counter easy hit

لیاقت آباد، تباہی کے دھانے پر

کراچی میں ابھی معمول سے کم بارش ہوئی اور لیاقت آباد میں تین منزلہ عمارت گر گئی۔ رات گئے گرنے والی عمارت کے ملبے میں دب کر 6 افراد جاں بحق ہوگئے۔ امدادی کارروائیاں دیر سے شروع ہوئیں کیونکہ لیاقت آباد کی تنگ سڑکوں میں بڑی گاڑیاں اور ایمبولینس و غیرہ آسانی سے نہیں جاسکتیں۔

بے ہنگم ہجوم کی بناء پر بھی امدادی کارروائیوںمیں رکاوٹ پیدا ہوئی۔کراچی کے ضلع وسطی کی انتظامیہ نے مساجد سے اعلانات کرائے کہ غیر متعلقہ افراد حادثے کی جگہ سے ہٹ جائیں مگر بہت کم لوگوں نے ان اعلانات پر توجہ دی۔ لیاقت آباد میں ہر سال دو سال بعد کوئی کمزور عمارت گرجاتی ہے اور کئی افراد جاں بحق ہوتے ہیں۔ حکومت تحقیقات کا اعلان توکرتی ہے مگر سب کچھ فائلوں میں گم ہوجاتا ہے۔

پاکستان بننے سے پہلے یہ علاقہ’ لالوکھیت‘ کہلاتا تھا جہاں دور دور تک کھیت پھیلے ہوئے تھے۔ ٹھٹھہ ملیر سے لی مارکیٹ جانے والی سڑک نیٹی جیٹی سے گزرتی تھی جہاں بلوچوں کا گوٹھ تھا۔گرومندر سے لیاقت آباد 10 نمبر تک سڑک تعمیر ہوئی۔ لیاقت آباد کی آبادی 1998ء میں ہونے والی مردم شماری کے اعدادوشمار کے مطابق 649,091 تھی جو اب بڑھ کر 10 لاکھ سے تجاوز کرگئی ہوگی۔ لیاقت آباد 11 یونین کونسلوںپرمشتمل ہے۔ پاکستان بننے کے بعد لالوکھیت کو لیاقت آباد کا نام دیا گیا اور جدید شہری منصوبہ بندی کے مطابق یہ علاقہ آباد ہوا۔ لیاقت آباد میں 90 گزکے پلاٹ تیار کیے گئے۔کہیں کہیں زمین کی صورتحال کی بناء پر یہ پلاٹ 100 گز پر مشتمل ہوئے۔ لیاقت آباد میں جدید سڑکیں تعمیر ہوئیں، بڑی سڑک تو ایس ایم توفیق روڈ ہے مگر لیاقت آباد میں گھروں کو ملانے والی سڑکیں بھی 30 فٹ چوڑی تھیں۔

لیاقت آباد جب آباد ہوا تو ہر 20 مکانات کوچھوڑ کر زنانہ اور مردانہ بیت الخلاء بنائے گئے اور ہر گلی میں پانی کا نلکا نصب کیا گیا۔ اس نلکے میں دن میں پہلے ایک پھر دو دفعہ پانی فراہم کیا جاتا تھا ۔ جب ایوب خان کے دور میں بی ڈی نظام نافذ ہوئے اور ہر حلقے سے کونسلر منتخب ہوئے تو پھر گھروں میں بیت الخلاء بنانے کا سلسلہ شروع ہوا ۔ پہلے بیت الخلاء پرانی نوعیت کے تھے، سیوریج کی لائنیں ڈال دی گئیں۔ پیپلزپارٹی کے پہلے دور میں گھروں میں پانی کے کنکشن دیے گئے، پھر ہر محلے میں قائم بیت الخلاء کی عمارتوں کا سلسلہ ختم ہوا تو بااثر افراد اور پولیس کی سرپرستی میں غنڈہ گردی کرنے والے افراد نے بیت الخلاء کی عمارتوں پر قبضے کرلیے۔ ان عمارتوں کورہائشی مکانات وغیرہ میں تبدیل کردیا گیا۔

جان عالم ایڈووکیٹ لیاقت آ باد میں پیدا ہوئے اور جوانی نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں گزاری، پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے، جنرل ضیاء الحق کے دور میں 1981ء میں گرفتار ہوئے۔ پی آئی اے کے اغواء شدہ طیارے کی رہائی کے لیے جن 52 سیاسی قیدیوں کو خصوصی طیارے میں دمشق بھیجا گیا تھا ان میں جان عالم بھی شامل تھے۔ جان عالم کو اقوام متحدہ نے بین الاقوامی شہری قرار دیا، انھیں ہالینڈ میں سیاسی پناہ مل گئی۔ جان عالم 1988 میں ملک واپس آئے اور لیاقت آباد کے آبائی مکان میں مقیم ہوئے۔

جان عالم بتاتے ہیں کہ لیاقت آباد ایک منظم علاقہ تھا اور یہاں مکان کی تعمیرکے لیے کے ڈی اے سے نقشے کی منظوری لینا ضروری تھا۔ نقشے سے ہٹ کر مکان تعمیرکرنے کا تصور نہیں تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ اگرکوئی شخص اپنے مکان کی گیلری میں بغیر اجازت توسیع کرتا تھا تو متعلقہ انسپکٹر نوٹس بھجوا دیا کرتا تھا، بیشتر گھر ایک منزلہ تھے۔ کچھ صاحب ثروت افراد نے کے ڈی اے کی اجازت سے دو منزلہ گھر تعمیر کیے۔ لیاقت آباد میں سرکاری اسکول وسیع وعریض رقبے پر پھیلے ہوئے تھے۔ ان اسکولوں سے کھیل کے میدان منسلک تھے۔ ان میدانوں میں کرکٹ، ہاکی اور فٹ بال کے مقابلے ہوتے تھے۔ ہاکی کے کئی نامور کھلاڑی ان میدانوں میں کھیل کر اولمپک مقابلوں تک پہنچے۔

