خواتین کو حراساں کیے جانے کے واقعات بہت تیزی سے ہمارے معاشرے میں بڑھ رہے ہیں۔ اسکے علاوہ بچیوں اور خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں بھی آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔ کہیں کسی زینب کی عزت پامال ہوتی ہے تو کہیں کسی مبشرہ کے کپڑے تار تار کیے جاتے ہیں۔ اسکے علاوہ روزانہ کی بنیاد پر گھر سے روزی کمانے یا علم کے حصول کیلئے نکلنے والی خواتین کو حراساں کئے جانے کے واقعات کا تو کوئی حساب ہی نہیں ہے۔
جہاں پہلے ان مسائل پر بات کرنا نامناسب سمجھا جاتا تھا وہیں اب ان واقعات کی بڑھتی ہوئی تعداد اور سنگینی کے پیش نظر ان معاملات کو اٹھایا جا رہا ہے اور ان کے متعلق بات کی جا رہی ہے تاکہ ان واقعات کی وجوہات اور مناسب حل تلاش کیے جا سکیں۔
سوشل میڈیا پر ایک سے بڑھ کے ایک شخص ان واقعات کی مذمت کرتا نظر آتا ہے۔ ان کی پوسٹس دیکھ کر ایسے گمان ہوتا ہے کہ یہاں فرشتے ہی بستے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہاں فرشتے بستے ہیں تو یہ درندے کیا آسمان سے اترتے ہیں یا غاروں سے اچانک ظہور پذیر ہوتے ہیں؟
جی نہیں۔ یہ لوگ ہمارے ہی معاشرے میں ہمارے ہی درمیان رہنے والے لوگ ہیں جو کسی ماں کے بیٹے، کسی بہن کے بھائی، کسی بیٹی کے باپ اور کسی بیوی کے شوہر کی صورت میں ہمارے درمیان ہی موجود ہوتے ہیں۔
اس سلسلے میں عام تاثر یہی پایا جاتا ہے ان سب کے پیچھے قصور اس عورت یا اس لڑکی کا ہے جو گھر سے نکلتی ہے اور بیچارے مردوں سے گناہ سرزَد کرواتی ہے۔ میرے خیال میں اپنے اوپر ہونے والے مظالم کی ذمہ دار واقعی عورت ہے۔
اس سب کی قصوروار وہ ماں ہے جو اپنی بیٹیوں پر تو پوری نظر رکھتی ہے مگر اپنے بیٹوں کے اعمال سے جانتے ہوئے بھی لاعلم رہنے کی اداکاری کرتی ہے۔ وہ اپنی بیٹیوں کو تو زمانے سے بچا کر رکھتی ہے مگر دوسروں کی بیٹیوں کو اپنے بیٹوں سے بچانے کی کوئی کوشش نہیں کرتی۔
وہ بہن بھی قصوروار ہے جو اپنی بھائیوں کے اُن عیبوں پر پردہ ڈالے رکھتی ہے جنہیں چھپانے سے کسی اور کی زندگی عیب دار ہو سکتی ہے۔ اس سب کی قصوروار وہ بیوی بھی ہے جو سمجھوتے کے نام پر دوسری عورتوں کی عزتیں اچھلنے پر خاموش رہتی ہے اور وہ بیٹی بھی یقیناً قصوروار ہے جو اپنے باپ کی حرکتوں سے انجان رہنے کی کوشش کرتی ہے۔
ہمارے معاشرے کی عورت کو یہ سمجھ لینا چاہئیے کہ اس طرح کے مرد اب خود نہیں سدھر سکتے۔ ہمارے یہ کہنے سے کہ ”مرد تو ہوتے ہی ایسے ہیں” کچھ حاصل نہ ہو گا اور نہ یہی درندے انسان بن سکیں گے۔ انہیں سدھارنے کے لیے ہمیں اب سامنے آنا ہوگا۔
ہمیں چاہئیے کہ ہم اپنے بیٹوں کی بھی ویسی ہی تربیت کریں جیسے کہ اپنی بیٹیوں کی کرتے ہیں۔ اپنے مردوں پر کڑی نظر رکھیں، ان کی کسی بھی غلطی کو لاابالی پن یا کھیل کود کہہ کر نظرانداز نہ کریں۔ یقین رکھیں کہ آج اگر ہمارے گھر کے مردوں سے کوئی دوسری عورت محفوظ رہے گی تو کل کو ہم بھی دوسرے گھروں کے مردوں سے محفوظ ہوں گیں۔