تحریر: محمداعظم عظیم اعظم
کیا یہ خود پاکستانیوں سمیت دنیاوالوںکے لئے بھی ایک بڑاسوالیہ نشان نہیں ہے اور یہ بھی کہ آج ساڑھے بیس کروڑ افراد سے زائد آبادی والے اسلامی دنیا کے پہلے ایٹمی مُلک پاکستان سے متعلق یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی ہے؟؟ کہ یہ ایٹمی مُلک اپنے قیام ہی سے بہت سے مسائل اور بحرانوں میں دھنساہوارہاہے اور ابھی اِس کی حالتِ زارایسی خستہ حال ہے کہ بحرانوںاور مسائل و مشکلات کا شکارمُلک ہونااِس کی شناخت بن گئی ہے اور ایسے میں کیا یہ اِس کی خوش قسمتی نہیںہے؟؟ کہ انگنت بحرانوں اور مسائل کاشکارہونے کے باوجود بھی مُلکِ پاکستان اپنے ماتھے پرتمام ترجدیدصلاحیتوں سے آراستہ ایٹمی مُلک ہونے کا خوبصورت جھومرسجائے ہوئے ہے یقینایہ اعزاز ہم پاکستانیوںکے لئے باعثِ فخراور افتخار ہے ۔
اَ ب یہ اور بات ہے کہ یہ غربت اور مسائل و بحرانوں کی چکی میں پسے رہنے کے باوجود بھی عالمی سطح پر ایک ایسی ایٹمی طاقت ہے جس کی تمام تر ایٹمی صلاحیتوں کا اعتراف عالمی برادری تسلیم کرتی ہے اور یہی وجہ ہے اِس کی قوت اور طاقت کے اثر سے اِس کا بھارت جیسا ازلی دُشمن مُلک جو اِس کی آبادی کے لحاظ سے کئی گنازیادہ بڑامُلک ہے مگرحیرت انگیز طور پر یہ بھی، پاکستان کی ایٹمی صلاحیتوں سے خوفزدہ رہتاہے اور اِسے خودساختہ طورپر ایک یہی دھڑکالگتارہتاہے کہ کہیں اِس کی ذراسی خواب خرگوش کی نیندپاکستان کے ہاتھوں اِس کے وجود کو مٹانے کے لئے پچھتاواثابت نہ ہوجائے سواِس بنا پر بھارت پاکستان مخالف ہتھکنڈے جاری رکھ کر خود کو جگانے کی کوششوں میں غرق رہتاہے حالانکہ اگر بھارت اپنی اِس روش کو بدل کر پاکستان سے دائمی دوستی اور بھائی چارگی کا ہاتھ بڑھائے توبھارت پاکستان سے بہت سے مثبت نتائج حاصل کرسکتاہے کیونکہ پاکستان طاقتور ہوکربھی خطے میں اپنے پڑوسی ممالک سے خوشگوار تعلقات استوار کرکے خطے اور ممالک کی ترقی و خوشحالی اور سرحدوںکے پار عوام الناس کے درمیان محبتوں اور بھائی چارگی کے انمول و انمٹ رشتوں کے پروان کا خواہاں ہے جبکہ بھارت اِس سے عاری ہے حالانکہ اَب خطے میں طاقت کا توازن برقراررکھنے کے لئے یہ بھارت پر لازم آتاہے کہ بھارت کو پاکستان کی یہ بات سمجھ کر اپنے رویئے میں ضرور تبدیلی لانی ہوگی ورنہ یہ خطے میں پاکستان مخالفت کے باعث جنگی جنون میں مبتلارہ کر خود اپنے عوام اور اپنی سرحدوں کے ساتھ انصاف کرپائے گابلکہ اپنے جنگی عزائم کی وجہ سے خطے کی دوسرے ممالک کی ترقی اور خوشحالی کی راہ میں بھی سب سے بڑی رکاوٹ بنارہے گا۔
بہرحال ،خبریہ ہے کہ اکنامک سروے آف پاکستان کی تفصیلات کے مطابق پاکستان کی آبادی میں اِس وقت روزانہ 10ہزار 109افرادکا اضافہ ہورہاہے جس کی وجہ سے نہ صرف پاکستان کی مجموعی آبادی میں اضافہ ہورہاہے بلکہ اِس بات کا بھی خدشہ ظاہر کیاجارہاہے کہ اگر روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے اِس اضافے کو نہ روکاگیاتوجہاں مُلکی آبادی میں اضاضے کے ساتھ ساتھ شہری آبادی میں بھی خطرناک حد تک اضافہ ہوگاتووہیں مُلک میںتوانائی کے بحرانوں