تحریر: فائزہ اسلم
بے رحمی سے ہی سہی کچھ بولا تو کرو فراز
چپ رہتے ہو تو نفرت کا گمان ہوتا ہے
تو عرض یہ ہے کہ کچھ لوگوں کے نزدیک زندگی رویوں کا نام ہے ایسے ہی میرے نزدیک بھی ہے۔ چلیں آپ بتا ئیں زندگی میں ہم اتنے سفر طے کرتے ہیں۔ کیا اچھی خبر سن کرہم اپنے اچھے رویے کا اظہار نہیں کرتے۔ کیا غمزدہ ماحول میں دل اور چہرے پر اداسی نہیں چھا جاتی‘کچھ پا لینے پر تسکین ملنا اور کچھ سوچ سوچ کر کھلکھلااٹھنا یہ سب ہمارے رویے ہیں اورکیا کریں ان حالات جس وقت ہماراغم غصے میں بدل جائے اور غصہ اس حد کو چھوجائے کہ نفرت کی بلندیوں سے واپسی کے سب رستے کھو جائیں پھر یا توخود مرجائیں یامار ڈالیں۔
منیرنیازی کیا خوب کہتے ہیں:
غیر سے جو نفرت پالی خرچ خود پر ہو گئی
جتنے ہم تھے ہم نے خود کو اس سے ادھا کر لیا
ہاں توبات ہورہی تھی نفرت کی۔ابھی حال ہی کی بات ہے میں نے عید کی خریداری کے لئے بازار کا رخ کیا۔رستے میں ایک بہت ہی پرانی دوست سے ملاقات ہوئی۔ماشاء اللہ شادی شدہ تھی ہم دونوں ہی مل کر بہت خوش ہو ئے۔میں نے پوچھا ”کیسی گزر رہی ہے‘سسرال میں خوش تو ہو“ ؟یہ سوال تھا اور اس کی بدلتی رنگت تھی۔
چہرے سے ہنسی غائب ہو گئی اور آنکھیں جھک گئیں۔جواب ملا ”میں اپنے گھر واپس آ گئی ہوں اور وجہ یہ تھی کہ میرے سسر مجھے پسند نہیں کرتے تھے۔میرے میاں نے بہت کوشش کی انھیں سمجھانے کی مگر ان کی ضد تھی سو ٹس سے مس نہ ہوئے اور لا محالہ میرے شوہر نے اپنی آخرت بچا ئی اور مجھے چھوڑ دیا“۔میں کچھ نہیں بول سکی‘کچھ تھا ہی نہیں بولنے کو۔یہاں تک کہ تسلی کے الفاظ بھی نہیں تھے۔رسمی سی بات چیت کے بعد وہ اپنے رستے کی طرف مڑ گئی مگر بعد میں سارا وقت اس کی ڈوبی ہوئی آوازکو ہی سوچتی رہی۔”سسر کو مجھ سے نفر ت تھی …..میرے شوہر نے اپنی آخرت بچائی …“
میں سوچنے لگی کہ کیا واقعی ہی ہماری ایسی روایات ہمارے اسلامی اقدار اور معاشرے کا حصہ ہیں؟ کیا واقعی ہی یہ بھی زندگی کے رویوں کا ایک اور بھیانک چہرہ ہے؟ کسی کو پسند نہ کرنا یا کسی سے اتنی نفرت کرنا کہ جب تک وہ تباہ و برباد نہ کر دیا جا ئے دل کو سکون نہیں ملتا۔چین کی سانس نہیں آتی اور آگ ٹھنڈی نہیں ہوتی۔میرا سوال یہ ہے کہ اس انتہائی حد تک پہنچنے کے بعد بھی کیا کسی کو سکون مل سکتا ہے؟ کیا واقعی ہی راتوں کو چین کی نیند مہیا ہو سکتی ہے؟وہ کہتے ہیں نا کہ اللہ نے تو نمازمیں بھی سجد ۂ سھو رکھا ہے۔بس یہ انسان ہی ہے جو انسان کو معاف نہیں کرتا۔
اپنے اردگرد نظر ڈالی جائے توایسے کتنے ہی لوگ ہیں جو نفرت جیسے رویے کو اپناتے ہوئے اپنی اور دوسروں کی زندگیوں سے سکون رخصت کر دیتے ہیں۔آخر ہمارے بیچ نفرتوں یہ سلسلے کن وجوہات پر پل رہے ہیں۔ان مسلوں میں قابل ذکرمعاشی تنگدستی‘ مایوسی‘جلن حسد‘جا ئداد کا حصول‘پسند نا پسند‘بے عزتی کا انتقام‘غصہ اور کم علمی ہے۔
انسان میں اپنی زندگی میں آنے والے معا ملوں اور مسلوں کے حل کیلئے کسی نہ کسی سمت پر سوچتا ہے۔کسی نہ کسی سے رجوع کرتا ہے۔مگر جب اسے کوئی حل نظرنہیں آتاتو وہ ما یوس ہوجاتاہے اور پھر یہ مایوسی نفرت میں بدل جاتی ہے۔وہ نفرت جو انسان کو خود سے ہوجائے اور پھر اسے دوسروں کی طرف منتقل کردے۔چودہ سو سال پہلے ہم ایک معاشرے کی تصویر کھینچیں تو ہمیں ایک ہی شخصیت کی مثال ملے گی جنھیں اللہ نے ”الرؤف“ سے پکارا ہے۔جو واقعی ہی اپنے نام کی طرح نرم دل‘مہربان اور درگزر کرنے والے تھے۔
