تحریر: شاہ بانو میر
کرو مہربانی تو اہلِ زمین پر
خدا مہربان ہوگا عرشِ بریں پر
حکومتِ وقت کا فرض اولین ہے کہ سیاسی مفادات سے ہٹ کر رفاہ عامہ کے وہ کام کرے جو ایک حاکم کے طور پے اسلام ان پر فرض کرتا ہےـ حضرت عمر فرماتے تھے کھ فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا ہوا تو میں جوابدہ ہوں یہاں ایک لاکھ سے تجاوز کرتی ہوئی تھیلیسیمیا کے بچوں کی تعداد اور ان سے منسلک علاج معالجے کی سہولیات کا فقدان یہ کیسے اللہ کے حضور حاضر ہو کر اس کے قہر سے نجات حاصل کر سکیں گے؟ میں ایک ذہنی معذور بچے کی ماں ہوںـ کس قدر تکلیف ہوتی ہے جب وہ کسی چیز کی خواہش رکھتا ہے اور بول نہیں پاتا ـ کبھی ایک چیز کبھی دوسری چیز اس کے سامنے لاتی ہوں کہ شائد یہ والی چاہیے لیکن جب صرف “”” پانی “”” کو دیکھ کر اس کی آنکھوں میں زندگی کی چمک برق کی طرح کوندتی ہےـ
اس کے لبوں پر ملکوتی مسکراہٹ ابھرتی ہے تو اس کو تو پانی مل جاتا ہےـ لیکن ایک ماں کس کرب کس دکھ اور کس اذیت سے گزرتی ہےـ اس کا اندازہ اس ماں کے سوا کوئی نہیں لگا سکتاـ جس کا بچّہ کسی بھی ایسی تکلیف میں مبتلا ہو جو مستقل ہےـ کسی بھی اہم موضوع کیلیۓ بین القوامی ادارے کی جانب سے تاریخ مقرر کر کے اسکو پوری دنیا میں یاد دلایا جاتا ہےـ یہ دن بڑے ممالک میں تو اُن اداروں کی پورے سال کی محنت ریسرچ اور پھر نتائج کے بعد پچھلے سال کی نسبت کامیابی میں آگے دکھائی جاتی ہےـ
مگر ہمارے ہاں گھوسٹ ادارے گھوسٹ سیاستدان سوائے مانگنے کے اور کاغذوں کی خانہ پُری کیلئے ایک فائیو سٹار ہوٹل لیتے بے شمار مشہور افراد کو مدعو کرتے اور بین القوامی پروگرام کر کے میڈیا پر مشہوری کروا لیتےـ اور اگلے سال کیلیۓ مزید اسی اہم ایشو پرپھر مزید مدد کے نام پر لمبی مد میںلوٹ لیتے اور پیسے حاصل کر کے اپنے اکاونٹ بھر لیتےـ وہ مسئلہ اس سے وابستہ ضرورت مند ان کے مسائل سب ہوا میں تحلیل ہو جاتے ـ اور دوسرا دن ہوتا تو سب غائبـ
تھیلیسمیا خون کی موروثی بیماری جو وراثتی طور پے بچوں میں منتقل ہوتیـ کسی گھر میں بچے کی پہلی قلقاری خوشی کی نوید ہوتی ـ اس بچے کی مسکراہٹ فرشتوں کی یاد دلاتی قدرت کی اس حسین تخلیق پر ماں باپ نازاں اسی کی ذات کو اپنی ہر خوشی کا محور بنا لیتےـ سوچئے ایک لمحہ بچہ آپ کے پاس ہے سارے اعضاء مکمل ہیںـ اور پھر یہ روح فرسا انکشاف ہوتا ہے کہ یہ بچہ تو خون کی کمی کا شکار ہےـ
