تحریر: علی عمران شاہین
دنیا بھر میں مظلوم و مجبور مسلمانوں کی سب سے زیادہ مدد کرنے والے سعودی عرب نے دور حاضر کے سب سے بڑے فتنے داعش کے خلاف عملی جنگ و جہاد کا آغاز کر کے ایک نئی تاریخ مرتب کرنا شروع کر دی ہے۔ یہ اعزاز بھی سعودی عرب کے حصہ میں آیا کہ اس نے اپنے ملک میں ایسے فتنوں کی انتہائی ذہانت اور مہارت سے بیخ کنی کی اور ملک و ریاست کے خلاف ملک کے اندر تیار ہونے والے اس لاوہ کو پھٹنے کا موقع بھی نہ دیا اور ایسے سارے عناصر کو بروقت اور صحیح طریقے سے قابو کر کے ملکی دھارے میں شامل کر لیا۔
ایک ایسے وقت میں جب سارے عالمی ادارے اور سارا عالمی میڈیا سعودی عرب کے خلاف دن رات ہر لحاظ سے منفی پراپیگنڈے میں مصروف ہے، سعودی عرب نے اپنی صائب پالیسیوں کو آگے بڑھاتے ہوئے داعش کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ قبل ازیں سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے کتنی بار کھل کر کہا کہ بشار الاسد جو لاکھوں شہریوں کا قاتل ہے، اس کو اقتدارسے علیحدہ کر کے رہیں گے۔ انہوں نے تو روس کا نام لے کر کہا کہ وہ بشار کو نہیں بچا سکے گا، اس میں وقت تو لگ سکتا ہے لیکن یہ سب ہو کر رہے گا۔ اس وقت دنیا میں کتنی بڑی بڑی طاقتیں ہیں جو بشار الاسد کی حامی و مددگار ہیں۔ سب ہی جانتے ہیں۔ روس جیسی ویٹو پاور رکھنے والی دوسری بڑی عالمی طاقت تو بشار الاسد سے بڑھ کر اس کا ساتھ دے رہی ہے۔
اسی روس نے حال ہی میں سعودی عرب کو دھمکی دی تھی کہ وہ سعودی عرب پر اس قدر بمباری کریں گے کہ وہ پتھر کے دور کو یاد کرے گا۔ حزب اللہ اور ایران کی جانب سے دھمکیاں بھی سب کے سامنے تھیں لیکن سعودی عرب ایسی کسی دھمکی کو خاطر میں نہیں لایا اور اصولوں پر سمجھوتا کئے بغیر بحرین کے دفاع کے ساتھ ساتھ اور یمن کی انتہائی گھمبیر جنگ کے اختتام سے پہلے ہی مظلومین شام کی مدد کے لئے نئے محاذ جنگ کی طرف قدم بڑھا دیئے۔ امریکہ کی دوغلی پالیسیاں اور منافقت سب کے سامنے تھی اور سعودی حکام اور مغربی دنیا بھی اس سے بخوبی واقف تھی۔
اسی بات کے پیش نظر انہوں نے کمال ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر شام میں داعش کے خلاف جنگ کی امریکہ قیادت کرے تو عرب اتحاد خصوصاً سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اپنی پیدل افواج شام میں اتارنے کے لئے تیار ہیں۔ امریکہ نے سعودی عرب اور عرب دنیا کے اعلانات کی تو تعریف کی لیکن اس نے اب تک نہیں بتایا کہ وہ داعش کے خلاف کوئی عملی قدم بھی اٹھانے کو تیار ہے یا نہیں کیونکہ داعش تو ان کی اپنی پیداوار ہے وہ مسلمانوں کو باہم لڑا اور مروا کر ختم کرنے کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ امریکہ داعش کے خلاف جنگ میں سعودی عرب کا ساتھ کیا دیتا، وہ الٹا اول دن کی طرح اب بھی داعش کی ”طاقت و ہیبت” سے دنیا کو ڈرانے میں مصروف ہے۔
سعودی عرب کے شام میں جنگ کے لئے ترکی میں طیارے پہنچانے کی دیر تھی کہ روس کے صدر پیوٹن نے خود ہی سعودی فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز حفظہ اللہ کو فون کے ذریعے سے اپنے ملک کے دورے کی دعوت دے ڈالی۔ اس سے صرف دو دن پہلے روسی صدر ہی کی دعوت پر قطر کے حکمران شیخ حماد الخلیفہ ماسکو پہنچے تھے۔ حقیقت میں تو قطر کے حکمران کا ماسکو کا دورہ ہی اس بات کی دلیل تھی کہ روس نے سعودی عرب کے سامنے جیسے گھٹنے ٹیک دیے ہیں کیونکہ قطر کا مطلب سعودی عرب ہی ہے۔ اس سے بھی دو دن پہلے روس نے بشار الاسد کو کھل کر کہا تھا کہ وہ اس کا اتنا ساتھ نہیں دے سکتے کہ وہ ہمیشہ اقتدار میں رہے یا پھر سارے ملک پر فتح کے جھنڈے گاڑنے کے خواب دیکھتا پھرے۔
