دلّی کے حکیم مومن خان مومن‘ غالب کی طرح بادہ خوار نہیں نمازی‘ پرہیزگار انسان تھے۔ سنا ہے کسی صوفیانہ سلسلے سے تعلق بھی قائم کر رکھا تھا اور اکثر مراقبوں اور چلّوں میں مصروف رہتے تھے۔ عاجزی مگر صوفیانہ شاعروں کا شعار ہوتی ہے۔ اپنے ایک شعر میں گھبرا کر پکار اُٹھے کہ عمر ساری عشق بتاں میں گزارنے کے بعد اب ان کے لئے (بہتر) مسلمان ہو جانے کا امکان باقی نہیں رہا۔
گزشتہ کئی مہینوں سے البتہ میں ذاتی طور ”آخری عمر میں کیا خاک مسلماں ہوں گے؟!“ والی مایوسی سے چھٹکارا پانے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہوں۔ ایسا کرتے ہوئے میرے لئے اسلام اور نظریہ پاکستان کے چند بلند آہنگ محافظوں کو پڑھنا اور ٹی وی پر دیکھنا ضروری ہو چکا ہے۔ ایسے محبانِ وطن اور دین کی رہ نمائی کی بدولت دریافت یہ ہوا ہے کہ صرف بھارت ہی نہیں،امریکہ بھی ہمارا دشمن ہے۔ یہودی سرمایہ داروں نے بہت مکاری کے ساتھ وہاں کے میڈیا اور تعلیمی اداروں میں ایسے لوگ گھسارکھے ہیں جو”انسان دوست“ ہونے کے ڈھونگ رچاتے ہیں۔دنیا کے کسی بھی ملک میں جابرانہ حکومتیں اپنے شہریوں کے بنیادی حقوق پر قدغنیں لگائیں تو یہ لوگ دہائی مچادیتے ہیں۔انسانی حقوق کے تحفظ کے نام پر لیکن جو سوانگ رچائے جاتے ہیں اصل مقصد ان کا ہم لوگوں کو اپنے دین اور وطن سے برگشتہ کرنا ہوتا ہے۔ہمیں گمراہ کرنے کا یہ دھندا بڑے باریک انداز میں جاری رکھا جاتا ہے۔
عمران خان صاحب مغرب میں کئی برس گزارنے کے بعد صیہونیوں کی سازشوں کو خوب سمجھ چکے ہیں۔ اسی لئے 90ءکی دہائی سے وہ پاکستان میں خود کو لبرل کہلاتے لوگوں کو ”ڈالر خور“ ٹھہراتے رہے۔ مجھ ایسے بدنصیب ان کی فراست کو ابتداءمیں سمجھ نہ پائے۔ انہیں ”طالبان خان“ کہنا شروع کردیا۔سچ مگر بالآخر عیاں ہوکر رہتا ہے۔
نومبر 2016ءمیں ڈونلڈٹرمپ کو وائٹ ہاﺅس کے لئے منتخب کرنے کے بعد امریکی رائے دہندگان نے ثابت کردیا کہ وہ اب بھی سفید فام اکثریت کا ملک ہے۔ تارکینِ وطن اور خاص کر مسلمانوں کے بارے میں شدید طور پر متعصب بھی۔ جو بندہ انہوں نے اپنا صدر چنا‘ اسے جو بھی کہہ لیں قول کا پکا اور سچا ہے۔ اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے صرف ایک ہفتے کے بعد اس نے سات مسلمان ملکوں سے آئے لوگوں پر ویزا اور گرین کارڈ کے ہوتے ہوئے بھی اپنے ملک میں داخلے پر پابندی لگادی ہے۔
