تحریر: ایم سرور صدیقی
کئی دن تمام ہوئے طبیعت لکھنے لکھانے کی طرف مائل ہی نہیں ہو رہی ایک جمود سا طاری ہے عجیب سی وحشت۔۔سکون نام کو نہیں اضطراب ہی اضطراب ۔۔حالانکہ انشاء جی نے تو یہ کہا تھا
وحشی کو سکون سے کیا مطلب
جوگی کا نگر میں ٹھکانہ کیا
لیکن ہم جوگی ہیں نہ وحشی۔۔۔ پھر دل میں اس حد تک اضطراب کیسا؟ ۔۔۔سکون کیوں نہیں؟ شاید مزاج میں حساسیت بڑھ گئی ہے یا کچھ اور عوامل۔۔۔ عرصہ ہوا ٹی وی دیکھنا چھوڑ دیا کئی خبروں کی سنسنی اور ظلم کی داستانیں سن اور دیکھ کر نروس بریک ڈائون ہو جا تاہے تو اہلیہ کہتی ہیں سارا دن صم بکم پڑے رہنا ہے تو ٹی وی دیکھتے کیوں ہو؟ اب میڈیا سے تعلق ہے ہمارا باخبر رہنا بھی ضروری ہے اس لئے ٹی وی سے ناطہ سے توڑا بھی نہیں جا سکتا لیکن احتیاط لازم ہے آخر زندہ بھی تو رہنا ہے اکثر لوگ خیال کرتے ہیں کالم نگاری عام سی بات ہے کچھ ہمارے دوست مضمون لکھ کر سمجھ بیٹھتے ہیں کہ ہم نے تو اچھا بھلا کالم لکھ مارا ہے لیکن
دل کے بہلاوے کیلئے غالب یہ خیال اچھا ہے
والی بات زیادہ مناسب ہے کیونکہ بیشتر اخبارات میں لوگو کے ساتھ چھپنے والے90% مضامین ہی ہوتے ہیں ایک تنقید نگار کا فلسفہ ہے” مضمون لکھنا مکھی پہ مکھی مارنے والا کام ہے جو نقل کے لئے عقل کا بہتر استعمال کرنا جانتاہے وہ اتناہی اچھامضمون نگار بن سکتاہے”سوچے سمجھے معمولی ردو بدل کے لکھتے چلے جائیں آپ ایک اچھا مضمون لکھ سکتے ہیں کالم نگاری کے سو نخرے ہیں اس میں سیدھی بات کرنے کی بجائے بین السطور بہت کچھ کہاجا سکتاہے تشبیہہ،استعارے اور مثالیں کالم کی فصاحت اوربلاغت کا امتزاج بنتاہے تو قاری کوبے ساختہ کالم نگار کی ذہنی استعداد کا قائل ہونا ہی پڑتا ہے یقینا کالم نگاری۔۔ مضمون نویسی سے مشکل کام ہے زیادہ تر کالم حالات ِ حاضرہ پر لکھے جاتے ہیں ہلکے پھلکے اندازکے کالم زیادہ پسند کئے جاتے ہیں مزاح اور لطیف پیرائے میں مشکل سے مشکل اور سخت بات کہنے کا فن کالم نگار اچھی طرح جانتاہے ۔۔۔
مضمون کسی بھی موضوع پر لکھے جا سکتے ہیں اور اس کا کینوس بہت وسیع ہے اکثر مضامین خشک انداز میں لکھے جا تے ہیں آج کے پرآشوب ماحول، نفسا نفسی، معاشی ومعاشرتی مسائل کے باعث بیشتر لوگ کم متوجہ ہوتے ہیں دنیا بھر میں بہت سے لوگوں نے کالم نگاری میں نام کمایا ہے جو بڑی بڑی مراعات کے ساتھ ساتھ 6 ہندسوں میں تنخواہ پا رہے ہیں صدر، وزیراعظم سمیت حکومتی عہدیدار اور اپوزیشن رہنما بڑے بڑے ادارے ان پر نوازشات کر رہے ہیں ان کی دعوتیں کی جاتی ہیں بیش قیمت پلاٹ تحفے کے طور پر پیش کئے جاتے ہیں مختلف حکومتی عہدیدار انہی صحافیوں کو اپنے