تحریر : ارم فاطمہ
کتنے بے خبر ہیں ہم لوگ خود تو اس راستے پر قدم رکھ ہی چکے ہوتے ہیں جو زندگی کا اختتام ہے ساتھ ہی اپنے سے جڑے رشتوں کو بھی اس اذیت میں مبتلا کر جاتے ہیں کہ بالاخر ان کا انجام بھیی یہی ہونا ہوتا ہے۔کمرے میں نگوار بو ہر بات کا آگاز کھانسی سے اور ابھی بات مکمل نہیں ہونے پاتی تھی کہ پھر کھانسی کا دورہ۔۔۔۔ ہماری امی کی عزیزہ جن کے میاں بلا کے سگریٹ نوش تھے ابھی ایک سگریٹ کا سرا بجھتا نہیں تھا تو اس سے دوسری جلا لیتے تھے۔ وہ سانس کی تکلیف میں مبتلا ہو کر شوہر سے پہلے ہی زندگی سے منہ موڑ گئیں۔تمباکو نوشی ایسی بلا ہے جو آپ سے ساتھ آپ کے ارد گرد رہنے والوں کو جانلیوا مرض میں مبتلا کر جاتی ہے مگر ہم کب سوچتے ہیں؟دنیا بھر میں سالانہ 50 لاکھ جبکہ پاکستان میں سالانہ ایک لاکھ افراد تمباکو نوشی میں مبتلا ہو کر اموات کا شکار ہو رہے ہیں۔ جن میں 90 ٪ مرد اور80٪ عورتوں میں کینسر کا سبب تمباکو نوشی ہے۔60 ٪ لوگوں کی عمریں 15 سے 30 سال کے درمیان ہے جبکہ خواتین میں زیادہ تر پڑھی لکھی یونیورسٹی اور کالز کی گریجویٹ ہیں جو شوقیہ یا دوستوں کی وجہ سے سگریٹ نوشی کرتیں ہیں۔
وشن عزیز پاکستان میں ہر سال تمباکو نوشی کے استعمال میں رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔پوری قوم اور نوجوان نسل خاص طور پر اس سے متاثر ہو رہی ہے۔اس کی بنیادی وجہ اس کے استعمال کے نقصانات سے بے خبری،حالات کا جبر،بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور روز افزوں مہنگائی سے ہونے والی فرسٹریشن اور ڈپریشن ہے تبھیذہنی پریشانیوں سے سکون پانے کے لیے ان عارضی سہاروں کا استعمال بڑھ رہا ہے۔آئیے ایک نظر ان کی اصلیت اور اژرات پر ڈالتے ہیں!تمباکو نوشی!پرتگال میں فرانس کے سفیر جان نیکوٹ 1560ء میں اس سے واقف ہوئے۔انہوں نے تمباکو کے پتوں کو علاج شقیقہ کے لئے استعمال کیا۔اس وقت اس کو پانی میں گھول کر منہ کے ذریعے استعمال کیا جاتا تھا۔17 صدی میں پہلی مرتبہ پائپ کے ساتھ اس کا رواج شروع ہوا۔تمباکو کے پودے کو خشک کر کے خمیرہ کیا جاتا ہے پھر سگریٹ بنانے کے لئے یا پائپ کے لے حسب ضرورت مطلوبہ شکل میں کاٹ لیا جاتا ہے پھر اس میں خوشبو ملائی جاتی ہے۔کئی ملکوں میں حشیش اور افیون ملائی جاتی ہے1۔نکوٹین!۔لیکن سب سے زیادہ اس میں نکوٹین ملائی جاتی ہے جو سگریٹ میں استعمال کیا جانے والا سب سے اہم عنصر ہے سگریٹ میں جو 10 زہر پائے جاتے ہیں ان میں یہ سر فہرست ہے۔10٪ بھی تین سے چار منٹ میں یہ مہلک زہر ہلاک کر سکتا ہے۔
2،کاربن مونو آکسائیڈ!
دھوئیں میں 1/2 فیصد خون کے سرخ مادے میں جذب ہو کر سانس روکتی ہے۔اور موت کا سبب بنتی ہے
3۔کارسینو جنک!
کینسر پیدا کرنے والے 16 کیمیائی مادوں میں سے ایک ہے جس کے دھوئیں سے کینسر ہونا ثابت ہوا ہے۔
4۔بھاپ بن کر اڑانے والا مہلک تیزاب
5۔سائینائڈ!
یہ بھی ایک مہلک زہر ہے۔
6۔سنکھیا!
جو سگریٹ کے دھوئیں میں ہوتا ہے
7۔امونیا!
