تحریر : مریم جہانگیر
رات کا عمیق اندھیرا روشنیوں کو نگلنے کہ در پے تھا مگر فطری قمقموں یعنی چاند ‘ ستاروں اور برقی قمقموں نے شہر کے بیچوں بیچ بنے اس پارک کو روشنی کے ہالے میں مقید کر رکھا تھا۔ تقریباً رات کے دس بجے ایک ٹیکسی پارک کے آہنی دروازے کے سامنے آ کر رکی۔ ٹیکسی ڈرائیور کی پیشانی پر دن بھر کی تھکاوٹ مانند افشاں بکھری ہوئی تھی مگر طمانیت آنکھوں کے سرخ ڈوروں میں ہلکورے لے رہی تھی شاید اس کا سبب یہ تھا کہ وہ پیسے کیلئے پیٹ بھرنے کیلئے کوئی سواری لے کر پارک میں نہیں آیا تھا بلکہ اپنی جوان ہوتی دو بیٹیوں اورنصفِ بہتر کے ساتھ دن بھر کی تھکن اتارنے آیا تھا۔ رات کے اس پہر یہاں آنے کا مقصد شاید یہ بھی تھا کہ اس وقت داخلی دروازے پر چوکیدار صرف چوکیداری کرتا تھا اور آنے والوں کو ٹکٹ نہیں بیچتا تھا۔ لا اْبالی مگر حساس ماہین نے دھیرے دھیرے چلتے ہوئے داخلی سیڑھیاں عبور کیں اور نرم نرم گھاس پر اپنے پیر رکھ دئیے اس کے عقب میں بڑی بہن شاہین اور اسکی روز بروز کمزور پڑتی ماں دھیرے دھیرے باتیں کرتے چلے آ رہے تھے۔ عبدالرشید نے گاڑی پارکنگ میں کھڑی کی اور ان کے پاس آ گیا۔ پندرہ سالہ ماہین کے پیچھے چلتے چلتے وہ پارک کے نسبتاً سنسان گوشے میں آ گئے جہاں جھولے لگے ہوئے تھے۔ گھاس پر بیٹھ کر عبدالرشید انہیں دن بھر کی سواریوں کے قصے سناتا رہا۔ کسی برقعے والی کا قصہ جو عبدالرشید کو ڈر کے مارے گھوری جا رہی تھی۔
اس کی گھبراہٹ اس کے پہلی دفعہ تنہا ٹیکسی میں بیٹھنے کی چغلی کھا رہی تھی۔ ان بڑے میاں کا قصہ جنہیں بات سننے کیلئے کان کے آلے کی اشد ضرورت تھی مگر وہ اسے جیب میں رکھنا زیادہ مناسب سمجھتے تھے اور نتیجتاً دو جمع دو کا جواب آٹھ دیتے تھے۔ ابا وہ سامنے سے پانچ روپے والی آئسکریم تو لادو۔شاہین نے باپ سے خواہش کا اظہار کیا۔ آہ۔۔۔۔غریب بچوں کی غریب سی خواہش۔۔۔حساس بیٹیوں کے نازک جذبات اور ہاں احساس کرنے والے درد مند دل۔۔۔ عبدالرشید مسکرایا اور اْٹھ کر چل دیا۔ پارک سے باہر جہاں اونچی اونچی دوکانوں کے ساتھ کون آئس کریم والے کا کھوکھا نما ڈربہ ٹائپ ٹھکانہ تھا۔ عبدالرشید کے جاتے ہی ایک گیارہ بارہ سالہ بچہ ان کے پاس آ گیا۔ اس سردی کے موسم میں جب تن ڈھکنا اور ڈھانپنا کپڑوں کا مقصد نہیں ہوتا بلکہ جسم کو ٹھٹھرنے سے باز رکھنا اور گرم رکھنا اصل مقصد ہوتاہے۔ اسی سردی کے موسم میں وہ معصوم ننگے پیر تھا اس کے پاؤں میں جوتی نہیں تھی۔ کالے ‘ کھردرے پاؤں۔۔۔اسکی شفاف آنکھوں سے ذرا میل نہیں کھاتے تھے۔ شلوار قمیض میں ملبوس اس بچے کے ہاتھ میں ایک بیگ تھا اور ہاتھوں میں چند باسی نمکو کے پیکٹس چھوٹے چھوٹے ان لفافوں کو موم سے بنایا گیا تھا۔