کے علاوہ غذائی قلت اور بحرانوں کا بھی خطرناک حد تک اضاضہ یقینی ہوجائے گاتب پاکستان کی بقاءاور سلامتی کے دُشمنوں سے بغیرجنگ کئے خطرات لاحق ہوچکے ہوں گے،تاہم مُلک میں آبادی کے حوالے سے ہونے والے اضاضے سے متعلق یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ہر سال شہری آبادی میں 26 لاکھ 90 ہزارافراد کا اضافہ ہورہاہے جس پر مُلکی ماہرین آبادی اور اقتصادیات نے اپنا یہ قوی خدشہ ظاہر کیاہے کہ اتنے وسیع پیمانے پر آبادی میں اضاضہ کے باوجود اِ ن کے لئے سہولتیں اور وسائل تقریباصفر ہیں اِس کے ساتھ ہی یہ بھی خیال کیا جارہاہے کہ اگر اِسی تناسب سے آبادی میں اضاضہ ہوتارہا تو ممکن ہے کہ موجودہ سال 2016ءمیںیہ بڑھ کر191.71ملین تک پہنچ جائے گی اور مُلک میں مسائل اور بحرانوں کا ناروکنے والا سلسلہ بھی بڑھتاچلاجائے گا سو ضرورت اِس امر کی ہے کہ حکمرانِ الوقت کو جہاں اپنی حکمرانی اور پانامالیکس میں ہونے والے حقائق پر مبنی انکشافات میں اپنی آف شور کمپنیاں بچانے کی فکر ہے تو اِنہیں مُلک میں بے لگام ہونے والے آبادی کے اضاضے سے متعلق بھی ایسے دیرپااقدامات کرنے ہوں گے
کہ مُلکی آبادی میں بے تحاشہ ہونے والے اضافے کو فی الفور روکاجائے تاکہ آنے والے دِنوں میںمُلک کو توانائی و غذائی قلت کے بحرانوں سمیت دیگر مسائل سے بچایاجاسکے ۔
جبکہ دوسری جانب حکومت پاکستان اور یواین ڈی پی کی جاری کردہ ویژن 2025کی رپورٹ میں سینہ ٹھونک کر واہ شگاف انداز سے نعرہ لگاتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کیاگیاہے کہ مُلک سے غربت کے خاتمے اور شرح نمو کو مستحکم اور پائیداربنایا جائے گااوراِس کے ساتھ ہی حکومت الوقت نے اِس کا اعتراف کرتے ہوئے یہ بھی اظہار کردیاہے کہ مُلک میں غربت صرف مالیاتی محرومیوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ مُلک کی تمام کمیونٹیز کو صحت، تعلم اور دیگر سہولتیں بھی دستیاب نہیں ہاں البتہ ، رپورٹ میں وثوق کے ساتھ یہ دعویٰ کرکے عوام الناس کو ضرورت شسد ردیاگیاہے کہ ” غربت کی شرح 11سا ل میں کم ہوکر 55سے 39فیصد پر آگئی ہے یعنی یہ کہ حیرت انگیز طور پر شہری علاقوں میں غربت کی شرح9.3فیصد جبکہ دیہی علاقوں میں 54.6فیصد ہے اور بلوچستان کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ بھی کھلے دل سے تسلیم کرتے ہوئے کہاگیاہے کہ بلوچستان میں غربت کی شرح میں کمی کی رفتارسست ہے۔تاہم مُلک میں بے لگام انداز سے بڑھتی ہوئی آبادی کے تناظر میں حکمران الوقت اور ماہرین اقتصادیات کو اِس سنگین مسئلے کے فوری حل کی جانب سنجیدگی سے توجہ ضرور دینی ہوگی اور مُلک میں اندھادھن بڑھتی آبادی کو لگام دینے کے لئے ایسے اقدامات ضرور کرنے ہوںگے جس سے مُلکی بادی کو بڑھنے سے بچایاجائے تاکہ مُلک آنے والے دِنوں ، ہفتوں ، مہینوں اور سالوں میں بحرانوں اور مسائل کے دلدل میں مزید دھنسنے سے بچ سکے، اور مُلکی ا پنی ترقی اور خوشحالی کی راہ متعین کرکے کسی مثبت سمت میں چل نکلے۔ ختم شُد
تحریر: محمداعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com