تحریر: سید مبارک علی شمسی
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں پر لعنت کی ہے ان میں جھوٹے لوگ بھی شامل ہیں۔ جھوٹ ایک ایسی بدبختی ہے جس پر اللہ نے واضع لعنت کی ہے۔ ایک مرتبہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک صحابی نے عرض کیا کہ یارسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مومن میں کون کون سی برائیاں ہو سکتی ہیں۔ تو وہ صحابی جو بھی کہتا جس برائی کا بھی نام لیتا تو جوابا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اثبات میں سر ہلا دیتے جب بات طوالت اختیار کر گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا” مومن میں ہر خرابی ہو سکتی ہے سوائے جھوٹ کے” اس سے یہ اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ جھوٹ وہ عیب ہے جس سے ایک مومن کا ایمانی منصب چھن جاتا ہے۔ اس ایک عیب کی وجہ سے اسے مومن نہیں کہا جا سکتا۔ حضرت علی کا فرمان ہے کہ جو انسان صفائی سے جھوٹ بول سکتا ہے وہ بڑے سے بڑا ہر طرح کا گنا ہ بھی کر سکتا ہے۔
جدید دنیا کی ترقی ہے کہ ہم آئے روز کوئی نہ کوئی دن منا رہے ہوتے ہیں اور ہم سوچتے تک نہیں کہ ہم یہ دن کیوں منا رہے ہیںجن میں یوم محبت(ویلنٹائن ڈے) اور یوم جھوٹ (اپریل فول) سرفہرست ہیں جو کہ ہماری ثقافت اور اسلامی تہذیب کے برعکس ہیں کسی واقعے کو زندہ رکھنے کے لیئے اس دن کی یاد منائی جاتی ہے۔ آئیں اپریل فول کو تاریخ کے آئینے میں دیکھتے ہیں۔ اپریل لاطینی لفظ ” اپریس” یا اپرائر سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے پھولوں کا کھلنا ، کونپلیں پھوٹنا، قدیم رومی قوم موسم بہار کی آمد پر شراب کی دیوتا کی پرستش کرتی اور اسے خوش آمدید کہنے کے لیئے لوگ شراب پی کر اوٹ پٹانگ حرکتیں کرنے کے لیئے جھوٹ کا سہارا لیتے آہستہ آہستہ یہ جھوٹ اپریل فول کا ایک حصہ ملکر غالب حصہ بن گیا۔ انسائیکلوپیڈیا انٹرنیشنل کے مطابق مغربی ممالک میں یکم اپریل کو عملی مذاق کا دن قرار دیا جاتا ہے۔ اس دن ہر طرح کی ناجائز حرکات کی چھوٹ ہوتی ہے اور جھوٹے مذاق کا سہار ا لے کر لوگوں کو بیوقوف بنایا جاتا ہے۔
جب عیسائی افواج نے سپین کو فتح کیا تو اس وقت اسپین کی زمین پر مسلمانوں کا اتنا خون بہایا گیا کہ فاتح فوج کے گھوڑے جب گلیوں سے گزرتے تھے تو ان کی ٹانگیں گھٹنوں تک مسلمانوں کے خون میں ڈوبی ہوئی ہوتی تھیں۔ جب قابضین فوج کو یقین ہو گیا کہ اب اسپین میں کوئی بھی مسلمان زندہ نہیں بچہ ہے تو انہوں نے گرفتار مسلمان فرما روا کو یہ موقع دیا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ واپس مراکش چلا جائے جہاں سے اس کے آبائو اجداد آئے تھے قابض فوج غرناطہ سے کوئی بیس کلومیٹر دور ایک پہاڑی پر اسے چھوڑ کر واپس چلی گئی۔ جب عیسائی افواج مسلمان حکمران کو اپنے ملک سے نکال چکیں تو پھر حکومتی جاسوس گلی گلی گھومتے رہے کہ کوئی مسلمان نظر آئے تو اسے شہید کر دیا جائے جو مسلمان زندہ بچ گئے وہ اپنے علاقے چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں جا بسے اور وہاں جا کر اپنے گلوں میں صلیبیں ڈال لیں اور عیسائی نام رکھ لیئے۔ اب بظاہر سپین میں کوئی بھی مسلمان نظر نہیں آرہا تھا لیکن اب بھی عیسائیوں کو یقین تھا کہ سارے مسلمان قتل نہیں ہوئے۔ کچھ چھپ کر اور اپنی ثقافت چھپا کر زندہ ہیں اب مسلمانوں کو باہر نکالنے کی ترکیب سوچی جانے لگی اور پھر ایک منصوبہ بنایا گیا پورے ملک میں اعلان ہوا کہ 1 اپریل کو تمام مسلمان غرناطہ میں اکٹھے ہو جائیں تاکہ انہیں ان کے ملک بھیج دیا جائے جہاں وہ جانا چاہیں اب چونکہ ملک میں امن قائم ہو چکا تھا مسلمانوں کو خود ظاہر ہونے میں کوئی خوف محسوس نہیں ہوا۔ مارچ کے پورے مہینے میں اعلانات ہوتے رہے۔
الحمراء کے نزدیک بڑے بڑے میدانوں میں خیمے نصب کر دیئے سب جہاز آکر لنگر انداز ہوتے رہے مسلمانوں کو ہر طریقے سے یقین دلایا گیا کہ انہیں کچھ نہیںکہا جائے گا۔ جب مسلمانوں کو یقین ہو گیا کہ اب ہمارے ساتھ کچھ نہیں ہو گاتو وہ سب غرناطہ میں اکھٹے ہونا شروع ہو گئے اس طرح حکومت نے ان تمام مسلمانوں کو ایک جگہ اکٹھا کر لیا اور ان کی بڑی خاطر مدارت کیں یہ کوئی 500 سال پہلے کی بات ہے۔ جب مسلمانوں کو بحری جہاز میں بٹھا یا گیا مسلمانوں کو اپنا وطن چھوڑتے ہوئے بڑی تکلیف ہو رہی تھی مگر اطمینان تھا کہ جان بچ گئی ۔ دوسری طرف عیسائی حکمران اپنے محلوں میں جشن منانے میں مگن تھے جرنیلوں نے مسلمانوں کو الوداع کیا اور جہاز وہاں سے چل دیئے ان میں مسلمان بوڑھے، خواتین ، جوان، بچے اور کئی مریض بھی تھے جب جہاز سمندر(Sea) کے عین وسط میں پہنچے تو منصوبہ کے تحت (سوچی سمجھی سازش کے تحت) انہیں گہرے پانی میں ڈبو دیا گیا اور یوں وہ تمام مسلمان ابدی نیند سو گئے اسی دن کی یاد کو تازہ کرنے کے لیئے مغربی دنیا مسلمانوں کو بیوقوف بنانے کا عالمی دن مناتی ہے اور ہماری بیوقوفی کی وجہ سے مغربی دنیا نے آج بھی ہمیں بیوفوف بنا رکھا ہے۔ جن کو بیوقوف بنایا گیا وہ ابدی نیند سو گئے ہم تو زندہ ہیں ہم کیوں ان کے بہکاوے میں آکر بیوقوف بنتے جا رہے ہیں ان کے سامنے تو کوئی مثال نہیں تھی مگر ہمارے سامنے تو انکی مثال ہے یہاں مجھے جناب امیر علیہ السلام کا یہ قول یا د آتا ہے کہ عبرت کے مقامات تو بہت ہیں لیکن عبرت حاصل کرنے والے بہت کم ہیں سچ ہی ہے جو لوگ عبرت پاتے نہیں وہ عبرت کا نمونہ بن جاتے ہیں اور تاریخ ان کے لاشوں پر یہ عبرت آموز جملہ ثبت کرتی ہے کہ ” دیکھو مجھے جو دید ہ عبرت نگاہ ہو” آئیں ہم سب مسلمان متحد ہو کر مغربی دنیا کے کلچر اور انکے بیہودہ تہواروں کا بائیکاٹ کرتے ہوئے ایک سچا مسلمان اور عاشق رسول ۖ ہونے کا ثبوت دیتے ہیں اور یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم اسلامی تہذیب کے مطابق اپنی ثقافت کو اپنی ذات میںشامل کر لیں گے۔ انشااللہ
تحریر: سید مبارک علی شمسی
mubarakshamsi@gmail.com