جن کے گھر میں ہفتوں تک کھانا تک پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا جاتا تھا تو کیا انھوں نے معاشی تنگ دستی نہیں دکھائی۔ان کے پاس تو پوری دنیا کی حکومت تھی اور یہ حق بھی حاصل تھاکہ اپنے محبوب سے پوری دنیا مانگ لیں۔ مگر انھیں اس بات کی فکر ہی نہیں تھی۔انھیں اپنی امت عزیز تھی۔ کیا طائف اور قریش کے لوگوں نے ان کی بے عزتی نہیں کی تھی؟ گھر سے بے گھر نہیں کیا تھا؟ ان پر پتھر نہیں برسائے تھے؟پھر بھی انھوں نے اپنی طرف بڑھتے ہاتھوں اور زبان کا محبت سے مقابلہ کیا۔
کیا انھوں نے اپنی زندگی میں جذبات کو قابو میں نہیں رکھااور کوئی بھی اقدام کرنے سے پہلے دس بار نہیں سوچا؟اگرچہ آپ کی زندگی مصیبتوں اور مصائب سے بھرپورتھی پھر بھی آپ ﷺنے ہر کسی کو دعا دی کیونکہ یہی آپ ﷺ کی سب سے بڑ ی اور عزیم شان سنت تھی یعنی ”دلوں کو نفرت اور بغض سے پاک رکھنا۔“ایک ایسا دل جس میں کبھی کسی کے لئے نفرت نے جگہ نہیں لی۔جیسے ایک میان میں دو تلواریں نہیں سما م سکتیں اسی طرح دل میں بھی ایک ساتھ نفرت اور محبت کو جگہ نہیں مل سکتی۔
آج کے زمانے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر بڑے مسلے سے لے کر چھوٹے مسلے تک ہمیں اپنے رویوں پر نظر ثانی کرنی ہے۔میں یہ نہیں کہتی کہ نفرت نہ کریں کہ اس پر فوری اختیار نہیں مگر ”نفرت کیوں کریں“پہلے اس سوال کا جواب خود سے ما نگیں۔محض اس لئے کہ اس کے پاس گاڑی‘اچھی جاب ہے‘اچھا گھر ہے‘بہت آسائشیں اور سہولیات ہیں وغیرہ وغیرہ تو پھر میری آپ سے التجا ہے۔
کہ نفرت نہ کریں۔ اس نفرت کا آپ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا کیونکہ ان سب دنیاوی چیزوں کی ذمہ داری اللہ نے اٹھا رکھی ہے۔آپ کو اتنا ہی ملنا ہے جتنا آپ نے اپنے نصیب میں لکھوا لیا ہے۔اگر ایک منٹ کو رک کر سوچیں تو کیا فائدہ ایسی نفرت کا جو آپ کو اس ذات سے دور کردے جو آپ سے ستر ماؤ ں سے بڑھ کر پیار کرتا ہے۔نفرت کی انتہاؤں کو پہنچ کر کسی کو لفظوں سے قتل کرنا یا پھر کھنجر سے ایک ہی برابر ہے۔ہمیں تو انسانیت کو بچانا ہے جو صرف محبت سے ہی فتح ہوسکتی ہے۔اگر نفرت برائی سے کی جائے چاہے وہ چاہے وہ ہمارے اپنے اندر ہی کیوں نہ ہوتب ہی اسے مثبت اور درست کہا جا سکتا ہے۔
پھر نہ صرف ہماری سوچ کی سمت صحیح متین ہوگی بلکہ ہمارا رویہ بھی ہماری سوچ کی عکاسی کرے گا۔یاد رکھیے دوسروں پر ہم ایک انگلی اٹھاتے وقت اگر یہ سوچ لیں کہ باقی چار انگلیوں کا رخ ہماری طرف ہوتاہے تو ہم ایسا کرنا ہی چھوڑ دیں۔
یقین جانیے کہ پیرکامل کی ایک عظیم وشان عادت اپنانے سے ہم دوسروں کے ساتھ ساتھ اپنی ذات کو بھی بہت سے نقصانات سے بچا سکتے ہیں۔ ضرورت ہے تو پہلے نفرت کے بییج کو پہلی بار میں ہی دفن کرنے کی‘ضرورت ہے تو محبت کی طرف پہلا قدم اٹھانے کی ہے پھر اگلا قدم ہمارا اسی جہاں کے لئے جس کا اللہ نے ہم سے وعدہ کیا ہے۔جس قدم سے ہمارے فیصلے آسان ہو جائیں گے اور ہم کامیاب اور پرسکون زندگی گزار سکیں گے۔ محبت ہو کہ نفرت اسی سے مشورہ ہوگا‘میری ہر کیفیت میں استخارہ ساتھ رہتا ہے۔اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو اس ایک قدم کو اٹھانے کی توفیق عطا فرمائیں۔آمین
تحریر: فائزہ اسلم