تحریر : مسز جمشید خاکوانی
دوسروں کی زندگی کی جنگ لڑنے والا اپنی زندگی کی جنگ ہار گیا ڈاکٹر صغیر سمیجہ ہم میں نہ رہے وہ بہاول وکٹوریہ ہوسپٹل میں سرجن تھے اور نادیہ نامی لڑکی کا اپریشن کرتے ہوئے ”کانگو وائرس ” کا شکار ہو گئے وہ اپنے علاج کے لیے آغاخان ہسپتال کراچی داخل رہے پنجاب حکومت نے ان کی کوئی مدد نہیں کی انہوں نے اپنے علاج کا سارا خرچا خود برداشت کیا دو مزید ڈاکٹرز بھی کانگو وائرس کا شکار ہیں ان کا علاج ہو رہا ہے ڈاکٹر سمیجہ اللہ کی مخلوق میں سے ایک انسان کی جان بچاتے اپنی جان سے گئے ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے انسانی جان بچانے کا جو حلف انہوں نے اٹھایا تھا یقینا اللہ کے نزدیک ان کا بڑا مقام ہوتا ہے جو اپنے حلف کی پاسداری میں اپنی جانوں کی پرواہ نہیں کرتے ۔کانگو وائرس یا کریمیا ایک خونی بخار کو کہتے ہیں۔
یہ وائرس مشرق وسطی،ایشیا ،بلقان ریاستوں اور افریقہ میں ہیاس کا وائرس انفیکشن کے بعد تقریباً ایک ہفتے تک خون میں رہتا ہے کانگو وائرس سے متاثر ہونے والے میں تیز بخار،پٹھوں میں درد ،چکر آنا ،پیٹ میں درد اور قے کی علامات ظاہر ہو سکتی ہیں بکرا منڈیوں اور جانوروں کی قربت میں رہنے والے اس بیماری سے متاثر ہو سکتے ہیں آجکل تو لوگ اپنے قربانی کے جانوروں کے ساتھ سیلفیاں لیتے بھی نظر آتے ہیں پاکستان میں کانگو وائرس بے قابو ہوتا نظر آ رہا ہے حکومت فوری اقدامات کرے ورنہ حالات سنگین ہو سکتے ہیں شہریوں نے سیلف میڈیکیشن کرتے ہوئے REBAZOLE کیپسول کا استعمال شروع کر دیا ہے متاثرہ افراد کے اہل خانہ کو بھی فوری طور پر” کانگو ٹیسٹ ”کرانے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔
تفصیل کے مطابق کانگو وائرس کے مریضوں کی تعداد کے باعث ہسپتال میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے آغا خان لیبارٹری ذرائع کے مطابق اب تک 40افراد کے خون کے سیمپلز لائے جا چکے ہیں اور مزید خون کے نمونے بھی لائے جا رہے ہیں لیبارٹری نے اس صورتحال پر ”کانگو ٹیسٹ”کروانے پر 30فیصد رعایت کا اعلان کرتے ہوئے متاثرہ افراد کے اہل خانہ کو بھی ٹیسٹ کرانے کی ہدایات جاری کی ہیں دریں اثنا گذشتہ دنوں بہاول وکٹوریہ ہسپتال کے شعبہ ایمر جنسی میں لودھراں کی نرسنگ کی فورتھ ائر کی طالبہ نادیہ کو لایا گیا جس کے معدہ کا اپریشن سرجیکل 4کے سینئر رجسٹرار ڈاکٹر صغیر سمیجہ اور ڈاکٹر گلزار نے کیا مریضہ اگلے روز فوت ہو گئی اس کی وفات کے بعد اس بات کا انکشاف ہوا کہ مریضہ کانگو وائرس کا شکار تھی اپریشن کے چند روز بعد اپریشن کرنے والے ڈاکٹر صغیر سمیجہ میں کانگو وائرس کی علامات ظاہرہونا شروع ہو گئیں جنھیں فوری چیک اپ کے لیے آغاخان ہسپتال کراچی لے جایا گیا جہاں وہ گذشتہ روز فوت ہو گئے۔