امریکہ میں عورتوں اور اقلیتوں کو برابری کے حقوق یقینی بنانے کے دعوے دار- این جی او ٹائپ لوگ- ٹرمپ کے اس فیصلے پر چراغ پا ہو گئے۔ نیو یارک جیسے شہروں کے ایئرپورٹس پر جہاں غیر ملکوں سے طیارے آتے ہیں‘ جمع ہونا شروع ہو گئے۔ چند وکلاءنے باہم مل کر ایک زبردست کیس بھی تیار کیا جس کی بدولت اعلیٰ عدالت کے ایک جج نے رہو قسم کا ایک حکم صادر کر دیا۔ اس کی بدولت یہ ضرور ہوا کہ امریکی ویزا اور گرین کارڈ کے حامل جو لوگ امریکی ایئرپورٹس پر اُتر چکے تھے انہیں اس ملک میں داخلے کی سہولت نصیب ہو گئی۔ امریکی صدر کے جاری کردہ حکم کو آئینی اور قانونی طورپر غیر مو¿ثر بنانا مگر کافی طویل اور جاں گسل جدوجہد کا تقاضہ کرتا ہے۔ امریکہ میں داخلے کے خواہاں مسلمانوں کی مشکلات لہذا اپنی جگہ برقرار ہیں گی۔
چند پاکستانی مطمئن ہیں کہ ابھی تک ٹرمپ نے جن مسلمان ملکوں کے شہریوں پر امریکہ میں داخلے پر پابندی لگائی ہے، ان کا ملک اس میں شامل نہیں ہے۔ بکرے کی ماں مگر کب تک خیر منائے گی۔ عمران خان صاحب کی نگاہِ دور بین نے تاڑ لیا ہے کہ بالآخر یہ پابندی پاکستانیوں پر بھی عائد کی جائے گی۔ اسی لئے انتہائی خلوص سے اتوار کے روز ساہی وال میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ربّ سے فریاد کی کہ پاکستانیوں کا نام بھی ان ممالک کی فہرست میں شامل ہوجائے جنہیں امریکہ میں داخلے کا حقدار تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ ایسا ہوگیا تو پاکستانی اپنے ہی ملک میں رہتے ہوئے اسے کرپشن سے پاک کرنے اور بہتر مستقبل کی طرف لے جانے پر توجہ دینا شروع ہوجائیں گے۔
عمران خان صاحب سے خواہ مخواہ چڑے ”ڈالر خور لبرل“ ان کی مذکورہ دُعا سے بہت چراغ پا ہوئے ہیں۔ اپنے سوشل میڈیا اکاﺅنٹس پر کپتان کی ”سادہ لوح“ تنگ مزاجی کا مذاق اُڑا رہے ہیں۔ اگر میں ان دنوں اپنے قلب کی صفائی ستھرائی کی فکر میں مبتلا نہ ہوتا تو شاید ”ڈالر خوروں“ کے ساتھ مل چکا ہوتا۔ تالیف قلب کی مشق سے گزرتے ہوئے میں تو بلکہ یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ عمران خان ٹھیک ہی تو کہہ رہے ہیں۔
پاکستان 20 کروڑ کا ملک ہے۔ ربّ نے اسے جغرافیائی طورپر جو خطہ عطا کیا وہ افغانستان اور وہاں سے پورے وسطی ایشیاءتک پہنچنے کا آسان ترین راستہ فراہم کرتا ہے۔ روس کئی صدیوں سے سمندر کے گرم پانیوں تک پہنچنے کی فکر میں مبتلا رہا ہے۔ برطانوی سامراج نے اسے دریائے آمو کے اس پار تک محدود رکھا۔ ایک آزاد ملک بن جانے کے بعد ہم نے بھی روس کی یہ خواہش پوری نہیں ہونے دی۔ اپنی اسی خواہش کے حصول کی خاطر وہ دسمبر 1979ءمیں افغانستان پر قابض ہوا تو جنرل ضیاءالحق کی مومنانہ فراست کی بدولت جہاد برپا ہوگیا۔
اس جہاد نے سوویت یونین جیسی سپر طاقت کو پاش پاش کرکے روس تک سکیڑ دیا۔ اب یہی روس پاکستان سے چین کی مدد سے کاشغر کو گوادر سے ملانے والی راہداری میں اپنا حصہ ڈالنے کی درخواست کر رہا ہے۔ روس اور چین ہمارے ساتھ کھڑے ہو جائیں تو سات سمندر پار بیٹھا ٹرمپ گیا بھاڑ میں۔ ہمیں اس کی حرکتوں کے بارے میں پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ امریکہ میں جو پاکستانی مقیم ہیں ان کے لئے سنہری موقعہ ہے کہ حرام جانور کھانے کے عادی معاشرے کو چھوڑ کر جو ہماری مذہبی اور ثقافتی روایات کی قدر نہیں کرتا ا پنے وطن لوٹ آئیں۔ پردیس میں ذلیل و پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے؟