90ء کی دہائی شروع ہوئی۔ ایم کیو ایم وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا حصہ بنی۔ لیاقت آباد میں بلڈر مافیا متحرک ہوگئی۔ 90گزکے پلاٹوں پر چار چار منزلہ عمارتیں تعمیر ہوئیں۔ بعض افراد نے اپنے پلاٹ کے دو حصے کردیے۔ اسی طرح 45 گز کے پلاٹوں پر کئی کئی منزلہ عمارتیں تعمیرہوئیں۔لوگوںنے اپنے مکانوں کی بالکونیوں میں اتنی توسیع کردی کہ سڑک چھوٹی ہوگئی۔

بلڈنگ کنٹرول کا عملہ اس صورتحال پر نامعلوم وجوہات کی بناء پر خاموش رہا۔ بیشتر افراد نے نقشہ منظورکرائے بغیر عمارتیں تعمیر کر لیں۔ اب جس پلاٹ میں ایک میاں بیوی اور 6 بچے رہتے تھے وہاں اس پلاٹ پر تعمیر ہونے والے ہر پورشن میں اتنے ہی لوگ آباد ہوگئے، پانی کا استعمال کئی گنا بڑھ گیا۔ اس کے علاوہ سیوریج کی لائنوں پر اتنا دباؤ بڑھا کہ وہ چوک ہوگئیں۔ بجلی کی مانگ کنڈے ڈال کر پوری کی  گئی۔ اسکولوں سے ملحقہ میدانوں میں پارٹی آفس بن گئے۔ یونین کونسل کے دفاتر قائم کردیے گئے۔ رینجرز نے جب لیاقت آباد میں آپریشن کیا تو یہ الزام لگایا گیا کہ بعض سرکاری عمارتوں میں ٹارچر سیل قائم تھے جہاں مخالفین پر تشدد ہوتا تھا۔

سیوریج لائن ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگی۔ لیاقت آباد کے مختلف علاقوں میں سیوریج کا پانی ، سڑکوں کا گندے پانی کے تالاب میں تبدیل ہونا معمول بن گیا۔ لوگوں نے پانی کی تلاش میں اپنے گھروں کے سامنے بورنگ کرائی۔ اس طرح پانی تو حاصل ہوا مگر پانی کھینچنے سے مکانات کی بنیادیں کمزور پڑنے لگیں۔ بورنگ کا پانی معیار کے مطابق نہیں ہے۔ اس بناء پر جگر،گردے، دل اورکینسر کے مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ اب حالات اتنے خراب ہوگئے کہ میت گاڑی اور ایمبولینس والوں نے اپنی گاڑیوں کو سڑکوں پر بھیجنے سے انکارکیا کیونکہ بڑی گاڑیوں کا موڑنا اور ریورس کرنا ناممکن ہوگیا۔اب لیاقت آباد ایسے بند علاقے میں تبدیل ہوگیا جہاں آنے جانے کے راستے نہیں ہیں۔ ہرگلی اور سڑک  گندے پانی کے جوہڑ میں تبدیل ہوجاتی ہیں جس کے نتیجے میں عمارتوں کے مخدوش ہونے کی شرح بڑھ گئی۔

2008ء سے سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ شدید انتظامی اور مالیاتی بحران کا شکار ہے۔ بلدیاتی عملہ فنڈ کی کمی کی بناء پر سیوریج لائنوں کی تبدیلی اور پانی کی لائنوں کے نظام کو ٹھیک کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ دو سال قبل بلدیاتی انتخابات میں لیاقت آباد سے ایم کیو ایم کے نمایندے کامیاب ہوئے۔ یہ بلدیاتی عملہ اختیارات اور فنڈز کے استعمال سے محروم ہے، یہی وجہ ہے کہ بلدیاتی نظام کے قیام کے باوجود بلدیاتی عملہ لیاقت آباد سمیت شہر کے حالات میں بہتری لانے میں ناکام رہا ہے۔

اب کراچی کے میئر اور سندھ حکومت کے مابین ٹکراؤکی صورتحال ہے۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے عملے کا کہنا ہے کہ لیاقت آباد گلیوں میں ان کے لیے کوئی آپریشن کرنا ممکن نہیں۔ لیاقت آباد کے عوام نے جمہوریت کی بحالی، طلبہ اور مزدوروں کے حقوق کے لیے لازوال قربانیاں دی ہیں۔ ایوب خان کی آمرانہ حکومت نے لیاقت آباد کے عوام کی جمہوریت پسندی کو کچلنے کے لیے طاقت کا بیہمانہ استعمال کیا۔

اسی طرح بھٹو حکومت نے بھی پولیس کی مدد سے لیاقت آباد کے عوام کی جرات پسندی کے جذبے کو کچلنے کی کوشش کی مگر لیاقت آباد کے عوام آمریت کے خلاف سینہ سپر رہے۔ اب لیاقت آباد پھر تباہی کا شکار ہے۔ لیاقت آباد کی سیاسی قیادت ایم کیو ایم کے پاس ہے۔ اس علاقے کے نوجوانوں نے ایم کیو ایم کے لیے جانیں قربان کی ہیں، لہٰذا ایم کیو ایم کی قیادت کا فرض ہے کہ لیاقت آباد سے تجاوزات ختم کرے، غیر قانونی عمارتوں کو مسمارکرنے، سیورج اور صاف پانی کی نئی لائنوں کی تنصیب کے لیے جدوجہد کرے تاکہ لیاقت آباد کی اصول شکل بحال ہوسکے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website