تحریر : صہیب سلمان
لیاقت علی خان 1895 ء میں نواب گھرانے میں پیدا ہوئے ان کی پرورش بڑے نازک ماحول میں ہوئی تھی لیکن اس کے باوجود خان صاحب میں کوئی نوابی کا اثر نہ تھا وہ انتہائی نرم طبعیت کے مالک تھے اور بااصول بھی تھے۔ انہوں نے تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ان کی بیوی بھی ان کے پیش پیش تھی۔ اپنی خدادا صلاحیتوں سے بہت جلد قائداعظم کے قریبی ساتھی بن گئے۔ قائداعظم بھی خان صاحب کا بہت احترام کرتے تھے۔ پاکستان معرض وجود میں آنے کے بعد قائداعظم پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بنے اور خان لیاقت علی خان پہلے وزیر اعظم بنے۔ 16 اکتوبر 1951ء میں خان لیاقت علی خان راولپنڈی میں گولڈن باغ میں جو آج کل لیاقت باغ کے نام سے مشہور ہے میں جلسے سے خطاب کر رہے تھے کہ ایک پاگل شخص نے خان صاحب کو گولی مار کر شہید کر دیا جو ایک بہت بڑا سانحہ تھا اس وقت تو قاتلوں کا پتہ نہیں چل سکا لیکن اس کی تفتیش جاری رہی۔
اسی طرح 17 اگست 1988 میں سانحہ بہاولپور میں اس وقت کے پاکستا ن کے صدر جنرل محمد ضیاء الحق کو طیارے حادثہ میں شہید کروایا گیا لیکن آج تک بھی ان کی شہادت کا کوئی پتہ نہیں چل سکا کہ یہ حادثہ کس نے کروایا اور کیوں ہوا؟27 دسمبر2007 ء میں پاکستان کی سابقہ وزیر اعظم کو سر پر گولی مار کر راولپنڈی لیاقت باغ میں قتل کر دیا گیا۔ ان کے قاتلوں کا بھی اب تک پتہ نہیں چل سکا۔ حالانکہ اُن کی پارٹی پانچ سال2008ء سے 2013ء تک ملک پاکستان پر برسراقتدار رہی لیکن وہ بی بی شہید کے قاتلوں کا پتہ نہیں لگا سکے۔ حالانکہ مطلوب وزایخ صاحب نے لکھا تھا کہ اگر بی بی شہید کا کیس صحیح طریقے سے لڑا جاء تو میں عدالت میں قاتلوں کا بتا سکتا ہوں اور انکی نشاندہی بھی کروں گا۔ اس لئے مطلوب صاحب کی خدما ت حاصل کرنی چاہیے اور جلد از جلد قاتلوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانا چاہیے تا کہ قوم کو بھی معلوم ہو کہ کون بی بی کے قاتل ہیں۔ تا کہ اس کشمکش سے نکلا جائے۔
ایک خبر کے مطابق خان لیاقت علی خان کے قتل کا معمہ حل ہو گیا ہے۔ خان صاحب کو اس وقت کے امریکی صدر بڑوسن نے افغانستان کی معاونت کے ساتھ قتل کروایا تھا اور جس نے گولی ماری تھی وہ سید آکبرنامی شخص تھا۔ اور دو سرے کو موقع پر ہی ماردیا تھا۔ یہ انکشاف اکبر کے اسسٹنٹ ڈیپارٹمنٹ نے کیا ہے۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی خبر کے مطابق اس وقت کے امریکی صدر ہیر ی؟؟؟؟نے فون پر وزیر اعظم لیاقت علی خان کو کہا کہ اپنے تعلقات استعمال کر کے اکبر؟؟؟؟قتل کا ٹھیکی مینجمنٹ امریکہ کو دلادیں بجائے اس کو ایران پر معاہدہ مغربی ملک کے ساتھ کر جس پر لیاقت علی خان نے جواب دیا کہ میں اپنے تعلقات کا ناجائز فائدہ نہیں اُٹھانا چاہتا۔ بعد میں خان لیاقت علی خان کو امریکی صدر کا ایک دھمکی آمیز فون موصول ہوا جس کے جواب میں خان لیاقت علی خان نے کہا کہ میں نہ تو کمزور آدمی ہوں اور نہ ہی دھمکیوں سے مرغوب ہونے والا ہوں۔ اس فون کال کے بعد خان لیاقت علی خان نے حکم دیا کہ وہ تمام امریکی طیارے جو پاکستان کے ہوائی اڈوں پر کھڑے ہیں چوبیس گھنٹے کے اندر اندر پرواز کر جائیں۔
16 اکتوبر 1951ء میں راولپنڈی کی کمپنی پانچ میں سید اکبر نامی شخص نے فائرنگ کر کے خان لیاقت علی کو شہید کر دیا اور بعد میں موقع پر ہی سید اکبر کو دو آدمیوں کے موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ آپ ملک کی تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں کہ پاکستان کے دو وزیر اعظموں ایک صدر کو قتل کروادیا گیا لیکن ان کا اب تک کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ آپ اس سے اندازہ لگائیں کے ہمارے ملک کے اداروں کا کیا حال ہے اور یہ کام کر رہے ہیں ان پر ہر سال اربوں روپے بجٹ لگایا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود ان اداروں کے پاس جدید ٹیکنالوجی کا فقدان ہے۔ اگر ہمارے ملک کی اہم شخصیات کا حال ہے تو عام آدمی کا کہا ہو گا اس کا پرسان حال کون ہو گا۔ خان لیاقت علی خان کے قاتلوں کا 64سال بعد پتہ چلا ہے وہ بھی امریکہ کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے انکشاف کیا ہے۔
تحریر : صہیب سلمان