میں اپنی کتاب(اصول و اسلوبِ زندگی) لکھنے بیٹھا تھاکہ اچانک سوال پیدا ہوا کہ زندگی ہے کیا۔۔۔؟ بہت مطالعہ کیا۔۔۔! بہت تجزیے دیکھے۔۔۔! تجربات کا مشاہدہ کیا۔۔۔! تبصرہ نگاروں سے ملا۔۔۔! شاعروں و ادیبوں سے پوچھا۔۔۔! کہ شاید زندگی کے بارے میں کوئی تو جانتا ہو گا کہ کیا ہے زندگی ۔۔۔؟ مگر ہر چند کچھ باتیں کر کے خاموش ہو گیا۔۔۔ مگر کیوں۔۔۔؟ میں نے ہر کسی کے تجربے و مشاہدے و تجزیے کا بخوبی مطالعہ کیا کہ شاہد کچھ سمجھ میں آجائے مگر سب کچھ نا پید ہی رہا، کچھ سمجھ نہ آیا کہ کیا ہے زندگی۔۔۔؟ زندگی تو دور کی بات ۔۔۔ میں ۔۔۔ زندگی ۔۔۔ کے ” ز”۔۔۔۔ کے نقطہ “.” سے آگے بڑھ ہی نہیں سکا تو زندگی کو کیا سمجھ پاتا، زندگی چیز ہی ایسی ہے کہ ہر چند اور ہر پل اور ہر دور میں اس کی تعریف تبدیل ہوتی گئی۔
ہاں۔۔۔! جب زندگی ۔۔۔ کے ” ز”۔۔۔۔ کے نقطے “.” کو بغور دیکھا اور اس کے ارد گرد گھوما تو کچھ سمجھ میں آیا کہ اسی ایک نقطہ کے وجود سے ہی ہماری زندگی کا قیام عمل میں آیا، یہ ایک نقطہ “.” بظاہر تو کچھ نہیں مگر اپنے اندر پوری ایک داستان لیے بیٹھا ہے۔ انسان اگر اسی ایک نقطہ “.” کو دیکھے کہ یہ نقطہ “.” کس طرح انسانی روپ میں بدل جاتا ہے۔ کائنات کی ہر چیز کو دیکھا تو ہر چیز کے اندر یہ نقطہ “.” موجو د پایا، آسمان، زمین، پہاڑ، سمندر، دریا، پتھر ، سانس، جاندار، بے جان، یہاں تک کہ موت و حیات میں بھی اسی نقطہ “.” کی موجودگی کو دیکھا تو تب یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ آخر یہ نقطہ “.” ہی اصل زندگی کا نام ہے۔
نقطہ “.” نے ہم کو مسکرانے کا طریقہ پتایا، رونے کے اسباب بتائے ، رشتہ داری نبھانے کے اصول بتائے، دوستی کے فوائد اور دشمنی کے نقصانات سے آگا ہ کیا، اللہ کی اطاعت و فرمانبردای کے قواعد سے آشنا کیا، ختمِ نبوت کو مانتے ہوئے اللہ کے پیارے حبیب ﷺ سے محبت کے قائدے بتائے، یہ وہی نقطہ ہے کہ جس نے ہم کو رزق حلال کمانے کے طریقے بتائے، موت کے بعد کیا کچھ ہونے والا ہے اسی نقطہ “.” نے ہم کوبتا یا ،بڑوں کا ادب اور چھوٹے سے شفقت سے پیش آنے کا سبق دیا، اس نقطہ “.” نے گویا کہ زندگی کے تمام تر پہلوؤں کو ہم پر عیاں کر دیا۔