اس دوران اس وارڈ کے پروفیسر ڈاکٹر گلزار ملک اور میڈیکل کے اویس عالم کو بھی کانگو ٹیسٹ پوزیٹو آنے پر فوری طور پر آغاخان ہوسپٹل شفٹ کر دیا گیا ہے اللہ انہیں زندگی اور شفا دے ہم لوگ اکثر ڈاکٹروں کو قصائی ہونے اور فیسیں بٹورنے کا طعنہ تو دیتے ہیں مگر خود ڈاکٹر کتنے خطرے میں ہوتے ہیں یہ ہمیں کبھی احساس نہیں ہوتا بے شک کچھ ڈاکٹر ایسے بھی ہیں جو فرعون بنے بیٹھے ہیں لیکن ڈاکٹرز بھی اپنے حق کے لیے سڑکوں پر اس وقت نکلتے ہیں جب انہیں کہیں سے امید نہیں رہتی میڈیکل کی مہنگی ترین تعلیم اور راتوں کی سخت ڈیوٹیاں ینگ ڈاکٹرز کے حواس چھین لیتی ہیں چوبیس چوبیس گھنٹے کی ڈیوٹی اور پھر کسی ناشدنی پر مریضوں کے لواحقین کا ڈاکٹروں کا گریبان پکڑ لینا ان پہ مقدمے بنوا دینا یقینا ایک ناروا سلوک ہے ہمارے ہاں کوئی بھی چیز آرڈر میں نہیں ہوتی ہر کام پریشر میں کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ہر ایک دوسرے کے در پہ آزار ہے ہمارے شہر کے ایک ڈاکٹر لودھی(مجھے ان کا نام یاد نہیں)جن کی بیوی بھی ڈاکٹر تھیں وہ بھی دونوں میاں بیوی لودھراں ہی کے کسی سرکاری ہیلتھ سینٹر میں کام کرتے تھے۔
دونوں میاں بیوی صبح کے گئے شام کو واپس گھر آتے بیٹا کوئی تھا نہیں تین جوان بیٹیاں تھی جن کی شادی کی فکر دونوں کو تھی لیکن افسوس ڈاکٹر صاحب ایک مریض کا اپریشن کرتے ہوئے ہاتھ کا دستانہ پھٹ جانے کی وجہ سے حادثے کا شکار ہو گئے مریض ہیپاٹائٹس بی میں مبتلا تھا جو انہیں منتقل ہو گیا اور بے چارے ڈاکٹر صاحب اپنی بیٹیوں کے ہاتھ پیلے ہوتے دیکھنے کی خواہش دل میں لیے ایک ماہ کے اندر چٹ پٹ ہو گئے اللہ انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے کیسے کیسے لوگ دنیا سے اٹھ جاتے ہیں اور وہ سینے پر مونگ دلتے رہتے ہیں جن کے لیے ایک عالم کی بد دعائیں ہوتی ہیں شائد اسے ہی خدا کی مصلحت کہتے ہیں۔
جنوبی پنجاب میں خصوصاً رحیم یارخان میں صاف پانی کی عدم فراہمی کی وجہ سے کالا یرقان تیزی سے لوگوں کی زندگیاں نگل رہا ہے لیکن ہمارے لیے سڑکیں اور میٹرو زیادہ اہم ہے شائد جنازے گذارنے کے لیے سڑکیں بنائی جا رہی ہیں ورنہ زندہ لوگوں کے لیے پہلی ترجیع ملاوٹ سے پاک خوراک اور پینے کا صاف پانی ہوتا ہے جو اس ملک میں ناپید ہے سندھ میں انسان اور جانور ایک ہی جگہ سے پانی پیتے ہیں لیکن وہاں کے وڈیروں کے لیے باہر سے پانی آتا ہے اس لیے انہیں اس کی کوئی پرواہ نہیں وہ انسانوں کو جانوروں سے اوپر کا درجہ دینے کو تیار نہیں ۔نہ جانے ظلم و نا انصافی کب اور کون ختم کرے گا۔