تحریر: رانا اعجاز حسین
ویسے تو پاک پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ساری پاکیزہ زندگی عظیم الشان قربانیوں سے آراستہ ہے مگر بحکم خداوندی اپنے لاڈلے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کے نازک و نرم خوبصورت نورانی گلے پر اپنے ہاتھ مبارک سے پوری قوت کیساتھ تیزدھار چھری کا چلانا ایسی منفرد قربانی ہے، کہ تعمیل حکم و اطاعت خداوندی کی ایسی مثال نہیں ملتی، اطاعت خداوندی کا یہ انوکھا نرالا انداز کیوں کر وقوع پذیر ہوا ، بقول شاعر کہ
خدائے پاک نے خود ان کی ایسی تربیت کی تھی
شعور و فکر و دانائی کی وہ دولت انہیں دی تھی
خدا نے ہی انہیں بخشا تھا وہ ایثار کا جذبہ
خدا کے حکم پر دینے چلے بیٹے کا نذرانہ
خدا کے امتحان میں کامیاب و کامراں آئے
اسی باعث جہاں میں وہ خلیل اللہ کہلائے
دنیا میں جتنی بھی قومیں اور مذاہب ہیں، ہر قوم اور ہرمذہب کے پیروکاروں نے اپنی تہذیب ،ثقافت ، تمدن اور مذہب کی آبیاری کے لیے مختلف ادوار میں قربانیاں پیش کی ہیں۔ قربانی کے معنی ہیں ،ایسی چیز جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا جائے۔ لفظ قربانی کے معنی گویا یہ ہیں کہ ”جس سے اللہ کا قرب حاصل کیا جائے۔ اور اللہ تعالیٰ جس بندے کو اپنا خاص قرب عطافرما دیتا ہے وہ دنیا میں بھی کامیا ب و کامران ہے اور آخرت میں بھی اسے بلند درجات پر فائز کیا جاتا ہے۔ قربانی کی ابتداء حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹے ہابیل اور قابیل سے ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ابتدائے ِقربانی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا”اور ذرا انھیں آدم ( علیہ السلام) کے دو بیٹوں (ہابیل اور قابیل )کا قصہ بھی صاف صاف سنادو،جب ان دونوں نے اپنی اپنی قربانیاں پیش کیں،تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول کر لی گئی،اور دوسرے کی( قبول) نہ کی گئی، تو اس (قابیل )نے کہا،میں تجھے ضرور مارڈالوں گا،اس (ہابیل )نے جواب دیا، کہ اللہ تعالیٰ تو صرف متقین سے ہی قربانی( قبول) فرماتا ہے۔ ”
دین اسلام میں قربانی کی مشروعیت جسے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر لازم کیا گیا وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی کا اگربنظر عمیق مطالعہ کیا جائے تو یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی ابتلاء وآزمائش کے سخت امتحانات اور قربانیوں سے عبارت نظر آتی ہے۔ اللہ رب العزت جب بھی ا پنے کسی خاص بندے پر نظر کرم فرماتا ہے تو اسے امتحان کی مشکل میں مبتلا کرتا ہے۔ اسی طرح پروردگارِ عالم نے اپنے پیارے پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دو ستی اور محبت کو نکھارنے کے لیے آزمائش میں مبتلا کیا اور پھر اس آزمائش سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دوستی کندن بن کر چمکی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دوستی بے داغ ثابت ہوئی۔ قربانی کے اس عمل میں عالم اسلام کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ خالق کائنات کی طرف سے جب بھی کوئی حکم آجائے تو اس کی تعمیل و بجاآوری کانام ہی دین ہے۔
اپنے خالق و مالک کے حکم کی اتباع میں نہ عقلی گھوڑے دوڑانے کی ضرورت ہے ،نہ اس میں حکمتیں اور مصلحتیں تلاش کرنے کا موقع باقی رہتا ہے،اورنہ اس میں کسی قسم کی چوں چراں کرنے کی ضرورت ہے، بلکہ ایک مومن کا کام یہ ہے کہ جب اس کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم آجائے تو اس حکم کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہوئے اس حکم کی اتباع کرے۔ جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نہایت عاجزی و انکساری کے ساتھ بے مثال اتباع کامظاہرہ کرتے ہو ئے بارگاہِ ا لٰہی میں اپنے لخت جگر کی قربانی پیش کردی۔ اگر خدا چاہتاتو یہ پیغام وحی کے ذریعے بھی دے سکتا تھا۔ لیکن درحقیقت یہ ایک امتحان تھا ، چونکہ انبیائے کرام علیہم السلام کاخواب بھی وحی الٰہی ہوتا ہے ،تو کیا وہ اس حکم پر عمل کرتے ہیں یا نہیں۔
اسی لیے ابراہیم علیہ السلام کویہ عمل خواب میں دکھایا گیا۔ قرآن کریم میںاللہ رب العزت بیان فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے لخت جگر سے کہا ”اے میرے بیٹے! میں نے خواب میںدیکھا ہے کہ میں تم کو ذبح کر رہا ہوں، اب تم بتائو تمہاری کیارائے ہے۔” حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے سے رائے اس لیے نہیں پوچھی کہ اگر بیٹے کی رائے ہو گی تو ایسا کروں گاورنہ میں اپنے بیٹے کو ذبح نہیں کروں گا۔ نہیں !نہیں! ایسا ہر گز نہیں۔ بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے رائے اس لیے پوچھی تھی کہ میری نبوت کا وارث اس آزمائش میں پورا اترتا ہے یا نہیں اور یہ بھی معلوم ہوجائے کہ اللہ کے حکم کے بارے میں بیٹے کا تصور کیا ہے؟