یہ مضر صحت ہے دم گھٹنے لگتا ہے پھیپھڑوں کو دائمی تکلیف میں مبتلا کرتا ہے۔
8۔کولتار!
یہ بھی زہر ہے۔ایک کلو روزانہ سیال شکل میں پینے سے مہروں کو جانے والی باریک نالیوں کو مفلوج کر دیتی ہے۔
9۔فضول اور الکحل!
یہ بھی مہلک زہر ہیں
یہ وہ تمام زہر ہیں جو سگریٹ نوش کے جسم میں جذب ہوتے ہیں جو اس کی شاداب زندگی کو خشک کر دیتی ہیں۔خوف،وحشت، کمزوری، ذہنی الجھن،کشمکش،اور انتشار کا شکار کر دیتی ہے وہ زندہ ہو کر بھی زندگی کو ترستے ہیں۔
ایک تازہ ترین ریسرچ سے سگریٹ نوشی کے ان نقصانات کا بھی پتا چلا ہے جو پہلے معلوم نہیں تھے۔ان سے پھیپھڑوں کا کینسر ہی نہیں اندھاپن،ذیا بیطس،جگر اور بڑی آنت کے کینسر جیسی بیماریاں بھی ہو سکتیں ہیں۔جو افراد سگریٹ نوشی نہیں کرتے اس کے دھوئیں میں سانس لینے سے ان میں دل کے دورے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔رمضان المبارک میں روزے کے فوری بعد سگریٹ نوشی کرنے سے امراض قلب،جسمانی جھتکوں، ہاتھ پاؤں میں کپکپاہٹ بڑھنے کے خطرات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔اس حوالے سے عام آدمی کا آگاہ ہونا بہت ضروری ہے۔ہر سال 31 مئی کو عالمی انسداد تمباکو نوشی کا دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد تمباکو کے استعمال سے پرہیز اور چاہے وہ کسی شکل میں ہو ان کی حوصلہ شکنی کرنا ہے۔سگریٹ نوشی کے مضر اثرات سے آگاہی کے لئے سیمینار منعقد کیے جاتے ہیں۔
شیشہ۔۔۔!
شیشہ حقے کی جدید قسم ہے جو شیشہ سموکنگ کے نام سے مشہور ہے۔آج کل نوجوانوں میں شیشے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔گذشتہ چند سالوں سے دنیا بھر میں شیشہ کی بڑھتی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ شیشہ کو سگریت سے کم مضر صحت مانا جاتا ہے جب کہ طبی ماہرین اس کی نفی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ کسی طور سگریٹ سے کم خطرناک نہیں۔سگریٹ کے مقابلے میں 36 فیصد زیادہ ٹار،7۔1 فیصد نکوٹین اور 3۔8 فیصد کاربن مونو آکسائیڈ ہوتی ہے۔جس زہر کو شیشہ کے نام سے یہ نسل اپنی رگوں میں گھول رہی ہے سگریٹ پینے والے افراد کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ کینسر اور ٹیـبی جیسے مہلک مرض کا سبب ہے۔سگریت سے اوسطا20 کش لگائے جاتے ہیں جبکہ شیشہ سے 200 کش۔۔ شیشہ میں موجود کاکول جس میں زہریلا ٹوکین موجود ہوتا ہیوہ سانس سے جسم میں داخل ہو کر نظام تنفس کو نقصان پہنچاتا ہے۔کم عمر لڑکے لڑکیاں ہوٹلوں، کیفیز،تفریحی مقامات کالجوں یونیورسٹیوں میں سموکنگ کرتے نظر آتے ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جاتااور نہ ہی آپریشن کیا جاتا ہے۔
گٹکا!
دسمبر 1972 پاکستان کی تاریخ کا اندوہ ناک دن جب مسلم دنیا کا سب سے بڑا ملک دو لخت ہو گیا اس صورتحال میں مغربی پاکستان کی تباہی ایک سوالیہ نشان بن گئی۔جنگ کے باعث تجارت پہ سکوت طاری تھا۔ایسے حالات میں حکومت کو راشن بندی کرنی پڑی تمام خاندانوں کو اناج ان کی ضرورت سے کم دیا جاتا تھا۔پاکستان میں لوگوں کو راشن یا دال چاول کی فکر نہیں تھی نہ جان و مال اور آبرو کی فکر تھی تو اس بات کی کہ پان کا نشہ کیسے پورا کیا جائے؟چنانچہ اس نشے کو پورا کرنے کے لئے کھجور کی گھٹلی اور املی کی گھٹلی کو چھالیہ کے متبادل کے طور پر جب کہ پالک کے پتے اور لہسوڑے کے پتیاور امرود کے پتوں کو استعمال کیا گیا اور اسے گٹکا کا نام دیا گیا۔یہ منہ اور گلے کے کینس کا ایک بڑا سبب ہے۔ قوم کو اس کی لت پڑ چکی ہے اور حکومت اور صحت کے اداروں کے لیے درد سر بن چکا ہے۔
نسوار!