اور پھر شعلوں سے بند کیا گیا تھا۔ یعنی جدید حفظانِ صحت کے اصولوں سے واضح انحراف۔۔۔۔قمیض پر بھی پیوند لگے ہوئے تھے۔ خاکستر ی رنگ کی قمیض اب قریب قریب کالی ہو چکی تھی۔ گردن پر میل کے نشان تھے ایسا گہرا میل جو شاید مانجھنے سے بھی نہ اترے۔ ہاتھوں پر پڑی کھردری لکیریں دور سے اس قدر واضح تھی کہ دیکھنے سے بھی وحشت ہوتی تھی۔ پپڑی جمے ہونٹ اسی لمحے ہلے تھے جب ماہین اسکا تفصیلی جائزہ لے رہی تھی۔ ”باجی جی لے لو پانچ روپے کا ایک پیکٹ ہے باجی لے لو”۔گڑ گڑاہٹ اور التجا سے ماہین کا دل پسیجا تھا مگر ماں کا تنبیہہ کرتا لہجہ گونج اٹھا ”ہمیں نہیں چاہئے۔”5روپے میں دو لے لو باجی’تم دو لے لو دیکھو آج صبح سے ایک بھی پیکٹ نہیں بیچ سکا۔میرے پیروں کو دیکھو سردی سے یخ ٹھنڈے ہو رہے ہیں۔ تمہارے پانچ روپے سے کوئی سستا سا جرابوں کا جوڑا لے لوں گا۔ جوتی تو پانچ روپے میں آ نہیں سکتی ”اس نے شاید اپنا ہی تمسخراْڑایا تھا۔۔۔”سنو تمہارا نام کیا ہے ؟”شاہین نے پوچھا ”نام ؟باجی نام کیا ہوتا ہے ؟باجی تم ہی لے لو ایک پیکٹ لے لو”۔ وہ شاید آگہی کی پست ترین سطح سے بھی نچلی زندگی بسر کر رہا تھا تبھی شناخت سے ناواقف تھا۔ ”تمہیں گھر والے کیا کہہ کر پکارتے ہیں ؟”اب کے ماہین نے سوال کیا ”باجی گْلو ”وہ شرمندہ سا ہو گیا شاید اپنی کم فہمی کا ادراک ہو گیا تھا اسے۔”چلو بھاگو یہاں سے ‘ ہمیں معاف کرو کہہ جو دیا نہیں چاہئے سمجھ نہیں آتا۔ کونسی زبان سمجھتے ہو۔گدھے کہیں کے الو کے پٹھے نہ ہو تو”۔اپنی بیٹیوں کی بڑھتی ہمدردی دیکھ کر کفایت شعار ماں کو اسے بھگانا ہی پڑا۔ عبدالرشید تب تک کون آئسکریمز لا چکا تھا۔ بیٹیوں کے منہ سوجے ہوئے تھے۔ باپ کے آتے ہی سارا قصہ حرف با حرف سنا دیا۔ عبدالرشید باہر نکلنے والا انسان تھا اور اسکی بیٹیاں صرف اپنے تین مرلے کے مکان سے مانوس تھی۔
تجربہ اور عمر انسان کو وہ کچھ سکھا ‘ پڑھا اور سمجھا دیتا ہے جو درس گاہیں لاکھ کوشش کے باوجود دماغ میں نہیں انڈیل سکتی۔ عبدالرشید وہاں سے اٹھا پارک میں تا حال موجود اس بچے کو تھاما اور بیٹیوں کے پاس لے آیا۔بیٹیاں خوش ہو گئی کہ شاید ننھے لڑکے کے پاؤں میں سردی لگنا کم ہو جائے گی اور انکی ماں تھوڑی سی خفا کہ یہ تو صرف پیسوں کا ضیاع ہے۔ ”ہاں بھئی تمہارے پاس جوتے نہیں ہیں ؟”عبدالرشید نے اسکا ہاتھ تھام کر پوچھا۔ نہیں جی اس نگوڑی سردی کا تو کوئی علاج نہیں ہے میرے پاس نہ ایندھن نہ کپڑا نہ رضائی نہ کمبل نہ جوتے نہ سویٹر’اب کے بچے کی آواز میں سرسراہٹ تھی کپکپاہٹ تھی۔ وہ اس بازو کو کسمسار رہا تھا جس میں وہ کالا سا بیگ تھاما رکھا تھا۔عبدالرشید نے آناً فاناً اس سے وہ بیگ جھپٹ لیا اور زپ کھول دی۔۔۔۔وہاں پر بیٹھے تین نفوس کی آنکھوں میں حیرانی اور ملامت تھی جبکہ جھوٹ کا احساس آنسو بن کر بچے کے گالوں پر بہہ رہا تھا اور عبدالرشید کی آنکھوں میں اطمینان تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ ایسا ہی ہو گا۔