تحریر: محمد عتیق الرحمن
پاکستان صرف ایک ملک نہیں بلکہ ایک نظریہ ہے ۔ جس کا ثبوت بنگلہ دیش کی بھارت نواز حکومت نے امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش مطیع الرحمن نظامی کو پھانسی دے کرکیا ہے ۔دنیا میں ملک ٹوٹتے ہیں تو وفاداریاں بھی تبدیل ہوتی ہیں ۔ اسی طرح جب مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کوایک سوچی سمجھی سازش کے تحت علیحدہ کیا گیا تو پاکستان اور بنگلہ دیش کے نام پر ملک بنے ۔اور اس وقت پاکستان ،بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان یہ فیصلہ ہوا کہ 1971ء کے واقعہ میں ملوث کسی بھی فرد کو سزانہیں دی جائے گی ۔پاکستان نے اس فیصلے کو مانا اور اب تک اس پر کاربند ہے لیکن بنگلہ دیش نے تقریباََ39سال اس نفرت کو باہر نکالا ہے جو قیام پاکستان کے بعد بنگلہ دیش میں رہنے والے ہندوؤں ،غداروں اور بھارت نواز لابی نے بنگالیوں میں بھری تھی ۔
2010 ء سے بنگلہ دیش میں دوٹریبونل کام کررہے ہیں ،کہنے کو تو یہ ٹریبونل جنگی جرائم کے مقدمات کی سماعت کرتے ہیں لیکن آج تک انہوں نے سوائے پاکستان کے وفادار بنگالیوں کے کسی کو سزانہیں دی۔اب تک یہ ٹریبونل 18افراد کوجنگی مجرم قرار دے چکاہے جن میں سے 5افراد کو پھانسی دی جاچکی ہے ۔ ان پانچ افراد پر 1971ء میں غیروں کی سازشوں کاحصہ نہ بننے اور پاکستان کے وفادار رہنے کے جرم میں نام نہاد جرائم پرمقدمات چلائے گئے اور انہیں پھانسی دی گئی ہے ۔ان میں سے 4کاتعلق جماعت اسلامی سے ہے اور ایک کا تعلق نیشنلسٹ پارٹی سے ہے ۔بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کی اکثریت پاکستان سے محبت کی سزا کاٹ رہی ہے۔
’’میں رحم کی اپیل نہیں کرونگا ۔زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔اللہ نے شہادت قبول فرمالی تو اس سے بڑی خوشی اورکیا ہوگی‘‘۔ جب انہیں صدر کو رحم اپیل کرنے کا کہا گیاتویہ الفاظ نظریہ پاکستان کے پاسبان اور بنگلہ دیش کے امیر مطیع الرحمن نظامی کے تھے ۔ مطیع الرحمن نظامی جوکہ بنگلہ دیش کے وزیرزراعت (2001-2003)اوروزیرصنعت (2003-2006) بھی رہ چکے تھے ۔مولانانظامی کی پیدائش 1943ء میں ہوئی اس حساب سے ان کی عمر73سال بنتی تھی ۔ اس عمر بھی شہادت کی دعامانگنا ،رحم کی اپیل نہ کرنا اور نظریہ پاکستان پر قائم رہنا کوئی آسان کام نہیں تھا لیکن جب یہ چیزیں ایک نظریاتی انسان کے سامنے آتی ہیں تو ہیچ ہوجاتی ہیں اور وہ شہیدہوکر اپنانظریہ دوبارہ سے زندہ کرتاہے ۔مولانا نظامی پر16 مختلف الزامات لگائے گئے تھے۔
جن میں اجتماعی قتل وغارت گری ، لوٹ مار، زنا بالجبرجیسے بودے اور لچر الزامات بھی تھے جنھیں سن کر مخالف بھی جھوٹ قرار دیدے ۔کل کے عزتوں کے محافظ ،بنگالی بیٹیوں کی خاطر اپنے آپ کو قتل کروانے والے ،دن رات اپنے ملک کی سرحدوں کی حفاظت کی خاطر فوج کے ساتھ کھڑے رہنے والے ،بھارت کی سازشوں کوسمجھ کر اس کے خلاف عوام میں شعور پیداکرنے والے ،راتوں کو اٹھ اٹھ کر اللہ رب العزت سے دعائیں مانگنے والے کہ ’’اللہ ملک پاکستان کی حفاظت فرما ،بنگالی ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کی عزتوں کی حفاظت فرما‘‘اور سب سے بڑھ کر دوقومی نظریے کی بنیاد پر 47ء میں بننے والے ملک پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے محافظ آج کے لٹیرے،قاتل اور پتانہیں کیا کیا ٹھہرتے ہیں ۔مولانا نظامی کا جرم صرف اور صرف 71ء میں پاکستان کی حمایت کرنا اور بنگلہ دیش میں محب پاکستان جماعت کا امیر ہونا تھا۔