امریکہ ہمارا کبھی دوست نہیں رہا۔ ہمارے اولین دیدہ ور- فیلڈ مارشل ایوب خان- نے بڑے چاﺅ اور اہتمام کے ساتھ 50ءکی دہائی میں اس ملک کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی تھی۔ امریکی صدر کنیڈی کی خوبرو اہلیہ -جیکولین- ان کی مردانہ وجاہت سے بھی بہت مرعوب رہی۔ سیٹو اور سینٹو کے ذریعے ہم امریکہ کے فوجی اتحادی بنے۔ 1965ءمیں لیکن جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو امریکہ نے عذر تراشا کہ سیٹو اور سینٹو جیسے اتحاد تو کمیونسٹ روس کے خلاف قائم ہوئے ہیں۔ ان کا پاک-بھارت مناقشت سے کوئی لینا دینا نہیں۔
ایوب خان کے بعد یحییٰ خان آئے تو انہوں نے ہنری کیسنجر کے خفیہ طورپر چین جانے کا بندوبست کیا۔اس سہولت کاری کے باوجود امریکہ نے بھارت کو ہم سے مشرقی پاکستان چھین کر اسے بنگلہ دش بنانے سے نہیں روکا۔ یحییٰ خان کے بعد جنرل ضیاءآئے تو انہوں نے مجاہدانہ ترنگ کے ساتھ کمیونسٹ روس کو افغانستان میں گھیر لیا۔ افغانستان کے ”آزاد“ ہوتے ہی لیکن امریکی صدر بش نے پاکستان پر ایٹمی پروگرام جاری رکھنے کا الزام لگاتے ہوئے اقتصادی پابندیاں عائد کردیں۔
ان پابندیوں کے ہوتے ہوئے بھی جنرل مشرف نے انتہائی فراخ دلی کے ساتھ نائن الیون کے بعد امریکہ کو افغانستان سے اپنا بدلہ چکانے میں بھرپور مدد کی۔ اس امداد نے طالبان کو ہمیں خودکش حملوں کے ذریعے سبق سکھانے کی ترغیب دی۔ ہمارے ہزارہا شہری ان کا نشانہ بنے۔ اس کے باوجود امریکہ ہم سے مزید کرو کے تقاضے کرتا رہا۔ ساتھ ہی ساتھ یہ طعنے بھی کہ وہ ہماری مدد کے بدلے نائن الیون کے بعد سے ہمیں 20 ارب ڈالر ادا کر چکا ہے۔ یہ خطیر رقم کہاں خرچ ہوئی؟ اس کا جواب میرے جیسے عام پاکستانی کے پاس تو بالکل موجود نہیں۔ رقم بہرحال آئی اور خرچ بھی ہوئی ہے۔ حال ہی میں رخصت ہوئی اوبامہ حکومت سے ہم نے کولیشن سپورٹ فنڈ کے ضمن میں جمع ہوئے 900 ملین ڈالروں میں سے تقریباً آدھی رقم سے F-16 طیارے خریدنا چاہے تھے۔ اوبامہ نے مگر انکار کر دیا۔
اس کے انکار کے باوجود پاکستان نے سی پیک کی بدولت خود کو محفوظ تر بنا لیا ہے۔ ٹرمپ پاکستان سے قطع تعلق کر لے تو بہتری اور خوشحالی کے جانے مزید کتنے امکانات کے درکھل جائیں گے۔ تو آئیے ہاتھ اٹھائیں‘ ہم بھی اور ربّ سے فریاد کریں کہ ٹرمپ پاکستانیوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی لگا دے تاکہ ہم اپنے پاﺅں پر کھڑا ہونے کی لگن میں مصروف ہو سکیں۔