حضرت اسماعیل علیہ السلام کی فرمابرداری دیکھئے ،وہ بیٹا بھی تو کوئی عام بیٹانہیں تھا۔ اگر باپ خلیل اللہ کے مرتبہ پر فائز تھا تو بیٹے کے سر پر بھی ذبیح اللہ کا تاج سجنے والا تھا، کیونکہ آپ علیہ السلام ہی کی صلبِ اطہر سے آقائے دو جہاں ،تاجدارِانبیائ،شفیعِ روزِ جزا، جناب حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،اپنے نورِ مبین سے اس جہان کو دائمی روشنی سے منور کرنے والے تھے۔ اس لیے وارثِ نبوت نے بھی اطاعت کی حد کر دی۔آپ علیہ السلام نے اپنے باپ کے آگے سر کو جھکا دیا اور یہ بھی نہیں پوچھا کہ ابا جا ن مجھ سے کیا جرم سر زد ہوا ہے ؟میری خطا کیا ہے؟ جو آپ مجھے موت کے حوالے کرنے جا رہے ہیں، بلکہ قربان جائوں! اس بیٹے پر جس نے نہایت عاجزی وانکساری سے اپنے باپ کے آگے گردن جھکاتے ہوئے جوکلمات اپنی زبان سے ارشاد فرمائے وہ قیامت تک نسل انسانی کے لیے مشعل راہ بن گئے۔ چنانچہ آپ نے ارشاد فرمایا (ترجمہ) ”اس (بیٹے) نے کہااے ابا جان!آپ وہی کیجئے جس کا آپ کو حکم دیا گیاہے، انشاء اللہ ! آپ مجھے عنقریب صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ (سورة الصفّٰ، آیت 102 )” اے اباجان! میں روئوں گا نہیں اور نہ ہی میں چلائوں گا اور نہ ہی آپ کو اس کام سے منع کروں گا،اب آپ چلئے اور اس حکم کی تعمیل میں دیر نہ کیجئے۔انشاء اللہ ! آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔
یہ فیضان نظر تھا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی
اب دونوں باپ بیٹا اپنے مالک کے حکم کو پورا کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ گھر سے چلے اور”ثبیر”نامی گھا ٹی میں پہنچے۔ وہاں پہنچ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے، اپنے نورِ نظر کو لٹا دیا۔ بیٹے نے عرض کی ابا جان! مجھے ذبح کرنے سے پہلے مضبوطی سے رسیوں سے باندھنا تاکہ میرے خون کے چھینٹے آپ پرنہ پڑیں، کیونکہ موت بڑی سخت ہوتی ہے اورمیں بہ تقاضائے بشریت ذبح کے وقت اپنے آپ کو تڑپنے، پھڑکنے سے روک نہ سکوںگااورا پنی چھری کو بھی خوب تیز کر لیں تا کہ وہ آسانی سے میری گردن پر چل سکے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے مزیدارشاد فرمایا، اے پیارے ابا جان !آپ مجھے ذبح کرنے کے لئے جب لٹائیں تو منہ کے بل لٹائیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جب آپ کی نظر میرے چہرے پر پڑے تو آپ کی شفقت ِپدری میری اس قربانی میں حائل ہو جائے۔
اس عظیم المرتب باپ کے عظیم بیٹے نے اپنی آخری گزارش کرتے ہوئے فرمایا،اے اباجان!آپ مجھے ذبح کرنے کے بعد میری قمیض میری ماں کے حوالے کر دینا اس سے ان کو تسلی ہو جائے گی ،اور جب میں اپنی ماں کو یادآئو ں گا، وہ میری قمیض کو اپنے سینے سے لگا کر اپنے دل میں سکون محسوس کریں گی ،اس سے ان کو صبر آجا ئے گا۔چنانچہ جب دونوں باپ بیٹا گفتگو سے فارغ ہوئے تو حضر ت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو مضبوط رسیوں سے باندھ کر چھری تیز کی اور پھر اپنے بیٹے کو پیشا نی کے بل لٹا دیا۔ پھر کمالِ ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی نگاہیں لختِ جگر ، نورِ نظر کے چہرے سے ہٹا لیںاور اپنی آنکھوں میں چھلکتے ہوئے آنسوئوں کے سمندر پر قابو پاتے ہوئے اپنے بیٹے کے حلقِ نازک پر چھری چلا دی۔
اے پیارے خلیل ( علیہ السلام ) ! تو نے اپنا کام مکمل کر لیا ہے ،اب مجھے اپنا کام کرنا ہے۔ چنا نچہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی چشمانِ نبوت کھولیں تودیکھا کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام ساتھ بیٹھے مسکرا رہے ہیںاور ان کی جگہ ایک دنبہ ذبح کیا ہوا پڑا ہے۔ اللہ رب العز ت کواپنے پیاروں کی ادائیں اتنی پسند آئیں کہ قیامت تک اس سنت ِابراہیمی کو زندہ رکھنے کا حکم صادر فرما دیا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کی نقل کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ قربانی کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔اللہ تعالیٰ جذبہ قربانی میں تقویٰ دیکھتے ہیں ، لہذا لازم ہے ہماری قربانی اللہ رب العزت کی رضا اور خوشنودی کے لئے ہو، اس میں دکھا وا اور ریا کاری شامل نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ ہماری قربانیوں کو قبول فرمائے۔ آمین
تحریر: رانا اعجاز حسین
ای میل:ranaaijazmul@gmail.com
رابطہ نمبر :03009230033