تحریر : وقارانساء
لیاقت آباد میں آنکھ کھولنے والے امجد صابری شہید آج لیاقت آباد چھوڑ کر ملک عدم سدھار گئے لیاقت آباد جہاں پر انہوں نے پیدائش سے لے کر دنیا سے رخصت ہونے کا وقت گزارا جس علاقے کو وہ کبھی چھوڑنا نہیں چاہتے تھے –آج اس گھر اور علاقے کو ھمیشہ کے لئے چھوڑ گئے-غلام فرید صابری کے فرزند امجد صابری نے اپنے والد کے بعد ان کے فن قوالی کو زندہ رکھا اور پاکستان سے باہر ملک کی پہچان بنے رہے –ثنا خوان مصطفی تھے۔
حمد اور مدحت مصطفی کرنے والے بے ضرر انسان- جن کی کسی سے کوئی دشمنی نہيں کوئی عناد نہيں جن کی گواہی کراچی اور کراچی سے باہر ہر پاکستانی دے رہا ہے – جو کسی پوش عاقے ميں رہنے کے بجائے ساری زندگی اسی علاقے ميں مقيم رہے سحری ٹرانسمشن کے بعد جاتے ہوئے ظالموں کے ظلم کا نشانہ بن گئے –اور اپنے معصوم بچوں کو لياقت آباد تنہا اور سوگوار چھوڑ گئے – لوگوں کی ان سے محبت کا يہ عالم آج سارا شہر کراچی لياقت آباد بن گيا ہے –نہ صرف کراچی شہر کے ہر علاقے نے ان سے محبت کا ثبوت ديا بلکہ سارے پاکستان اور بيرون ملک ہر پاکستانی لگتا ہے لياقت آباد کا ہی رہنے والا ہے۔
سارا ملک ہی بد امنی کا شکار ہے اور شہر کراچی بد ترين صورتحال سے دوچار ہے جہاں دن دھاڑے دہشت گردی کی وارداتيں ہو رہی –اور روشنيوں کا يہ شہر روشنی کی بجائے خون سے رنگين ہو رہا ہے –روز جنازے اٹھتے ہيں روز گوليوں کی آوازيں انسانی آوازوں کو ھميشہ کے لئے خاموش کر وا ديتی ہيں – کيا کوئی حل ہے اس ملک کوپر سکون بنانے کا ؟اس ملک کے باسيوں کو تحفظ دينے کا ؟ کيا اس بات کا کوئی ذمہ دار نہيں ؟ کہ اس ملک کے کسی عہدے سے انصاف کر سکے؟ جو عہدے ان کو اس ملک نے دئيے ہيں۔
اس ملک ہونے والا يہ کشت وخون اس کی روک تھام کيسے ہوگی- موت ہر مسلمان کے لئے عبرت ہے کہ يہ دنيا عارضی ٹھکانہ ہے ليکن کيا کيا جائے ان لوگوں کی بے حسی کا جنہوں نے شائد اس کو دائمی ٹھکانہ بنا ليا ہے –اور ہر وقت نگاہيں ملک کی سلامتی سے بڑھ کر اقتدار اور پھر اس ملک کو نوچنے کے لئے لگی ہيں – روز جنازے اٹھتے ہيں عوام روتی ہے دل تڑپتے ہيں ليکن ان سب کے دل نہيں تڑپتے –پتھر دل رکھنے والے يہ عہدے دار بھی سفاک ہيں –کوئی ايسا انسان نہين کہ عوام ککہ سکے يہ جان اور مال کا تحفظ فراہم کرے گا۔
اس ملک نے انہيں سب کچھ ديا اور بدلے ميں اس ملک کو کيا ملا ؟اس دھرتی ماں نے اپنے کتنے سپوتوں کے لاشے اپنی آغوش ميں لے اس ملک نے آج تک بے گناہ کوقتل کر دینے والے والے آج تک نہيں پکڑے نہ ہی کسی واقعہ کے بعد تفتيشی ٹيم کسی قتل کے ملزمان کو گرفتار کر سکی ہے – آج بڑے سیاستدان صحافی علمائے دين اور ملک کے اثاثے ڈاکٹر اور اعلی آفسير اس دنيا سے چلے گئے –تفتيشی ٹيميں آج تک حکيم سعيد عظیم طارق شکيل اوج مولانا يوسف لدھيانوی علامہ حسن ترابی کے قاتل دھونڈھ سکے ؟ عوام کو تھکی ہوئی حکومت نہيں چاہيے؟ اقتدار کو چمٹے مت رہيں اس کے تقاضے بھی نبھائيں- کوئی نوجوان قیادت کوئی مخلص انسان چاہتے ہيں جو اقتدار ملنے کے بعد سو نہ جائيں بلکہ اپنی ذمہ داری کو نبھائيں اس کی بہتری کے لئے کوشش کريں۔۔
دہشت گردی کے بڑے واقعات کے ساتھ عام شہری کی زندگی بھی محفوظ نہيں؟ لوگ ايک دوسرے کو عام باتوں پر موت کے گھاٹ اتار رہے ہيں اور کوئی قانون نہيں اور نہ ہی کسی کو ڈر ہے- خدارا اس ملک اور اس کے باسيون پر رحم کريں کيوں عدل اور انصاف کا کہیں گزر نہيں کيوں ايسے قانون نہيں بنائے جاتے جس کی سزا سے لوگ ڈريں؟ اس ملک کے اقتدار پر نظريں جمانے کے بجائے اپنی ذمہ داريوں کو محسوس کريں کيونکہ ہے ہر ايک اللہ کے سامنے جوابدہ ہو گا –اس ملک کے حالات کو ديکھيں-وہ عوام کو تحفط فراہم کرنے ميں ناکام ہيں – سکيورٹی اداروں کا کيا کام ہے۔
پوليس کا کام کيا بڑے لوگوں کا ہی تحفظ ہے – ھميشہ سکيورٹی کے الرٹ ہونے کی خبر ہوتی ہے ليکن واقعات ہو جاتے ہيں وہ امام بارگاہيں ہوں مساجد ہوں يا مجالس اور جلوس ہوں عوام کہیں محفوظ نہيں- آج امجد صابری کو سپرد خاک کر دينے کے بعد ہر آنکھ اشکبار اور ہر دل سوگوار ہے اور ہر ايک سوال کر رہا ہے کہ کب تک اپنے پياروں کو سپرد خاک کرتے رہيں گے ؟ آخر کب تک؟؟
تحرير : وقارانساء