تحریر : انجم صحرائی
مشرف دور میں جب غلام حیدر تھند ضلع ناظم بنے تب انہوں نے ایک پریس کا نفرنس ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں بلائی ، میں بھی اس پریس کانفرنس میں مو جود تھا ، ضلعی حکومت ڈسٹرکٹ ہسپتال کی تو سیع کر نا چاہ رہی تھی اور ضلع ناظم اسی بارے پریس کو بریف کرنے کے خواہشمند تھے ضلع ناظم کی تجویز تھی کہ پو سٹ گریجوایٹ کالج کے لئے مختص زمین میں سے کچھ رقبہ لے کر ہسپتال کی تو سیعی بلڈ نگ تعمیر کی جا ئے ۔ انہوں نے پریس کا نفرنس میں تفصیل سے اپنے پلان اور تر جیحات کا ذکر کیا ۔ ضلعی ناظم کی اس تجویز پر مقامی سیاسی ، سماجی اور ذرائع ابلاغ کے سبھی حلقوں کو خا صے تحفظات تھے پریس بریفنگ کے بعد جب سوالات کی اجازت ملی تو باری آ نے پر میں نے سوال کیا “کہ ضیا ء الحق کے دور حکو مت میں جتنے بھی نئے اضلاع بنے تھے وہاں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کی نئی عمارتیں تعمیر ہو ئی ہیں مگر ان اضلاع میں لیہ اس لحاظ سے ایک منفرد اور بد قسمت ضلع ہے کہ جس میں ڈی ایچ کیو ہسپتال کا رقبہ مختص ہو نے کے با وجود تحصیل ہسپتال کی بلڈ نگ کو ہی اپ گریڈ کر کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوار ٹر ہسپتال کانام دے دیا گیا ہے ۔ آپ بحیثیت ضلع ناظم لیہ ضلع کے کسٹوڈین ہیں کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ ڈی ایچ کیو ہسپتال کا مختص رقبہ کہاں گیا ؟ناظم ضلع نے اپنے جواب میںہسپتال کی پرانی بلڈنگ کواپ گریڈ کر کے دسٹرکٹ ہیڈ کوار ٹر ہسپتال دینے کی ذمہ داری اس وقت کے مارشل لاء حکومت کی طرف سے ڈیوٹی پر موجود کسی بر گیڈ یئر کو ذ مہ دار ٹہراتے ہوئے ڈی ایچ کیو کے لئے مختص زمین بارے کو ئی تسلی بخش خاطر خواہ جواب نہ دے سکے ۔ ملک غلام حیدر تھند ایف ایم89 کے پروگرام فورم 89میں میرے دو بار مہمان بنے ۔ پروگرام فورم 89کے ان انٹرویوز میں چک 123 /B سمیت بہت سے اختلافی مو ضوعات پر ہو نے والی جاندار گفتگو کے آڈیو کلپ ” صبح پاکستان لیہیو ٹیوب چینل “SUBH.E.PAKISTAN LAYYAH – YouTube پر مو جود ہیں ۔
ہمارے ایک دوست ہوا کرتے تھے ملک رفیق انہیں کم سنا ئی دیتا تھا اس لئے یار دوست انہیںملک رفیق ڈورا کے نام سے زیا دہ جانتے ہیں ان کا سیا سی تعلق پیپلز پارٹی سے تھا مرحوم مطلوب قریشی کے ہم نوالہ و ہم پیالہ دوست تھے سنگ میل سے وابستہ رہے اور زندگی کے آخری دن روز نا مہ خبریں ملتان میں گذارے ۔ مرحوم کے بڑے بیٹے کامران رفیق بھی خبریں ملتان آ فس میں ہی بحیثیت کمپوزر ملازم تھے ۔ اسی زما نے میں کامران کی ٹانگیں کسی بیماری کے سبب متا ثر ہو نا شروع ہو گئیں بیماری کی شدت کے سبب کامران ملتان سے ملازمت چھوڑ کر واپس لیہ آ گئے اور یہاں مقامی اخبارات میں کام شروع کر دیا ۔ میری کامران سے ملاقات مہر نور محمد تھند کے گھر ہو ئی جہاں وہ ان کی کتاب تاریخ بھکر کی کمپوزنگ کر رہے تھے ۔ اس زمانے میں میں مقا می ایف ایم ریڈ یو سے وابستہ تھا اور پروگرام ہیلپ لا ئن ود انجم صحرائی کا میزبان تھا ۔ایک دن مجھے کامران کا ایک میسج ملا جس میں اس نے مجھ سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا میں نے ریپلا ئی کرتے ہو ئے اسے صبح پا کستان کے دفتر میں آ نے کو کہا ۔ جس پر اس نے مجھے کال کی اور بتا یا کہ اس کی ٹانگیں بیماری کے سبب مفلوج ہو چکی ہیں اور وہ چلنے پھرنے سے معذور ہو گیا ہے اس لئے دفتر نہیں آ سکتا ۔یہ خبر میرے لئے ایک شا کنگ نیوز تھی میں طارق علیا نی کے ساتھ کامران رفیق سے ملنے اس کے گھر گیا اور اس کا انٹرویو ریکارڈ کیا بی کام نو جوان کو اس حالت معذوری میں بستر پر پڑے عیکھ کر ہمیں بہت افسوس ہوا۔
ملک رفیق کی وفات اور کامران کی طویل بیماری اور معذوری نے اس گھر کی خستہ حالی میں جتنا اضا فہ کیا تھا اسے محسوس کیا جا سکتا تھا بیان نہیں کیا جا سکتا ۔دوران انٹرویو میں نے کامران سے پو چھا کہ ہم اس کے لئے کیا کر سکتے ہیں اس نے کہا “سر جی میں جس ملتان کے ڈاکٹر سے علاج کرا رہا ہوں اس کا کہنا ہے کہ تین ماہ کا کورس ہے بس تین ماہ کے علاج کا خرچہ مل جائے تو میں صحت مند ہو جا ئوں گا اور چلنے پھرنے لگوں گا “یہ کہتے ہو ئے اس کی امید سے روشن آ نکھوں کے کنارے بھیگ گئے ۔ میں نے بو جھل دل سے پو چھا کتنا خرچہ ہے ایک مہینے کی دوائی کا جواب ملا پانچ ہزار ۔ میں نے کہا ٹھیک یہ خرچہ آپ کو ملے گا ۔ واپسی پر علیانی کہنے لگا سر جی یہ تو ادویات کا بل ہے کامران کو اس سے زیادہ چا ہیئے اس کی ضرورت زیادہ ہے ملتان ڈاکٹر کے پاس آنا اور جانایہ بھی تو اخراجات ہوں گے میں نے کہا ہاں یہ بات تو ہے طارق علیانی کی بات میں وزن تھا ۔ میں نے انہیں اخراجات کو مد نظر رکھتے ہو ئے ایک صاحب اقتدار نو جوان سیا ستدان کو اپنے پرو گرام میں دعوت دی اور دوران انٹر ویو ہم نے کامران سے کی گئی ریکارڈد گفتگو آن لا ئن سنا ئی اور ان سے اس نو جوان کے علاج بارے تعاون ما نگا مو صوف نے وعدہ کیا کہ وہ تین ماہ کے علاج کے اخراجات دفتر بیت المال کی بجا ئے اپنی جیب سے عطیہ کریں گے لیکن ہوا یہ کہ مو صوف بو جوہ اپنا یہ وعدہ پورا نہ کر سکے ۔میرے لئے یہ صورت حال خا صی پریشان کن تھی کامران مجھے فون کرتا کہ سر جی کیا بنا میں نے ملتان جا نا ہے میں اسے تسلی دیتا مگر کچھ بات نہ بن سکی
