لاہور (انتخاب : شیر سلطان ملک ) کیا واقعی زندگی، ہماری زندگی مختصر ہے؟ اس کا جواب آج سے دو ہزار سال پہلے ایک فلسفی نے دیا، اس کا نام سینیکا تھا، یہ روم کے شہنشاہ نیرو کا اتالیق تھا، وہی نیرو جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب روم جل رہا تھا نامور کالم نگار یاسر پیرزادہ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ تو نیرو وائلن بجا رہا تھا (بانسری غالباً رومیوں کا ساز نہیں تھا) سینیکا نے فلسفے کے موضوعات پر درجن بھر مقالے قلم بند کیے اور اخلاقیات پر ایک سو چوبیس خطوط لکھے، اُس کے ایسے ہی ایک مضمون کا عنوان ہے ۔ ہم سب کو لگتا ہے کہ زندگی بہت تھوڑی ہے اور اس میں ہمیں بہت کچھ حاصل کرنا ہے، وقت کم ہے اور مقابلہ سخت ، شروع کے بیس پچیس سال تو اسکول کالج میں ہی گزر جاتے ہیں، اس کے بعد نوکری کی تلاش، کاروبار کی شروعات اور فکر معاش ہمارے چار پانچ برس کھا جاتے ہیں، کبھی کبھی تو اس سے بھی زیادہ، اسی بیچ کہیں شادی ہو جاتی ہے، پھر بچے ہو جاتے ہیں اور اس کے بعد باقی کی زندگی بچوں کی تعلیم اور ان کے مستقبل کی فکر میں گزار دی جاتی ہے، یہ سب پلک جھپکنے میں گزر جاتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ عمر تو ساٹھ برس ہو گئی اور کیا کچھ بھی نہیں، سوچا تو یہ تھا کہ دس پندرہ برس محنت سے پیسے کمائیں گے اور اس کے بعد اطمینان سے زندگی گزاریں گے مگر وہ دس پندرہ برس کبھی ختم نہیں ہوتے، وہ اطمینان کی زندگی کا وقت ہی نہیں آتا، الٹا اپنے جانے کا وقت آجاتا ہے۔ تو کیا واقعی زندگی ایسی ہی مختصر ہے؟ سینیکا کا کہنا ہے ’’نہیں‘‘۔ اصل میں ہم میں سے زیادہ تر لوگ اپنی زندگی معمولی باتوں کی نذر کر دیتے ہیں اور ہمیں اس کا احساس بھی نہیں ہو پاتا۔ فون پر گھنٹوں بے معنی گفتگو کرنا، بے مقصد ٹی وی کو گھورتے رہنا، فضول پوسٹس دیکھ دیکھ کر وقت ضائع کرنا یا اُن لوگوں کے ساتھ وقت بِتانا جو آپ کی زندگی میں کوئی معنی نہیں رکھتے۔ یہ تمام حرکتیں کرنے کے بعد ہم کہتے ہیں کہ زندگی بہت مختصر ہے جبکہ سچ یہ ہے کہ ہم خود اسے مختصر بنا دیتے ہیں۔ دوسری غلطی ہم لوگ یہ کرتے ہیں کہ اپنی پوری زندگی طاقت اور مقام حاصل کرنے میں لگا دیتے ہیں، یہ سوچ کر کہ جب ہم زندگی میں کوئی رتبہ حاصل کر لیں گے تب ہماری ’’لائف سیٹل ہو جائے گی‘‘۔۔۔ ایسا نہیں ہوتا-۔۔۔ ہوتا یہ ہے کہ ہماری زندگی مستقبل کا کوئی نہ کوئی مقصد حاصل کرنے میں بیت جاتی ہے اور اس چکر میں ہم اپنا حال بھی گنوا بیٹھتے ہیں، vہم اپنی پوری زندگی مسلسل زندگی کی تیاری میں گزار دیتے ہیں حتیٰ کہ مرنے کے بعد بھی ہمیں اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ لوگ ہمیں کیسے یاد رکھیں گے- تب تک زندگی ختم ہو چکی ہوتی ہے۔ زندگی میں آسودگی کی خواہش رہنی چاہیے اور اس مقصد کے لیے کوشش بھی کرنی چاہیے مگر اس بات کا خیال رہے کہ زندگی کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے، یہ زندگی فیس بک پوسٹس پر دل جلانے کے لیے نہیں، آج سے تیس چالیس برس بعد جب ہم مڑ کر دیکھیں گے تو شاید سوچیں کہ جتنا وقت ہم نے فضول کاموں میں خرچ کیا اگر علم کے حصول میں خرچ کرتے تو اطمینان بخش ہوتا۔ اب بھی دیر نہیں، اپنی پسند کا دانشور یا فلسفی تلاش کریں، اس کی کتابیں پڑھیں، اس سے علم سیکھیں، اس کی دانش سے استفادہ کریں، خود کو بہتر انسان بنانے کی کوشش کریں، خدا موقع دے تو دنیا دیکھیں، زندگی کے ہر پل کا بھرپور انداز میں استعمال کریں، پھر دیکھیں اس ’’مختصر‘‘ سی زندگی میں کیا کچھ نکلتا ہے۔وسوسوں اور اندیشوں سے بھری زندگی کا کوئی فائدہ نہیں اور زندگی کو پُرکیف اور آسودہ بنانے کا کوئی ایک فارمولا بھی نہیں، ہر شخص کا ذہن دوسرے سے مختلف ہوتا ہے، کسی کو کتابیں پڑھ کر فرحت ملتی ہے تو کسی کو ورزش سے سکون ملتا ہے، اپنا راستہ خود تلاش کریں جس میں آپ کو فرحت ملے مگر انسانیت کی بھلائی مقدم رہے، اپنے وقت کی بچت ایسے کریں جیسے کوئی بنیا اپنے پیسے بچا کر رکھتا ہے، کسی فضول چیز پر خرچ کیے ہوئے دس ہزار آپ دوبارہ بھی کما سکتے ہیں مگر کسی فضول کام میں صرف کیے دو گھنٹے آپ کبھی واپس نہیں لا سکیں گے۔ آج کے دن کا کھاتا کھولیں اور حساب لگائیں آپ نے کتنا وقت ضائع کیا اور کتنا کسی مفید کام میں صرف کیا، آپ کو خود ہی اندازہ ہو جائے گا کہ زندگی مختصر ہے یا ہم نے اسے مختصر بنا دیا ہے! کالم کی دُم:سینیکا کی اپنی زندگی ناقابل یقین انداز میں ختم ہوئی، اُس پر الزام لگایا گیا کہ اُس نے نیرو کو قتل کرنے کی کوشش کی ہے، نیرو نے اِس جرم کی پاداش میں سینیکا کو اپنی جان خود ہی ختم کرنے کا حکم دیا، روایت کے مطابق سینیکا نے اپنی خون کی نسیں کاٹ دیں اور پھر گرم پانی کے ٹب میں لیٹ گیا تاکہ خون جلد بہہ جائے اور تکلیف کم ہو مگر گرم پانی کی بھاپ سے اُس کا دم گھٹ گیا اور جان نکل گئی۔ زندگی عجیب ہے اور موت اُس سے بھی عجیب