صوابدیدی فنڈسے لاکھوں کروڑوں بانٹتے رہتے ہیں اکثر اخبارات میں آتاہے فلاںصدر وزیر ِ اعظم یا وزیر ِ اعلیٰ نے اپنے پسندیدہ صحافیوں، سینئر کالم نگاروں اور اینکر پرسنز میں اپنے کروڑ بانٹ دئیے اسے لفافہ جنرنلزم کا نام دیا جاتاہے اب معروف کالم نگار مختلف چینل میں ایسے ایڈ جسٹ ہوگئے ہیں جیسے گھی اور شکر مکس ہو جاتے ہیں ان کو ملک کے ہر ادارے حتیٰ کہ حساس اداروں تک رسائی حاصل ہے جس سے ان کی طاقت، اختیارات اور وسائل میں بے پناہ اضافہ ہو گیاہے۔
اب تو یہ لوگ حکومتوں کو بھی بلیک میل کررہے ہیں اور اس طرح دولت کی دیوی ان پر بری طرح فریفتہ ہے اخبارات میں لکھنے والے99% قلم کاروں کو کوئی معاوضہ نہیں ملتا وہ بے چارے اپنے مضمون یا کالم چھپنے پر ہی اتراتے رہتے ہیں کسی بڑے اخباری ادارے یا حکومتی سطح پر ان کی پر موشن کے لئے کچھ نہیں کیا جاتاحالانکہ ان کے افکارسے روزانہ کروڑوں پاکستانی مستفید ہوتے ہیںحتیٰ کہ بڑے بڑے اخبارات ان کے کالم مضامین اورفیچر چھاپنا بھی گوارا نہیں کرتے جس سے چند سکہ بند ادیبوں، کالم نگاروں اورمضمون نویسی کی مخصوص اجارہ داری قائم ہے اخبارات ہوں یا نیوز چینل ہرجگہ وہی خاص چہرے دکھائی دیتے ہیں۔
انہی کے مخصوص نظریات کی چھاپ ہے پاکستان میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں لیکن ان کی رہنمائی کے لئے کوئی ادارہ نہیں جو شخص اینی خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے یا سفارش کے باعث مشہور ہو جاتاہے ان کو ہاتھوں ہاتھوں لیا جاتاہے بلاشبہ یہ ٹیلنٹ کا قتل ہے اور حکومتیں روکنے کی بجائے اس طرز ِ عمل کو فروغ دے وہی ہیں۔۔۔اللہ کا فرمان ہے سچ کو جھوٹ کے پردے میں نہ چھپائو۔۔۔ انصاف کے لئے حق کی گواہی پر ڈٹ جانے کا حکم بھی دیا گیا ہے لیکن ہم اپنے ارد گرد کا مشاہدہ کریں اخبارات ورسائل اور ٹی وی چینلز پر غور کریں تو احساس ہوتا ہے کیا صحافی، سینئر کالم نگار، اینکر پرسن یا پھر مضمون نگار اکثرو بیشتر جھوٹ کا کاروبار کررہے ہیں۔
یہ بھی ٹیلنٹ کا قتل ہے اور بدقسمتی سے جوجتنا بڑا جھوٹا ہے وہ اتنا ہی کامیاب ہے یہی وجہ ہے کہ دلوں میں اس حد تک اضطراب بڑھ گیاہے کہ اب سکون محال ہے سچ ہے دل کا سکون سچائی میں ہے جسے اکثر لوگ چھپاتے پھرتے ہیں صحافی، ہوںیاپھر کالم نگار، اینکر پرسن یا پھر مضمون نگار، ادیب ہوں یا شاعر سب پر اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ سچ کو جھوٹ کے پردے میں نہ چھپائیں اسی طرح ایک بہتر معاشرہ تشکیل پا سکتاہے اور شاید اسی طرح حقدار کو حق مل جائے اور ٹیلنٹ کا قتل ِعام نہ ہو۔
تحریر: ایم سرور صدیقی