یہی وہ دن تھے جب ایران نے سعودی عرب سے خود کہا کہ وہ شام کے مسئلہ کے حل کے لئے سعودی عرب سے رابطہ کرنے اور تعاون پر تیار ہیں۔ یہی وہ دن تھے جب دنیا میں تیل کی گرتی ہوئی عالمی قیمتوں کو استحکام دینے کے لئے پہلے روس نے اور پھر ایران نے سعودی عرب کے ساتھ مذاکرات اور پھر سعودی روڈ میپ کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے خود کہا کہ وہ سعودی عرب کے فارمولے کے تحت دنیا میں تیل کی قیمتیں بہتر بنانے کے لئے مکمل تعاون کریں گے۔ دنیا میں تیل کا سب سے بڑا برآمد کنندہ سعودی عرب ہے اور سعودی عرب نے اس حوالے سے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ وہ اپنی اس پیداوار یا تجارت پر بھی کوئی سمجھوتا نہیں کرے گا۔
دوسرے ممالک کے لئے سعودی عرب کی ایسی تجاویز ماننا آسان نہیں تھا لیکن جب ان کے پاس کوئی چارہ نہ رہا تو انہیں سعودی عرب ہی کی رائے ماننا پڑی۔ یہی وہ دن ہیں جب سعودی عرب میں 20مسلم ممالک کی پہلی بار مشترکہ جنگی مشقیں ہو رہی ہیں جن کے تمام اخراجات سعودی عرب برداشت کر رہا ہے۔ مسلم دنیا کو اس حوالے سے متحد و منظم کرنے کے اس کام کے لئے چند ہفتے پہلے اس سعودی عرب نے 34مسلم ممالک کا نیا عسکری اتحاد قائم کیا تھا۔ آج کی دنیا میں صرف اسلام اور مسلمان ہونے کی بنیاد پر اتنا بڑا اتحاد تشکیل دینا اور پھر اسے عملی راہ پر گامزن کر دینا کوئی آسان بات تو نہیں تھی لیکن سعودی عرب نے یہ بھی کر دکھایا۔
سارا عالم دیکھ رہا ہے کہ یہ وہی سعودی عرب ہے کہ جس نے 1992ء کی کویت عراق جنگ کے بعد خود کو ایک نئے انداز سے منظم کرنا شروع کیا تھا۔ اپنی فوج اور جنگی صلاحیت کو تیز تر اور مضبوط بنانا شروع کیا تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پہلے خلیجی ممالک سعودی عرب کو اپنا سرپرست سمجھنے لگے تو بعد میں ساری عرب دنیا سعودی عرب کی رہبری و رہنمائی ہی کو اپنے لئے گوشہء عافیت سمجھنے لگی۔ اس سے آگے بڑھ کر افریقی مسلم ممالک اور پھر مشرق بعید کے کتنے ہی ممالک آج سعودی پرچم کے نیچے کھڑے ہوئے اور اب سبھی سعودی عرب کو بلاشرکت غیرے اپنا قائد، پاسبان و رہنما سمجھ رہے ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایسے حالات میں جب سارا عالم اسلام سعودی عرب کے ساتھ قدم سے قدم اور کندھے سے کندھا ملا کر آگے بڑھتا نظر آتا تو پاکستان ایک قدم آگے بڑھاتا ہے تو دو قدم پیچھے ہٹاتا نظر آتا ہے۔ پاکستان کی ہمیشہ سب سے زیادہ مالی امداد کرنے والا سعودی عرب اور 30لاکھ پاکستانیوں کو اپنے ہاں روزگار دے کر پاکستان کو سب سے زیادہ زرمبادلہ پہنچانے والا سعودی عرب ہماری ان غیر سنجیدہ حرکتوں پر کیا سوچتا ہو گا؟ ہمیں اس پر ضرور غور کرنا چاہیے۔
یمن کی جنگ کے موقع پر ہم نے سعودی عرب کا ساتھ نہ دیا۔ آج کے سعودی عرب نے ہماری مدد کے بغیر یہ ایک جنگ نہیں، کتنے ہی محاذوں پر کامیابیاں سمیٹ کر دکھا دیا کہ وہ اب خود سب کچھ کر گزرنے کا اہل ہے۔ آج کی سعودی عسکری طاقت، ہمت و جرأت، فوج اور انٹیلی جنس وہ نہیں جو ہمارے دماغوں میں کئی دہائیاں پہلے سے گھسی ہوئی ہے۔ سارے عالم اسلام کو سمجھنا اور غور کرنا ہو گا کہ آخر وہ ہماری کون سی کمزوریاں اور غلط پالیسیاں ہیں کہ جن کی وجہ سے ہمیں اپنے بدترین دشمنوں کے سامنے بھی ہمیں بھیگی بلی بن کر جینا پڑتا ہے۔ ہم سب کو سعودی عرب جیسے دوست سے جرأت و دلیری اور پالیسی سازی سیکھنی چاہیے اور سعودی عرب کے ساتھ اپنا اتحاد مضبوط بنانا چاہیے۔
اگر سارا عالم اسلام سعودی عرب کے پرچم تلے متحد و منظم ہو رہا ہے اور غیر مسلم دنیا اس اتحاد کو تسلیم کر کے اس کھلی حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہے تو ہمیں اس اتحاد میں پیش پیش ہونا چاہئے تاکہ یہ سارے ملک ہمارے مسائل کے حل اور مدد کیلئے ہمارے ساتھ کھڑے ہوں۔ دنیا میں پاکستان کے اتحادی اور حمایتی کون سے ممالک ہیں؟ نقشہء عالم پر نگاہ دوڑائیں تو یقینا سوائے عربوں کے اور کوئی بھی دکھائی نہیں دے گا اور یہی عرب اس وقت سعودی عرب کے پرچم تلے یک زبان و یک جان ہیں۔سعودی عرب کا یہ کردار سارے کالم اسلام کے لئے نمونہ بھی ہونا چاہیے کہ دنیا میں اپنے حقوق کیسے لئے جاتے اور عزت کے ساتھ کیسے زندہ رہا جاتا ہے۔