1971 ء میں جب بنگالیوں کی اکثریت بھارتی پروپیگنڈہ کے زیراثر اپنے ہی فوجی بھائیوں پر حملے کررہی تھی ،جب زبان کی بنیاد پر تقسیم کی راہ ہموارکرنے کی سازشیں عروج پرتھیں اور جب مکتی باہنی کے روپ میں بھارتی فوج مشرقی حصے میں قتل وغارت کررہی تھی ایسے میں محب وطن پاکستانیوں نے نظریہ پاکستان کی حفاظت کا ذمہ اپنے سر لیاتھا ۔شیخ مجیب اور بھاشانی کی پارٹی کے دفتر لاہور میں تو تھے لیکن اس خطے میں تین سے چار تھے ۔ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت کا ایک بھی فرد مشرقی پاکستان میں موجود نہ تھا۔مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں جماعت اسلامی وہ واحد سیاسی جماعت تھی جس کے دونوں حصوں میں دفاتر تھے اوران کے دفاتر پران کی جماعت کا نام بنگالی زبان میں نظر آتاتھا ۔اسلامی جمعیت طلبہ ہی تھی جس نے اپنے دفاتر کے باہر ’’اسلامی چھاترو شنگھو‘‘لکھاہوتا تھا ۔اسی وجہ سے بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی آج بھی پاکستان سے محبت کی سزا بھگت رہی ہے ۔بھارتی ایما ء پر بنگالی حکومت اور حسینہ واجد نے اپنے ہی ہم وطنوں پر ظلم وتشدد کا نازار گرم کیا ہوا ہے ۔
انصاف کے کٹہرے میں انصاف کو پھانسی کی سزا دیکھنی ہو تو بنگلہ دیشی عدالتیں دیکھی جاسکتی ہیں ۔مذکورہ جنگی ٹریبونل بنگلہ دیش کی موجود ہ حکمران جماعت حسینہ واجد نے تشکیل دی تھی۔ جماعت اسلامی اور اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش نیشلسٹ پارٹی (بی این پی) کا کہنا ہے کہ یہ اقدام ان کے قیادت کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔ان ٹرائل کورٹس پر انسانی حقوق کے لئے سرگرم تنظیموں نے نکتہ چینی کی ہے جب کہ ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت جنگی جرائم کے ٹریبونل کو اپنے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ انسانی حقوق کے بین الاقوامی تنظیم ’ہیومن رائٹس واچ‘ بھی کہہ چکی ہے کہ اس عدالت کا طریقہ کار بین الاقوامی معیار کے مطابق نہیں ہے۔
مولانا مودودی ؒ نے 26اگست 1941ء کو 70افراداور 75روپے کے ساتھ جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی ۔لیکن آج جماعت اسلامی کے ممبرافراد کی تعداد لاکھوں میں ہے ۔پاکستان میں سیاسی جماعتوں میں یہ واحد جماعت ہے جس کاکشمیر،فلسطین اور دیگر مقبوضہ مسلم علاقوں پر واضح موقف ہے ۔مقبوضہ جموں وکشمیر کے حوالے سے وقتافوقتا جماعت اسلامی پاکستان کی طرف سے ہونے والی کوششوں کو نہ سراہنا بے ایمانی ہوگی ۔