صرف ایک چٹکی نسوار جو دنیا ہی بدل ڈالییہ کہنا استعمال کرنے والوں کا ہیکہ نسوار کا نشہ ہی ایسا ہے۔نسوار صرف پاکستان میں ہی نہیں دنیا بھر میں استعمال کی جاتی ہے۔نسوار Roman pane نامی راہب نے ایجاد کیسفر کے دوران نسوار کا ابتدائی استعمال امریکہ سے شروع ہوا اور یورپ میں اور دنیا بھر میں 17 ویں صدی میں عام ہوا۔نسوار استعمال کرنے والوں میں نپولین بونا پارٹ کنگ جارج تھری ملکہ شارلٹ اور کئی ملکوں کے بادشاہ شامل ہیںہندوستان میں غیر ملکی کمپنیوں کی آمد کے ساتھ برصغیر پاک وہند میں عام ہوئینسوار کی موجودہ اقسام میں ہری نسوار اور کالی نسوار کا استعمال عام ہے۔جو تمباکو،کوئلے کی راکھ اور چونے کی مدد سے بنائی جاتی ہے۔کالی نسوار کے لئے خصوصی تمباکو صوابی سے آتا ہے جس پر حکومت ٹیکس لیتی ہے اس لیے یہ کہنا کہ یہ کسی مخصوص خطے کی ثقافت ہے غلط ہے۔
اس سلسلے میں سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ رگوں میں پھیلتا یہ زہر معاشرے کے وجود کو اس طرح کھوکھلا کر رہے ہیں جیسے لکڑی کو گھن کھا جاتا ہے۔یہ جسم کے ہر حصے کو کمزور اور تباہ کر دیتے ہیں۔ یہ وہ سستے زہر ہیں جو بڑی آسانی سے دستیاب ہیں۔ جو اپنے مسائل سے راہ فرار چاہتے ہیں وہ بکثرت استعمال کر رہے ہیں اور مزید ذہنی پریشانیوں اور بیماری کا شکار ہو رہے ہیں لوگوں کی اکثریت اخلاقی لحاظ سے ناکارہ ہوتی جا رہی ہے اور جنون بڑھتا جا رہا ہے سکون اور لذت کی حرص بڑھتی جا رہی ہے۔سپریم کورٹ نے ملک میں تمباکو نوشی گٹکا نسوار اور پان کے بڑھتے مضر اثرات کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے وفاق اور چاروں صوبائی آئی جیز کو انکے خلاف کرنے والے اقدامات کی رپورٹ طلب کی ہے مگر سچ تو یہ ہے کہ ان کی ترسیل اور تقسیم کو قانون والے ادارے اور ایجنسیاں کنٹرول کرنے میں ناکام ہیںاس لیے ئی کمیونٹی والوں کا فرض بنتا ہے اپنے قرب وجوار میں نشہ کی ترسیل اور استعمال کرنے والوں پر نظر رکھین۔
والدین سے گذارش ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ وقت گذاریں تا کہ وہ اپنی تعلیم پر توجہ دیں اور راہ راست پر رہیں۔حکومت سے درخواست یے کہ وہ اس کی روک تھام کے لیے مستقل بنیادوں پر کام کرے محض وعظ اور تلقین کے بجائے سخت اقدامات رےمیڈیا اور ذرایع ابلاغ سے وابسطہ افراد پر لازم ہے کہ کسی ٹی وی پروگرام یا ڈرامے کے ذریعے یہ پیغام نہ دیا جائے کہ ڈپریشن اور ٹینشن کا علاج سگریٹ نوشی میں ہے۔تعلیمی اداروں اور اساتذہ کو چاہیے کہ قوم کے بچے بچیاں ان کا کردار اور ان کا مستقبل ان اداروں اور اساتذہ کے پاس امانت ہوتا ہے وہ ان کی مکمل پاسبانی کریں اور کوئی ایسا چور راستہ نہ رہنے دیں کہ ان بچوں کے نشان اس رستے پر پڑ سکیں یہ ہمارا کل کا روشن مستقبل ہیں ان کی رگوں میں یہ زہر پھیلنے سے پہلے ہمیں اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہو گا۔خدا ہمارا حامی و ناصر ہو آمین
تحریر : ارم فاطمہ