تحریر : میر شاہد حسین
پانچ چھ فٹ کا انسان کہ جس کی زندگی خود اس کے اختیار میں نہیں… جو خود اپنی مرضی سے وجود میں نہیں آیا اور نہ اپنی مرضی سے ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہ سکتا ہے… جس کی اگر سانس رک جائے تو وہ اسے بحال نہیں رکھ سکتا… لیکن یہی پانچ چھ فٹ کا انسان کہیں خدائی کا دعویدار بن کر کھڑا ہے تو کہیں جانور سے بھی بدتر زندگی بسر کررہا ہے۔بظاہر اس کا کوئی دشمن نہیں لیکن یہ خود اپنا بہت بڑا دشمن ہے۔ چاند پر قدم رکھ کر کائنات کی کھوج کرنے والا انسان آج خود اپنے دل میں چھپے خدا سے بھی محروم ہے۔اسے کس نے پیدا کیا ہے؟ اور کیوں پیدا کیا ہے؟ جب دنیا کا کوئی کارخانہ خود بخود وجود میں نہیں آتا تو اتنی بڑی دنیا کا کارخانہ کیسے وجود میں آگیا ہے اور صرف یہی نہیں کہ وجود میں آگیا ہے بلکہ مستقل مزاجی سے چل رہا ہے۔ یہ سورج جو اپنی جگہ سے ایک انچ بھی ہٹ جائے تو کوئی ایسی قوت نہیں جو اسے اپنی جگہ پر لا سکے۔ یہ آسمان جس کی بلندیوں کو ہماری آنکھیں روز دیکھتی ہیں جو حد نگاہ تک پھیلا ہوا ہے کوئی اسے آج تک چھونا تو درکنار اس کا احاطہ بھی نہیں کرسکا۔اسی آسمان پر پھیلے یہ ان گنت ستارے جو ہمارے سورج سے بھی کئی گنا بڑے ہیں ،لیکن اپنی حقیقت روز آسمان پر ہمارے سامنے عیاں کرتے ہیںکہ وہ کچھ بھی نہیں کہ ایسی کئی کہکشائیں ہیں جہاں پہنچنے کے لیے ہم وقت کی قید میں ہیں۔
اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں
اس جیسی کتنی ہی حقیقتیں ہیں جو ہمارے آس پاس بکھری ہوئی ہیں لیکن ہماری عقل ماؤف ہے اور نظر خیرہ ۔ دیکھنے والوں کو آسمان کی طرح سب کچھ نظر آرہا ہے لیکن نہ دیکھنے والے آسمان کی تلاش میں نکل کر بھی آسمان تک نہیں پہنچ پائے۔ ہمارے پاس سوچنے اور سمجھنے کیلئے بہت وقت ہے لیکن ہم سوچنے کیلئے قطعاً تیار نہیں ۔ یہی سوچ کا جمود انسان کو جانوروں سے مشابہہ کر رہا ہے۔ ہماری زندگی کی گھڑی الٹی گنتی چل رہی ہے اور زندگی برف کی مانند پگھلتی جا رہی ہے۔ ظاہر کو ہی سب کچھ سمجھنے والے اسی زندگی کو سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں۔اگر یہی سب کچھ زندگی ہے اور موت کے بعد کچھ نہیں تو بہت اچھا رہا وہ جس نے دنیا کی مال و متاع کو ہر جائز و ناجائز طریقے سے حاصل کیا۔لیکن اگر ایسا نہیں جیسا کہ نظر بھی آتا ہے تو پھر کیا بنے گا اس انسان کا جس نے اپنا سارا وقت ضائع کر دیا ۔ انسانی عقل کہتی ہے کہ خدا کے مان لینے میں کوئی نقصان نہیں لیکن نہ ماننے میں سراسر نقصان ہے۔