اگر کہیں کوئی باشعور حساس ایماندار خوف خدا پر مبنی نظامِ حکومت میں وہ لوگ ہوں جو ابو بکرصدیق عمر بن خطاب عثمان غنی اور علی کرم اللہ وجہة کا اندازِ فکر رکھتے ہوںـ تو ایسے بچے کی یدائش اس کا علاج حکومتِ وقت سنبھال کر والدین کے دکھوں میں کسی حد تک کم کر دیتےـ مگر افسوس آج پاکستان میں دیگر شعبہ جات کی طرح صحت کے شعبے میں سنگین مسائل سے پہلو تہی اختیار کر کے شعبدہ بازی کر کے ایسے بے روح بے مقصد شو جیسے سیمینارز ورکشاپس کا انعقاد نہ کرتے جومریضوں کیلیۓ کچھ نہیں کر رہےـ بڑے بڑے لوگوں کے ساتھ تصاویر کھچوا کر ہم اُن ایک لاکھ مریض بچوں کے ساتھ کیسا خوفناک مذاق کر رہے؟
سیمینارز ورکشاپس کا مقصد ہوتا کہ اس بیماری کو عوام میں عام کر کے بتایا جائے اسکی علامات کو اس کے علاج کے طریقہ کار جس میں ان کی جانب سے خون کا تحفہ ان کی کم ہوتی زندگی کو بڑہانے میں اہم مدد کر سکتا ہےـ سکول کالج میں یہ شعور بیدار کیا جائے اِور صحتمند خون دینے کیلیۓ انہیں مائل کیا جائے ایسے معلوماتی اصلاحی اور خیر کے پروگرامز کا انعقاد ان کی روح ہونی چاہیےـ معاشی عدم استحکام کا شکار یہ ملک جس کے پاس وسائل ہیں لیکن اوپر چور بٹھا دیے گئے جن سے ترسیل مطلوبہ جگہہ تک جا نہیں پا رہیـ والدین کیسے اس مہنگے اور مسلسل علاج کو پاکستان جیسے ملک میں جاری رکھ سکتے؟
علاج نہ ہونے کی صورت ان بچوں میں پیدا ہونےوالی پیچیدگیاں ان کے ساتھ ان کے گھر والوں کو کیسے ذہنی اذیت دیتی ہیں یہ امراء حرام کا مال جمع کر کے عیش کوش بننے والے کیا جانیں؟ جب سرپرستی حکومت کی ہو تو عوام اپنے سر پے مضبوط سایہ دیکھتے اور ہر تکلیف دکھ کو جھِیلنے کا حوصلہ بڑہا لیتے یہ نفسیاتی انداز ہےـ افسوس کہ حکومتِ وقت خواہ صوبائی ہو یا وفاقی انتہائی غیر سنجیدہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہے؟ دیگر اداروں میں توجہ جہاں جان کو خطرہ نہیں وہاں اربوں کھربوں کی مد میں لوٹ مار مچانے والے سامنے اگر ان کا احتساب ہو
یہی اربوں روپے ان بچوں کے درد کا درماں بن سکتے ان کے علاج معالجے کیلئے والدین بے فکر ہو جائیں تو وقت سے پہلے بوڑھے نہیں ہوں گے نہ ان کی سوچیں حوصلہ ناتواں ہوں گے دیگر ممالک کے مریض بّچے بچوں کی طرح یہ بھی حوصلے اور ہمت سے اس مرض کی تکلیف کو اسکی اذیت کو برداشت کر کے اپنے لئے اپنے ملک و قوم کیلیۓ اور اسلام کیلیۓ متوازن کردار ادا کر سکتےـ اگر پاکستان میں صحت کے محکمے کو ایدھی صاحب انصار برنی یا چھیپا صاحب جیسے لوگوں کی سرپرستی میں دیا جائےـ ان بچوں کو آپکے نمائشی پروگرامز کی نہیں آپکی جانب سے اصلی سچی کھری درست امداد کی ضرورت ہے کیا یہ حق نہیں رکھتے کہ زندگی کے لوازمات پر؟