آ خر میں نے اس ٹارگٹ کے حصول کے لئے ملک غلام حیدر تھند کو جو اس وقت سا بق ضلع ناظم بن چکے تھے پروگرام میں آ نے کی دعوت دی ۔ جب وہ میرے پروگرام فورم 89میں آ ئے تو میں نے دوران انٹر ویو ان سے کامران رفیق کے علاج کے لئے تعاون کی درخواست کی جس پر انہوں نے نہ صرف کامران کے لئے25 ہزار روپے بلکہ صبح پا کستان کے پروگرام ہیلپ لائن ود انجم صحرائی کی جانب سے نا بینا افراد کو سفید چھڑی مہیا کئے جانے کے پروگرام کے لئے بھی 25 ہزار دینے کا اعلان کیا ۔ پروگرام کے اگلے روز دوپہر کے وقت مجھے ملک غلام حیدر تھند کا ایک مختصر مو بائل میسج ملا ” بھا ئی کد ھر ہیں ” میں نے کال کی تو کہنے لگے صحرائی صاحب ایم سی بی شو گر مل برانچ آ جا ئیں ۔میں بنک پہنچ گیا جہاں ملک غلام حیدر تھند موجود تھے انہوں نے مجھے پچیس پچیس ہزار کے دو کراس چیک دیئے ۔ ایک چیک کامران رفیق کے علاج کے لئے تھا ۔کامران کے نام کراس چیک کا ٹتے ہوئے انہوں نے پو چھا کہ کامران کے والد کا تعلق تو پی پی پی سے تھا نا میں نے کہا جی اور انہوں نے مزید کچھ کہے چیک میرے حوالے کر دیئے ۔میں نہیں سمجھتا کہ ملک رفیق مرحوم کا خاندان کبھی بھی نہ تو مسلم لیگ کا اور نہ ہی ملک غلام حیدر تھند کا ووٹر رہا ہو گا یہ جانتے ہو ئے بھی تھند صاحب کا یہ انسان دوست رویہ ہمیں ان کا گرویدہ کر گیا ۔ یہ وہ زما نہ تھاجن دنوں ہمیں جرنلسٹ پرو ٹیکشن کمیٹی کے چیئر مین ہو نے کا اعزاز حا صل تھا سو اس نا طے میں نے سوچا کہ ملک رفیق مرحوم بھی ایک سینئر اخباری کارکن تھے اور مرحوم کا نوجوان معذوربیٹا بھی اپنی صحت مندی کے زمانہ میںاخبارات سے ہی وابستہ رہا ہے اسی نا طے کیوں نہ تمام پریس کے دوستوں کو بھی اس کار خیر میں شامل کیا جا ئے میں نے جب اپنی خواہش کا اظہار اپنے سینئر دوستوں ملک مقبول الہی اور عبد الرحمن فریدی سے کیا تو انہوں نے بھی بڑے پر جوش طریقہ سے میرے موقف کی تا ئید کی جس پر ہنگامی طور پر جرنلسٹ پرو ٹیکشن کمیٹی کی طرف سے ایک اجلاس دسٹرکٹ پریس کلب میں طلب کیا گیا جس میں تقریبا سبھی ممبران شریک ہو ئے اس اجلاس میں میں نے رفیق کامران کی بیماری ۔ ملک رفیق کی صحا فتی خدمات اور ملک غلام حیدر تھند کی جا نب سے کامران رفیق کے علاج بارے عطیہ کی تفصیلات بتا تے ہو ئے اپیل کی کہ میں سمجھتا ہوں کہ کامران کو اس سے زیادہ امداد اور تعاون کی ضرورت ہے ہمین سب کو اپنے اپنے حصہ کا کردار ادا کر نا چا ہیئے ۔ میری اپیل پر دوستوں نے فوری طور پر پچیس ہزار روپے کے عطیات اکٹھے کر دیئے۔