دیگر سیاسی جماعتوں کی نظریاتی اساس کچھ بھی ہو ،کم ازکم جماعت اسلامی کے نظریات سے کم تر ہے کیونکہ بنگلہ دیش میں اسی نظریہ کی بنیاد پر جماعت اسلامی کے امیر ودیگر اراکین کو پھانسی پرچڑھایا گیاہے ۔جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے امیر مولانا نظامی شہید پرہونیوالی ناانصافی کی باز گشت ترکی تک سنی گئی ۔ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے جمعہ کے خطبہ سے خطاب کرتے ہوئے مولانانظامی ؒ کی سزائے موت کو غیر اخلاقی ،غیر اصولی اور غیر قانونی قراردیا اور بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد کوخط لکھا جس میں مولانانظامی ؒ شہید کی رہائی کامطالبہ کیا اور کہا کہ اس طرح کی منتقمانہ سوچ خطے میں نفرت پیداکرے گی ۔(یاد رہے کہ یہ بیان مولانانظامی شہید ؒ کی شہادت سے پہلے کاہے)۔جماعت اسلامی ودیگر جماعتوں کی طرف سے مولانا مطیع الرحمن نظامی شہید ؒ کی غائبانہ نماز جنازہ پورے پاکستان میں مختلف جگہوں پر ہوئی اور اہلیان پاکستان نے پاکستان کی محبت میں پھانسی کو چومنے والے نظامی شہید کو زبردست خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے سیاست دانوں کو آڑے ہاتھوں لیا ۔
سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان لیاقت بلوچ ، تحریک دعوت توحید کے مرکزی قائد میاں محمد جمیل، سینئر نائب ناظم اعلیٰ مرکزی جمعیت اہلحدیث علامہ محمد نعیم بٹ اور دیگر مذہبی وسیاسی سماجی رہنماؤں کا کہناتھا کہ انسانی حقوق کے ٹھیکیداروں کی طرف سے آواز نہ اٹھانا قابل مذمت ہے۔ انہوں نے حکومت پاکستان اور بعض مذہبی وسیاسی جماعتوں کی خاموشی کی بھی شدید مذمت کی۔امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے لاہور مال روڈ پر غائبانہ نماز جنازہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حسینہ واجد نے بھارتی ایماء پر پروفیسر غلام اعظم ،عبدالقادر ملا ،مطیع الرحمن نظامی اور دیگر افراد کو پھانسی دی ہے ۔حکومت وقت کی خاموشی پر ہم سب پاکستانیوں کو شدید افسوس ہے ۔
حکومت کو اس معاملے پر بنگلہ دیش سے بات کرناہوگی ۔پاکستان کو اس مسئلے کو عالمی فورم پر اٹھاناہوگا ۔ہم پاکستانی عوام ترک ،قطر ،اومان اور کویت کے حکمرانوں کاشکریہ اداکرتے ہیں جنہوں نے بنگلہ دیشی حکومت کواس معاملے کوروکنے کے لئے کہا۔ منصورہ میں جماعۃ الدعوہ کا وفد امیر جماعۃ الدعوہ پروفیسر حافظ محمد سعید کی سربراہی میں گیا اور امیر جماعت اسلامی سراج الحق اور دیگر جماعت کے اراکین کے ساتھ مولانامطیع الرحمن نظامی شہید ؒ کی شہادت پر تعزیت کی ۔امیر جماعۃ الدعوۃ پروفیسر حافظ محمد سعید نے مولانا نظامی شہید ؒ کی شہادت پرغم وغصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نظامی شہید کو پاکستان سے محبت کی سزادی گئی ہے ۔یہ پھانسیاں بھارتی شہ پر دی جارہی ہیں تاکہ بنگلہ دیش میں دوقومی نظریہ اور نظریہ پاکستان کوختم کیاجاسکے ۔حکومت پاکستان او۔آئی ۔سی اور سلامتی کونسل سمیت ہر فورم پران پھانسیوں کے خلاف آواز بلند کرے۔خاموشی اختیار کرنا کسی صورت درست نہیں ،ہمیں اپنے محسنوں کی قدر کرنی چاہئے۔
تحریر: محمد عتیق الرحمن