اگر خدا کو مان لیا جائے تو پھر اس کی خدائی بھی خود بخود نظر آنا شروع ہوجاتی ہے۔یقینا جب اس نے پیدا کیا ہے تو کوئی نہ کوئی مقصد بھی رہا ہوگا۔میں یہ بات کیسے مان لوں کہ جب دنیا میں کوئی چیز بھی بغیر کسی مقصد کے نہیں تو ہم بے مقصد ہی دنیا میں آئے ہوئے ہیں۔سورج، چاند، ستارے اور اس دنیا کا ذرہ ذرہ اس بات کی دلیل ہے کہ کوئی چیز بے مقصد پیدا نہیں کی گئی۔ قدرت کے اس کارخانہ میں اگر غور کریں تو کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کارخانہ کو بگاڑنے کا اختیار رکھتی ہے۔ اگر کوئی اس کارخانہ میں بناؤ بگاڑ کا سبب بن رہا ہے تو وہ یہی انسان ہے۔ ہر جانداروبے جان اپنے اپنے دائرہ میں قید ہے۔ شیر شکار کرتا ہے تو صرف ایک جانور کا اور اپنی بھوک مٹانے کے بعد بلاوجہ کسی پر حملہ نہیں کرتا۔ اسی طرح ہر جاندار اپنے اپنے دائرہ میں اپنا اپنا کام کرتے ہیں۔ آج تک ہمارے مشاہدہ میں ایسی کوئی بات نہیں آئی کہ کسی جاندار مثلاً کوے نے پائپ سے پانی پینا شروع کر دیا ہو۔ مچھلیوں نے پانی سے نکل کر زمین پر بھی رہنا شروع کر دیا ہو وغیرہ وغیرہ۔
لیکن یہ بات مشاہدہ میں ہے کہ انسان نے اپنے غصہ کو ٹھنڈا کرنے کیلئے کئی انسانوں کو شکار کر لیا ہو۔ انسان نے ہوا میں اڑنا اور پانی کے اندر جانا شروع کر دیا۔ اس کے پیدا کردہ دھوئیں سے ماحول میں تبدیلی واقع ہونے لگی۔ انسان کے پاس یہ اختیار کس قدر ہے کہ وہ جو چاہے کرتاپھرے۔ کیا دنیا بنانے والے کو اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ وہ اپنی دنیا کی حفاظت کرے۔ بظاہر تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اسے کوئی پرواہ نہیں ہے جو چاہے کوئی کرتا پھرے۔ لیکن اگر سوچیں تو پھر یہ آزادی کچھ محدود سی دکھائی دینے لگتی ہے۔دنیا کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب کوئی قوم یا انسان دنیا کے وجود کیلئے خطرہ بنا اس خدا کا قانون حرکت میں آیا اور کئی نمرود ، ہٹلر اور چنگیز خان کھوپڑی کے انبار لگانے کے بعد تاریخ سے اس طرح ختم ہوگئے کہ جیسے کبھی تھے ہی نہیں۔
اب اگر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ وہ رب العالمین انسانوں سے بے انتہا محبت کرتا ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ کبھی کا اس دنیا کو ختم کردیتا ۔ جس طرح ایک ماں اپنے بچے سے محبت کرتی ہے اور پھر اس کو غلط بات پر سرزش بھی کرتی ہے اسی طرح وہ پیدا کرنے والا خدا ستر ماؤں سے زیادہ بڑھ کر محبت کرتا ہے۔ بے لوث اور بے غرض محبت!! وہ بھی کبھی کبھی ہماری سرزش کرتا ہے کہ ہم صراط مستقیم پر آجائیں ۔ لیکن ہم بگڑے ہوئے بچے کی طرح اپنے دنیا کے کھلونوں میں کچھ اس قدر گم ہوجاتے ہیں کہ اس خالق سے اس قدر غافل ہوجاتے ہیں کہ جیسے خود ہی پل بڑھ کر اتنے بڑے ہوگئے ہیں۔
پھر جب وہ خالق اپنی طرف متوجہ کرنے کیلئے کبھی ہمارے ہاتھ سے ہمارے کسی عزیز (کھلونے) کو چھین لیتا ہے تو ہم گڑگڑا کر اس سے شکوہ کرنے لگتے ہیں۔ اس پر ہمارا کوئی بس نہیں چلتا ۔لیکن پھر بھی اس نے کبھی ایک لمحہ کیلئے بھی ہمیں تنہا نہیں چھوڑا … وہ ہماری طرف متوجہ ہے لیکن کوئی اسے پکارے تو سہی۔ کبھی وقت ملے تو تنہائی میں ایک بار… صرف ایک بار اسے سچے دل سے پکار کر تو دیکھئے … پھر بتائیے گا کہ خدا ہے کہ نہیں؟…پھر وہ بتائے گا زندگی کیا ہے…؟؟
تحریر : میر شاہد حسین