اس طرح پریس کلب کے دوستوں کی جانب سے عبد الرحمن فریدی ، رانا قمر احسان اور میں نے وفد کی صورت میں 25 ہزار روپے کی نقد رقم اور ملک غلام حیدر تھند کی جانب سے 25 ہزار روپے کا چیک کا مران رفیق کی خد مت میں پیش کی۔ جب میں نے یہ پچاس ہزار روپے کاعطیہ کامران کو دیا اس کے ہا تھوں کی کپکپاہٹ اور آ نکھوں کے گو شوں کی نمی نے مجھے اور دکھی کر دیا ۔ میں نے چیک دینے کے بعد میں نے کال ملا ئی اور کامران سے کہا کہ وہ ملک غلام حیدر تھند کا شکریہ ادا کرے جس پر کامران نے شکریہ ادا کر نے کے لئے بات کا آ غاز کیا تو ملک غلام حیدر تھند نے یہ کہتے ہو ئے کہ “کامران اللہ تمہیں صحت دے ۔ میرے لئے بھی دعا کرنا” موبا ئل بند کر دیا ۔مجھے ایسالگا کہ ملک گلام حیدر تھند شکریہ کا لفظ سننا نہیں چا ہتے تھے مبادا ان کی نیکی ضائع نہ ہو جائے ۔ میں اپنے صحا فیانہ کیرئیر میں ملک غلام حیدر تھند کاسب سے بڑا ناقد رہا ہوں مگر میں نے ان سے ایشوز پر اختلاف کیا ہے میں نے کبھی ان کی ذاتی زند گی کو مو ضوع بحث نہیں بنا یا میں نے سخت سے سخت بات ان کے سامنے ان کے منہ پر کی ۔ کئی ایشوز پر ان کی کھلے عام مخالفت کی مگرمیں نے انہیں ایک حو صلہ مند سیا سی کارکن پا یا جو اختلاف سہتا بھی ہے اور اختلاف کرنابھی جانتاہے ۔ ملک غلام حیدر تھند کی ضلعی نظامت سے ہی جڑی یاداشت میں سے ایک وا قعہ کچھ ایسے بھی ہے کہ یادش بخیر ان کے دور نظامت میں جش بہاراں بڑے اہتمام اور زور شور سے منایا جاتا تھا ضلعی حکومت کے پاس فنڈز کی ریل پیل ہوا کرتی تھی سو سبھی اداروں کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہواکرتی تھیں چو نکہ ملک غلام حیدر تھند ایک اچھے ایڈ منسٹریٹر تھے اس لئے ضلعی ایڈ منسٹریشن بھرپور یہ کو شش کرتی کہ ضلعی ناظم کو وی وی آئی پی کے پروٹوکول میں الجھائے اپنے روائتی مقا صد پورے کرتی رہے گو ضلع ناظم اپنی بساط بھر کو شش کرتے کہ بیوروکریسی کا یہ جال توڑ پا ئیں مگر اکیلا انسان ہار ہی جاتا ہے اپنی اس ہار کا اقرار انہوں نے میرے ساتھ اپنے ایف ایم انٹر ویو میں بھی کیا خیر اسی طرح کے ایک منائے جا نے والے جشن بہاراں کے مو قع پر قو می اور مقا می اخبارات کو بھی بڑے بڑے اشتہارات سے نوازا گیا مگر مہینوں گذ ر نے کے با وجود ان اشتہارات کی ادا ئیگی نہ ہو سکی تھی حالانکہ ضلعی ناظم ان اخباری اشہارات کے بلوں کی ادا ئیگی کے احکامات دے چکے تھے مگر متعلقہ ادارے اس بے فیض کاروائی کے لئے اپنی صلا حیتوں کو استعمال کر نے میں سنجیدہ نہ تھے اسی