے کی کوششیں کر رہے ہیں لیکن ان کو منہ کی کھانا پڑیگی ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ضروری نہیں کہ امریکہ کی خواہش پر ہی دنیا کا نظام چلے ، وقت بدل چکا ہے اور ہر ایک کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے ملک کے بہترین مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسیاں بنائے اور چین اپنے مفاد کے لیئے پوری دنیا میں کام کر رہا ہے ۔سٹینفورڈ یونیورسٹی سے منسلک ڈاکٹر چارلس نے ” دنیا نیوز” سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ جنوبی بحیرہ چین کا سمندری علاقہ بیشمار قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اور سب کی نظریں اس پر ہیں لیکن چین کبھی بھی اس حدود سے پیچھے نہیں ہٹے گا ۔انہوں نے کہا کہ اگر حالات کشیدہ ہو گے تو یہ سمندری حدود ایک تباہ کن جنگ کا نقشہ پیش کریگی۔ امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ چین نے اٹل موقف اختیار کر لیا ہے کہ وہ اس حدود سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے گا اور اب اس نے ” میں نہ مانو ” کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے سمندری حدود میں فوجی نقل و حرکت میں مزید اضافہ کر دیا ہے ۔ وہاں خطرناک ہتھیاروں اور بھاری فوجی یونٹوں کی موجودگی امریکہ کو ایک پیغام ہے کہ اگر کسی کو جرات ہے تو وہ اسکو پیچھے دھکیل کر دکھائے ۔دفاعی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکہ اور بھارت کا گٹھ جوڑ بھی چین کو پریشان نہیں کر سکا ، بھارت اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ امریکہ کے اشارے پر چین کے ساتھ کھلم کھلا محاذ آرائی کر سکے ۔امریکی ذرائع ابلاغ بھی اپنے نشریاتی تبصروں میں جنوبی بحیرہ چین پر چینی دعوے کو ایک معنی خیز اور اوبامہ انتظامیہ کو ایک بڑے چیلنج سے تعبیر کر رہے ہیں ۔