انسان نہ جانے کیا کچھ پڑھتا ہے، کتنی ڈگریاں ہاتھ میں اُٹھا لیتا ہے، کیا سے کیا بن جاتا ہے، مگر کبھی اس نے ایک پل کے لیے سوچا بھی ہے کہ اس نے جو کچھ پڑھا ہے، جو علم حاصل کیا ہے اس پر اسکا عمل کتنا ہے، زمین پر اس قدر اکڑ اکڑ کر چلتا ہے کبھی ایک پل کے لیے بھی سوچا ہے کہ زمین کے انداسکے ساتھ کیا ہو نے والا ہے۔ دنیا میں ہر کسی کے حقوق کو پا مال کرتا جا رہا ہے، ہر کسی کی اقدار کو روندتا ہوا آگے بڑھتا جا رہا ہے، کیسے انسانیت کو پامال کر تا جا رہا، کیسے دوسروں کے حقوق کو تلف کرتا جارہا ہے، دن رات دنیا ، اور بس دنیا کی فکر لائق رہتی ہے اس کو، کبھی اس کو خوف خدا نہیں آتا، کبھی اس کے دل میں رحم نہیں آتا ۔ کیا ۔۔۔؟ اس کو پتہ نہیں۔۔۔؟ کہ کل کو میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔۔۔؟ یہ دنیا جس میں مجھ کو غرور ہے اس کے اگلے سانس پر بھی میر ا قابو نہیں۔ یہ مخلوق اللہ عزوجل کو کس قدر پیاری ہے ، اور میں اس مخلوق کے ساتھ کیا کچھ کر رہاہوں۔
زندگی کی کتاب کو سمجھنا تو ناممکن تھا مگر اس نقطہ “.” نے یہ بات ضرور سمجھا دی کہ “جس دل میں اللہ کا خوف اور محمد عربی ﷺ کا پیار نہیں تو وہ انسان نہیں”۔ کیوں کہ یہ دو چیزیں ہی ایسی ہیں کہ خوف خدا سے بندہ ہر برے کام سے بری رہتا ہے اور عشق مصطفی ﷺ سے ہر نیک کام کرنے کو من کرتا ہے۔
زندگی کو سمجھتے سمجھتے نہ جانے کتنوں نے اپنی جانوں کے نظرانے دیئے ہیں، تاکہ سمجھ پائیں کہ زندگی کیا ہے۔۔۔؟ اور کس طریقے سے گزارنی ہے۔۔۔؟ زندگی کے اسلوب کیا ہیں۔۔۔؟ اس کے فائدے کیا ہیں۔۔۔؟ مگر زندگی کو غور تو کریں کہ زندگی ہے کیا۔۔۔؟ زندگی ایک ایسا لفظ ہے کہ جو کسی بھی وقت ختم یا تبدیل ہو سکتا ہے، اور اس کے اگلے پل یا لمحے کی کسی کو کوئی بھی خبر نہیں کہ اس کے ساتھ کیا ہو گا۔ کوئی نشانی بھی نہیں ، کوئی علامات بھی نہیں، کوئی گارنٹی بھی نہیں، کوئی بچاؤ کا طریقہ بھی نہیں ۔ پھر ۔۔۔ اس قدر نا تواں و نا قدر چیز کی اہمیت اس قدر کیوں۔۔۔؟
زندگی ۔۔۔ کے ” ز”۔۔۔۔ کے نقطہ “.” سے میں نے آخر میں ایک بار پوچھا کہ تم یہ تو پتا ؤ کہ جب تم کچھ بھی نہیں ہو۔۔۔؟ تو پھر تم کیا ہو۔۔۔؟تمہاری ذات اتنی چھوٹی اور اہمیت اتنی زیادہ کیوں ہے۔۔۔؟ تیری افادیت کیا ہے۔۔۔؟ تیرا مقام کیا ہے۔۔۔؟ تیری بلندی و برتری کیا ہے۔۔۔؟ تیر ا قانون کیا ہے۔۔۔؟ تیرا اصول کیا ہے۔۔۔؟ آخر کا رتم کیا سبق دینا چاہتے ہو۔۔۔؟ تم کیا بتا نا چاہتے ہو۔۔۔؟ تم کتنی گہرائی رکھتے ہو۔۔۔؟ تمہارا کوئی مقام و انتہا ہے ۔۔۔؟ تو اس زندگی ۔۔۔ کے ” ز”۔۔۔۔ کے نقطہ “.” نے مسکراتے ہوئے جوا ب دیاکہ میرا ہی دوسرا نام”زندگی ” ہے۔