لئے یہ مسئلہ کئی مہینوں سے اٹکا ہوا تھا اور پریس کے سبھی سا تھی پریشان تھے ایک جگہ ہمیں یہ مسئلہ اجا گر کرنے کا مو قع مل ہی گیا ہوا یوں کہ ضلعی ناظم نے ڈی سی او آفس میں ایک پریس کا نفرنس طلب کی پریس کا نفرنس کے بعد میں نے ضلع ناظم سے کہا کہ جناب نے علا قا ئی تر قی اور ضلعی حکومت کی کار کردگی کے حوالے جو کچھ بھی کہا وہ اپنی جگہ درست ہو گا
مگر میرا تجزیہ یہ ہے کہ آپ کے ارد گرد بیٹھے انتظا میہ یہ افسران اور اہلکاران آ پ کی بات ایک کان سے سنتے ہیں اور دوسرے کان سے اڑا دیتے ہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ کئی ماہ گذر جانے اور آپ کی واضع ہدایات دینے کے با وجود ابھی تک اخبارات میں جشن بہاراں کے مو قع پر اخبارات کو دیئے جانے والے اشتہارات کے بلوں کی ادا ئیگی بقا یا ہے آ خر ان پریس کے دوستوں کا کیا قصور ہے ؟میری یہ بات سنتے ہی ضلع ناظم اپنی بات ختم کرتے ہو ئے ڈی سی او آفس چلے گئے ۔ اور چند ہی دنوں میں ہم صحا فیوں کا یہ مسئلہ فیثا غوث حل ہو گیا ۔جن دنوں ملک غلام حیدر تھند نے میاں نواز شریف کی جلا وطنی کے بعد مسلم لیگ (ق )جوائن کی ۔ سردار ذوالفقار کھو سہ جو مسلم لیگ (ن )کے قائم مقام مر کزی صدر تھے لیہ کے دورے پر آ ئے ۔انہوں نے شبیر کالو نی میں ہو نے والے جلسہ عام میں ملک غلام حیدر تھندکے والد مرحوم کانام لے کر سخت تنقیدی جملے کہے دیگر پریس کے دوستوں کے ہمراہ میں بھی اس جلسہ کی پریس گیلری میں مو جود تھا ۔ سردار ذوالفقار کھوسہ کی طرف سے ملک غلام حیدر تھندکے والد مرحوم بارے کی گئی گفتگو پر پریس کے سا تھیوں نے مسلم لیگ ن کے جلسہ عام کا نہ صرف با ئیکاٹ کیا بلکہ صبح پا کستان کے دفتر میں منعقدہ ایک اجلاس میں اس رویہ بارے مذ متی قرارداد بھی منظور کی اگلے دن پریس کی جانب سے جلسہ عام کے با ئیکاٹ اور قرار داد مذ مت کی خبریں سبھی اخبارات نے نمایاں طور پر شا ئع کیں ۔اختلاف رائے کے با وجود ذاتی احترام کے اسی رشتے کا اظہار ہی تھا کہ جب نوجوان صحا فی اور ایف ایم پروگرام کے ہوسٹ آر جے عنا ئت بلوچ نے مجھے اپنے ایف پروگرام “تم ہی تو ہو “میں بطور مہمان بلا یا تو دوران انٹر ویو انہوں نے میرے صحا فیانہ کیرئیر بارے جہاں یعقب مرزا صدر پریس کلب سے بات کی وہاں ملک غلام حیدر تھند سے لا ئیوکمنٹس مانگے تو ان کا کہنا تھا کہ” صحرائی ایک سچا صحا فی ہے جو سچ سمجھتا ہے لکھتا ہے اور بو لتاہے اور سچی بات اس کی یہی خو بی ہم سیاستدانوں کو کڑوی لگتی ہے “تھند صاحب کی ہمارے بارے یہ مبا لغہ آرائی ہمیں شر مندہ کر گئ۔
تحریر : انجم صحرائی