کیا ان کا حق نہیں ہے کہ بطورِ ذمہ دار شہری کے پاکستان کیلۓ اپنی قابلیت کو بروئے کار لائیں کیا ان میں کئی قائد اعظم علامہ اقبال ڈاکٹر عبدل القدیر کئی جنرل راحیل کئی اور کامیاب شخصیات نہیں ہوں گی؟ خدارا !! تبدیلی خون کے نتیجے میں جسم کے اندر یکلخت فولاد کی مقدار کا بڑھ جانا جسم کیلیۓ زنگ کا باعث ہےـ اس کا جسم سے انخلاء بہت ضروری ہے جسے ایک صبر آزما انجکشن جو کا دورانیہ 12 گھنٹے ہے اس کی ضرورت ہے اس کی قیمت 200 روپے ہے جو دن میں تین بار چاہیے جس کی ماہانہ قیمت 20000 اور سالانہ 3 لاکھ روپے ہےـ
یہ ہے مقررہ قیمت اس طے شدہ طریقہ علاج تک وہ لوگ کیسے پہنچیں؟ جن کے 1 یا 2 یا 3 بچے اس موذی مرض میں مبتلا ہیں وہ کیا کھائیں کیا پئیں اور کیا زندگی کو گزاریں ؟ حکومتِ وقت سے التماس ہے کہ ان بچوں کی زندگی کی سنگینی کو سمجھ کر ان بچوں کی طرف ان کے گھر والوں کی طرف اشتہار بازی سے ہٹ کر مطلوبہ سہولیات مہیا کی جائیں جو ان کی مایوس خاموش بے بس زندگی میں امید کی کرن بن کر ابھرے اور یہ اپنی قابلیت سے استفادہ اٹھا کر پاکستان کیلیۓ معاون ثابت ہوںـ ہم سب کو باشعور قوم بن کر ایک کامیاب امت کو بلند حوصلے کے ساتھ تعمیر کرنا ہےـ
اللہ پاک تو کہتے ہی یہ ہیں کہ ہدایت پاؤ شعور آئے گا ار اس کے بعد انسانیت کا درد اجتماعی سوچ بن کر ایک کامیاب مضبوط گروہ تشکیل دے گا جو اللہ پاک کے نائب کی حیثیت سے اس کی شریعت کو اسکی حاکمیت کو دنیا میں نافذ کرے آئیے ان بچوں کے درد کو مسائل کو جان کر اپنی مدد کا ہاتھ وسیع کریں ایسے اداروں کو ایسے لوگوں کو سپورٹ کریں جو انسانیت کیلئے اس محاذ پے کھڑے ہیں یہاں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آیان علی قسم کی خواتین کو آپ جامع میں لیکچر دلوانے بھیجتے ہیں کیونکہ ان کے پیچھے تگڑے لوگ موجود تو کیا ہم سب ایسے لوگوں کو بھی سپورٹ نہیں دے سکتے جو واقعی ایک ایسا مقصد اپنا کر جہاد کی مانند نکلے ہیں جس سے قوم کا بھلا نسل کا بھلا اور ملک کامیاب قرآن پاک کہتا ہے سورہ التوبة میں
اللہ کی راہ میں نکلنے والے مال سے جان سے جہاد کرتے آئیے آج کے جھاد کو سمجھیں جان بچائیے خوشیاں بانٹیے اپنی دنیا میں آمد کے مقصد کو سمجھیں مدد کریں پیسے سے خون دے کر رضاکار بن کر معلومات پہنچا کر کیونکہ کبھی خون کیلیۓ بھاگ دوڑ کبھی فولاد کے انجکشن کی فکر کبھی دیگر پیچیدگیاں اور اس پیٹ کو بھرنے کی فکر سب سے بڑی اور اہم؟ کیسے کر رہے ہوں گے آئیے ان کے درد کو محسوس کریں اور عملی طور پر ان کیلیۓ انفرادی حیثیت میں جو بن پڑے وہ کریں آزمائش کے شکار ان بچوں اور ان کے خاندانوں کیلیۓ زندگی ایک جہدِ مسلسل کے سوا کچھ نہیں؟ جزاک اللہ الخیر
تحریر: شاہ بانو میر