جوتوں کے 5,4جوڑے ان سب کا منہ چڑا رہے تھے دو بدرنگ جرابوں کے جوڑے بھی اپنی حالت زار پر شرمسار تھے جبکہ نمکو بکھری ہوئی پڑی تھی ان جوتیوں کے جوڑوں کے نیچے۔۔۔۔ماہین اور شاہین حیران تھیں کوئی اتنا جھوٹا بھی ہو سکتا ہے ؟وہ جو یہاں اس معصوم آنکھوں والے بچے کے پیچھے اپنی ماں سے ناراض ہوئے بیٹھی تھی اس بچے کا چہرہ کتنا مکروہ تھا۔ جھوٹ اور منافقت کی دلدل۔۔ دنیا۔۔۔۔وہ دنیا کا حصہ تھا۔منجھا ہوا کھلاڑی تھا۔ شناخت بتانے کی آگہی نہ تھی مگر مکروفریب کے کتنے گہرے جالے بْن لیتا تھا۔۔۔۔صرف پیسے کمانے کیلئے اس نے اپنے پاؤں کو سردی میں اکڑنے دیا ؟وہ اس کی سن ہوتی پیروں کی نمایاں رگیں جنہیں دیکھ کر رحم بجلی کے کوندے کی مانند ٹپک پڑتا ہے وہ رگیں مصنوعی تھی۔ وہ چاند نہیں تھا اندھیرا تھا۔گلو سے ان معصوم انسانوں کو گلہ ہو چکا تھا۔ گْلو بھی چہرہ پڑھنے کی صلاحیت رکھتا تھا وہ بے چارا ریت کی طرح پھسل گیا مصنوعی قلعے کی مانند ڈھے گیا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔
پپڑی جمے ہونٹوں کو آنسو تر کر چکے تھے مگر تشنگی تا حال تشنہ تھی۔ اس نے لب کھولے انسان تو انساں لگتا تھا کہ ماحول پر بھی سوگواریت چھا گئی ہے۔گل شیر نام تھا میرا ماں شیر کہہ کر پکارتی تھی۔ مائیں کہاں جانتی ہیں کہ جن کے نام وہ شیر عظمت بلند رکھتی ہیں انہیں دنیا کتنی پستی میں گرا دیتی ہے۔ بلوچستان کے بہت بڑے وڈیرے کے گاؤں میں رہتا تھا اپنے بڑے بھائی کے ساتھ۔ماں باپ کہنے کو تو ساتھ تھے مگر وڈیرے کے غلام اور وڈیرے کے چاکر نوکر کتنی دیر آزاد رہ سکتے تھے۔۔۔۔کتنی دیر اپنی زندگی گزار سکتے ہیں۔ میرے باپ نے ایک دن ایک بہت بڑی غلطی کر دی وڈیرے کے پالتو کتے کو باسی ہڈیاں ڈال دیں گناہ عظیم کر دیا (تمسخرانہ ہنسی) نتیجہ جانتے ہو کیا ہوا۔ اسی روز چند لمحوں بعد میرا بڑا بھائی اس کتے کا نوالہ بنا دیا گیا۔ ماں بن چادر کے روتی تڑپتی رہی۔ نو ماہ اسکی کوکھ میں پلنے والا بچہ ایک جنگلی کنے کا لقمہ بنا دیا گیا تھا۔ حادثہ ایسا تھا کہ ماں ہوش و حواس سے بیگانی ہو گئی۔ کتے کو دلار کرنے لگی کہ یہ میرا بچہ ہے اس کے جسم میں میرے بچے کا خون ہے (سسکیاں )باپ کے ضعیف ہاتھوں میں دوڑتی نسیں اسی لمحے بند ہو گئی۔ ایک دن باپ کی قبر پر سر پھوڑتی ماں بھی چل بسی۔ مجھے عزیزوں نے اٹھایا اور حادثوں کا شکار بنا دیا۔ ماں کے ممیرے یا چچیرے رشتہ دار تھے مگر میرے لئے سوتیلوں سے بھی بدتر ثابت ہوئے۔ مجھے فروخت درفروخت کیا گیا۔ سانحہ در سانحہ میرے بدن نے برتا۔ نجانے وہ میرا تیسرا مالک تھا یا دوسرا جس نے یہ حال کیا (وہ اپنے پیٹ سے قمیض ہٹا چکا تھا )اس کے پیٹ پر پڑے سگریٹ سے چلنے کے نشان انسانیت کا ماتم کر رہے تھے۔ ہاں ا یک وہ بھی تھا جو دن اور صبح کا کھانا دیتا تھا مگر اس لئے کہ رات کو میں خود اسکی خوراک بنتا تھا۔ کسی نے ہاتھ پاؤں توڑ کر مروڑ کر قمیض میں ایسے گھسا دئیے جیسے میں معذور ہوں اور سڑک پر بھیک مانگنے کیلئے کھڑا کر دیا۔ کسی نے دنوں فاقوں میں رکھا۔ یہ جومیری گردن پر میل کے نشان ہیںآنکھوں والا لڑکا اب عالم نظر آ رہا تھا )یہ میری بد نصیبی کی کہانی نہیں ہے یہ شروعات ہے اختتام تک پہنچوں تو شاید لفظ لہو رنگ ہو جائیں۔میرا مالک (تمسخرانہ ہنسی)ویسے تو اللہ ہے مگر اب کی بار جو مالک بناہے وہ فجر سے لے کر سورج طلوع ہونے تک دوڑ لگواتا ہے تا کہ میں تھکا ہوا لگوں پھر صبح ہوتے ہی مجھے سفید پاؤڈر چٹا کر اپنے ساتھ ہاتھ تھام کر لے جاتا ہے بھیک مانگنے۔ وہ اندھا بنتا ہے اور میں ہاتھ پھیلاتا ہوں۔ کسی کو میری آنکھوں کے سرخ ڈوروں پر رحم آ جاتا ہے
کوئی پسینہ پسینہ ہوئی پیشانی پر نگاہِ کرم ڈالتاہے۔ دوچار سکے لے کر اس کے پاس واپس آتا ہو تو وہ اپنی چھڑی میری ان آنکھوں پہ مارتا ہے کیل لگی چھڑی (اس نے درد سے آنکھیں سج لیں )میں نیچے گر جاتا ہوں منہ کے سامنے دو نہیں تو کم از کم ایک سکہ مزید گر جاتا ہے۔دوپہر تک یہ ڈرامہ چلتاہے پھر کسی شادی ہال کے باہر جا کر کھانے مانگنے والوں کی قطار میں لگنا پڑتا ہے۔ روٹی کتوں کی طرح گھسیٹ کر میں لاتا ہوں کھاتا وہ ہے ہاں کبھی دو چار نوالے مل جاتے ہیں۔ شام کو بوجھ ڈھوتا ہوں۔ کارخانوں کا فرنیچر اتنی بڑی ریڑھیوں پر لادا ہوتا ہے اور میں گدھا (تمسخرانہ ہنسی) اسے گھسیٹ رہا ہوتا ہوں۔ کبھی کیا کبھی کیا ‘ کام یا بیگار۔۔۔مشقت یا مصیبت۔۔۔۔آفت یا محنت۔۔۔جو بھی نام دیں میں وہی کر رہا ہوتا ہوں آپ کے نزدیک مشقت اور میرے لئے قیامت رات بھر یہ ڈیوٹی دینی ہوتی ہے اس نمکو کو بیچنے کی۔ اپنے ننگے پاؤں کا رونا رونے کی۔۔۔کچھ تو ایسے خدا ترس ملتے ہیں جو اپنے جوتے اتار کر دے دیتے ہیں یہ انہی محسنوں کی دیں ہے (اس نے بیگ کی طرف اشارہ کیا )اور کچھ ایسے بھی ملتے ہیں جو جوتا اتار کر منہ پر مارتے ہیں اور پھر دوبارہ اپنے پیر میں ڈال لیتے ہیں۔ اب آپ خود بتائیں میں کیا کروں میں کہاں جاؤں۔ مجھے دنیا سے جو مل رہا ہے میں دنیا کو وہی تو دے رہا ہوں میں اور کیا کر سکتا ہوں۔ ایسا نہ کرو تو زندگی چھین لے گا وہ ظالم۔۔۔۔۔(وہ رو دیا ‘ وہ سسک گیا وہ تڑپ ہی تو گیا )۔عبدالرشید اٹھا جیب سے دس دس کے تین نوٹ نکالے اور اٹھ کے چل دیا نوٹ پھینک کر۔ پیچھے پیچھے باقی تین ساکت نفوس بھی روتی بھیگی آنکھوں کے ہمراہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ گل شیر ماں کا شیر دنیا کا گلو روتا رہا۔۔۔۔نجانے کب تک آئینہ دیکھتا رہا اور لہولہان ہوتا رہا۔۔۔پارک کی نسبتاً پرسکون جگہ پر ایک معصوم انسان نجانے کب تک انسان ہو کر بھی انسانیت کا ماتم کرتا رہا۔۔۔۔وہ روتا رہا
تحریر : مریم جہانگیر